حسین بن علی الجعفی

امام  ویکی ڈیٹا پر (P511) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حضرت حسین بن علی الجعفیؒ
(عربی میں: الحُسين بن علي الجعفي بن الوليد الكوفي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش ۱۱۹ ھ میں
کوفہ
تاریخ وفات سنہ 819 (82–83 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ ابو عمارہ حمزہ الکوفی،  سفیان ثوری،  سفیان بن عیینہ  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص احمد بن حنبل،  اسحاق بن راہویہ،  یحییٰ بن معین،  ابو اسحاق جوزجانی  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث،  عالم  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر فضیل ابن عیاض  ویکی ڈیٹا پر (P737) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسبترميم

حسین نام اورابو عبداللہ یا ابو محمد کنیت تھی، والد کا نام علی اورجدِ امجد کا ولید تھا [1] جعفی بن سعد العشیرۃ سے نسبتِ ولاءرکھنے کے باعث الجعفی مشہور ہوئے۔ [2]

مولدترميم

ان کی ولادت ۱۱۹ ھ میں بمقام کوفہ ہوئی، علامہ ابنِ سعد کا بیان ہے کہ وہ اوران کے بھائی محمد جڑواں پیدا ہوئے تھے [3]کچھ عرصہ بعد جزیرہ منتقل ہوکر وہیں مستقل طور پر رہنے لگے تھے۔ [4]

فضل وکمالترميم

علم و فضل،زہد وتقویٰ اور عبادت وریاضت کے اعتبار سے نہایت بلند مرتبہ تھے،متعدد تابعین کرام کے نگار خانہ علم سے اپنے دل ودماغ کو منورکرنے کی سعادت حاصل کی تھی، زمہرۂ اتباع تابعین میں اس حیثیت سے وہ نہایت ممتاز تھے کہ علم کے ساتھ عمل میں اتنا بلند مقام بہت کم ہی کے نصیب میں آسکا، یہ ان کی جلالتِ مرتبت اور عظمتِ شان ہی کا ثمرہ تھا کہ سفیان بن عیینہ جیسے فاضل اورامام عصر ان کی از حد تعظیم وتکریم کرتے تھے، ایک بار حسین الجعفی حج کے لئے مکہ تشریف لے گئے، وہاں ابن عیینہ کو ان کی آمد کی اطلاع ہوئی تو فوراً ملنے تشریف لائے اور فرطِ عقیدت میں ان کی دستِ بوسی کی، علاوہ ازیں عبداللہ بن ادریس ،ابو اسامہ اور کوفہ کے دوسرے بہت سے محدثین وشیوخ ان کی خدمت میں باریابی کو مایۂ صد افتخار وناز تصور کرتے تھے،علامہ ابنِ سعد رقمطراز ہیں: وکان مألفاً لا ھل القرآن واھل الخیر [5] وہ اہل قرآن واہلِ الخیر کا مرجع تھے۔ امام خزرجی نے احد الاعلام والزھاد اورحافظ ذہبی نے شیخ الاسلام ،الحافظ المقری،الذاھد القدوۃ، لکھ کر ان کے فضل وکمال کو سراہا ہے۔ [6]

قرآنترميم

قرأت قرآن میں کامل عبور حاصل تھا،اس فن میں انہیں شہر ۂ آفاق، ماہر قرأت سبعہ حمزہ بن حبیب الزیات سے شرف تلمذ حاصل تھا [7]مہارتِ فنی ہی کی وجہ سے شائقین کو قرآن کا درس بھی دیا کرتے تھے،ابن سعد لکھتے ہیں: له فضل قارئا للقرآن يقريء الناس [8] وہ بڑے فاضل قرآن کے قاری تھے اور لوگوں کو اس کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ خلیفہ ہارون الرشید نے ایک بار کسانی سے دریافت کیا کہ لوگوں میں سب سے بڑا قاری کون ہے؟ جواب دیا :حسین بن علی الجعفی، عجلی بیان کرتے ہیں: کان یقرأ الناس رأس فیہ وکان صالحاً [9] وہ لوگوں کو قرآن پڑھاتے تھے اس میں وہ ماہر تھے اورصالح انسان تھے۔

حدیثترميم

حدیث نبوی میں ان کا پایہ بہت بلند تھا،اس کی تحصیل انہوں نے کبارائمہ سے کی تھی، اس وقت کبار تابعین کی مجلسیں اجڑتی جارہی تھیں، لیکن پھر بھی سلیمان الاعمش اورہشام بن عروہ جیسے علماء علم وفضل کی قندیلیں فروزاں کئے موجود تھے، حسین الجعفی نے ان سے پوری طرح کسبِ ضو کیا ،بالخصوص زائدۃ ان کے دولت کدہ پر خود تشریف لاتے اورحدیث بیان کیا کرتے،اسی بنا پر شیخ مذکور سے سب سے زیادہ روایت کرنے کا شرف حسین ہی کو حاصل ہے۔ نمایاں اساتذہ حدیث میں مذکورہ علماء کے علاوہ موسیٰ الجہنی،لیث بن ابی سلیم ،جعفر بن یرقان،زائدہ،فضیل بن مرزوق،حسین بن حرابن ابی داؤد ،اسرائیل بن موسیٰ ،فضیل بن عیاض کے اسمائے گرامی لائق ذکر ہیں۔ [10]

درسِ حدیث اور تلامذہترميم

ایک عرصہ تک حسین الجعفی غالباً فرطِ احتیاط کی بنا پر درسِ حدیث سے احتراز کرتے رہے،لیکن پھر ایک شب انہوں نے حالتِ خواب میں دیکھا کہ حشر ونشر کا ہنگامہ کارزار گرم ہے اور ایک منادی صدا لگارہا ہے کہ علماء جنت میں داخل ہوجائیں،انہی کے ہمراہ حسین الجعفی بھی جانے لگے تو یہ کہہ کر انہیں روک دیا گیا کہ: اجلس لست منھم انت لا تحدث تم بیٹھے رہو تمہارا شمار علماء میں نہیں، اس لئے کہ تم حدیث نہیں روایت کرتے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے درس وروایت حدیث کا جو سلسلہ شروع کیا تو آخر عمر تک برابر قائم رکھا؛چنانچہ ان کے شاگردِ رشید حمید بن الربیع بیان کرتے ہیں کہ: فلم یزل یحدث فی البرد والحر والمطرحتیٰ کتبنا عنہ اکثر من عشرۃ الاف [11] پھر وہ برابر گرمی،سردی،برسات ہر موسم میں درسِ حدیث دیتے رہے حتیٰ کہ ہم نے ان سے دس ہزار حدیثوں کی کتابت کی۔ ان کے خرمنِ علم کے خوشہ چینیوں میں امام احمد،اسحاق ،ٰٰیحییٰ بن معین، محمد بن رافع، ابن الفرات، عباس الدوری،محمد بن عاصم، عبداللہ بن ابی عوانہ،ابوبکر بن ابی شیبہ ،ابوکریب ،ہارون الحمال،شجاع بن المخلد،ہنا والسری،ابنِ ابی عمر، عبد بن حمید، ابو سعود الرازی اورعراق کے دوسرے بہت سے مشاہیر علماء شامل ہیں۔ [12]

ثقاہتترميم

علماء ومحققین نے بالاتفاق ان کی ثقاہت وعدالت اورتثبت واتقان کو تسلیم کیا ہے، محمد بن عبدالرحمن ہروی کہتے ہیں "مارأیت اتقن منہ"[13] احمد العجلی کا بیان ہے "کان ثقۃ" [14] عثمان بن ابی شیبہ کا قول ہے‘بخ بخ ثقۃ صدوق’ علاوہ ازیں یحییٰ بن معین،امام بخاری،ابن سعد اورابنِ حبان نے بھی توثیق کی ہے۔

زہد وعبادتترميم

انہوں نے پوری زندگی حالتِ تجرد میں گذاردی، بلاشبہ انسانی زندگی کا یہ نہایت پر از محن مرحلہ ہوتا ہے،جس سے شاذونادر ہی کوئی کامیابی سے گزرتا ہے لیکن حسین الجعفی کا دامنِ زہد وورع بہت پاک وصاف رہا،غالباً اسی بنا پر وہ بکثرت عبادت کرتے تھے تاکہ دنیا اوراس کے مزخرفات سے قطعی بے التفاقی اوربے رغبتی رہے؛چنانچہ ان کی کتاب زندگی میں اس باب کو بڑی اہمیت وعظمت کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے،علامہ ابن جوزی رقمطراز ہیں: کان من العلماء العباد [15] وہ عبادت گزار علماء میں تھے۔ ابن سعد لکھتے ہیں "کان عابدً اناسکاً" یحییٰ بن یحییٰ کابیان ہے کہ ان بقی احد من الابدال ال فحسین الجعفی [16] اگر صوفیہ میں کوئی باقی رہا تو وہ حسین الجعفی ہیں۔ حافظہ ذہبی خامہ ریز ہیں کان مع تقدمہ فی العلم رأما فی الذھد والعباد [17] وہ بایں ہمہ علم وفضل،زہد وتقویٰ میں بھی بلند مرتبہ تھے۔

مناقب وفضائلترميم

اوپر مذکور ہوا کہ وہ تمام زندگی مجرد رہے اور ۸۴ برس پر محیط اس طویل ترین مدت کا بیشتر حصہ مسجد میں درس وتدریس اورعبادت وریاضت میں گذارا، ابنِ سعد کی روایت ہے کہ ساٹھ سال تک مسلسل مسجد جعفی میں اذان دی[18] خوف وخشیت الہی اس درجہ غالب تھا کہ زندگی بھر نہ تو کبھی ہنسے اورنہ مسکرائے،حجاج بن حمزہ بیان کرتے ہیں کہ: مارأیت حسینا الجعفی ضاحکاً ولا متبسما ولا سمعت منہ کلمۃ رکن فیھا الی الدنیا [19] میں نے حسین الجعفی کو کبھی ہنستے اورمسکراتے نہیں دیکھا اور نہ کوئی ایسی بات ان کے منہ سے سُنی جس میں دنیا کی طرف کوئی میلان ظاہر ہو۔ ایک مرتبہ خلیفۂ وقت ہارون الرشید سے مکہ میں ملاقات ہوگئی،خلیفہ نے سلام عرض کیا،جب انہیں علم ہوا کہ یہ خلیفہ وقت ہیں تو بڑی جامع نصیحت فرمائی: یاحسن الوجہ انت مسٔول عن ھذاالخلق کلھم [20] اے حسین چہرے والے تو اس ساری خلق خدا کا ذمہ دار ہے خلیفہ یہ سُن کر رونے لگا۔

علماء کی رائےترميم

تمام فضلا وعلماء نے ان کے جلالتِ علم وعمل کا برملا اعتراف کیا ہے،امام احمد کا ارشاد ہے کہ میں نے کوفہ میں حسین الجعفی سےبڑا کوئی فاضل نہیں دیکھا،وہ تو بالکل راہب تھے [21] ابو مسعود الرازی کہتے ہیں "افضل من رایت الجفری وحسین الجعفی [22]احمد العلی کا بیان ہے: وکان صالحاً لم اررجلاً قط افضل منہ وکان صحیح الکتاب [23] وہ نیک انسان تھے، میں نے ان سے افضل کوئی انسان نہیں دیکھا وہ صحیح الکتاب تھے۔ سفیان ثوری کا قول ہے"ھذاراھب"

حلیہترميم

نہایت حسین اورخوبرو تھے۔ [24]

وفاتترميم

ہارون الرشید کے ایامِ خلافت میں ذی القعدہ ۲۰۳ھ میں بمقام کو فہ انتقال فرمایا[25]اس وقت ۸۴ سال کی عمر تھی [26]سنہ وفات کے متعلق ۲۰۴ھ کا بھی قول ملتا ہے،لیکن امام بخاری، ابنِ سعد،ابن قانع،مطین اورابنِ حبان نے اول الذکر ہی کو بالجزم صحیح ترین قراردیا ہے۔

حوالہ جاتترميم

  1. (تہذیب التہذیب:۲/۳۵۷،وخلاصہ تذہیب تہذیب الکمال :۸۴)
  2. (اللباب فی الانساب:۲/۲۳۱)
  3. (طبقات ابن سعد:۶/۲۷۶)
  4. (کتاب الانساب:۱۳۱)
  5. (طبقات ابن سعد:۶/۲۷۷)
  6. (خلاصہ تذہیب،تہذیب الکمال:۸۴،وتذکرۃ الحفاظ:۱/۳۲۰)
  7. (ایضاً)
  8. (طبقات ابن سعد:۶/۷۶)
  9. (تہذیب التہذیب:۲/۳۵۸)
  10. (طبقات ابن سعد:۶/۲۲۷،وخلاصہ تذہیب التہذیب:۱/۸۴)
  11. (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:۸۴، وتہذیب التہذیب:۲/۳۵۸)
  12. (کتاب الانساب:۱۳۱ ومرأۃ الحنان :۲/۸)
  13. (تہذیب التہذیب:۲/۲۵۸)
  14. (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۲۰)
  15. (صفوۃ الصفوۃ:۳/۱۰۴)
  16. (العبرنی خبر من غبر:۱/۳۳۹)
  17. (ایضاً:۳۳۹)
  18. (طبقات ابن سعد:۶/۲۷۶)
  19. (تہذیب التہذیب:۲/۳۵۸)
  20. (کتاب صفۃ الصفوۃ:۳/۱۰۵)
  21. (مراۃ الجنان:۲/۸ والعبر،:۱/۳۴۱،وخلاصہ تذہیب:۸۴ وصفۃ الصفوۃ :۳/۱۰۴)
  22. (تہذیب التہذیب:۲/۳۵۸)
  23. (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۲۰)
  24. (تہذیب التہذیب:۲/۳۵۸)
  25. (طبقات ابن سعد:۶/۲۷۷،وصفۃ الصفوۃ:۳/۱۰۵)
  26. (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۲۰)