شرعی قانون نے " جرم و سزاء " کا جو ضابطہ مقرر کیا ہے اس میں سزائیں تین طرح کی ہیں۔ (1) کفارہ (2) حد (3) تعزیر

حد ترمیم

ایسی سزا جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے اور ساتھ ہی متعین ہے، اس سزا کو جاری کرنے کا اختیار تو حاکم یا حکومت کو ہے مگر اس میں قانون سازی کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے، اس طرح کی سزا کو شریعت میں حد کہتے ہیں جیسے زنا کی پاداش میں سنگساری (رجمشراب پینے کے عوض درے سے مارنا یا چور کا ہاتھ کاٹ دینا۔ اسلام میں ان جرائم کا ارتکاب انسانی نہیں احکام خداوندی کی حدود سے تجاوز کرنا ہے اس لیے مجرم کو سزا بھی خدا کی مقرر کردہ ہی دی جاتی ہے۔[1]

فلسفہ و منطق ترمیم

فلسفہ اور منطق کی اصطلاح میں حد کے معنی تعریف کے ہیں۔ ’’تعریفات جرجانی ‘‘ میں حد وہ صفات ہیں جو ایک چیز کو دوسرے سے ممیز کرتی ہیں۔ علم الافلاک میں حد برج کے ساتھ ملحقہ علاقے کے معنی میں آتا ہے۔ علم تصوف میں حد سے مراد انسان اور مخلوق ہے اور اس کے مقابلے میں خدا تعالٰی کی ذات کو لامحدود کہا جاتا ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. مظاہر حق، مولف نواب قطب الدین خاں دہلوی