حکیم صفدر علی وارثی
حکیم صفدر علی وارثیکی پیدائش 1840ء میں اترپردیش کے ضلع بارہ بنکی کے موضع گدیا میں ہوئی تھی۔ آپ کے والد کا نام شیخ سعادت علی [1] تھا۔ حکیم صفدر علی وارثی مشہور صوفی بزرگ حاجی وارث علی شاہ کے مرید اور خلیفہ تھے۔ حاجی وارث علی نے آپ کو حکیم مہاجن کا لقب دیا تھا۔ آپ حکیم خاذق کے نام سے پورے ضلع بہرائچ میں مشہور تھے۔[2]
حکیم صفدر علی | |
---|---|
پیدائش | صفدر علی 1840 موضع گدیا ضلع بارہ بنکی اتر پردیش بھارت |
وفات | 1952ء محلہ برہمنی پورہ بہرائچ اتر پردیش بھارت |
آخری آرام گاہ | محلہ برہمنی پورہبہرائچ،اتر پردیش بھارت |
پیشہ | ،حکمت |
زبان | اردو،فارسی |
قومیت | بھارتی |
نسل | بھارتی |
شہریت | بھارتی |
دور | انیسویں صدی |
موضوع | نعت ،غزل |
نمایاں کام | جلوئے وارث |
رشتہ دار | حکیم محمد اظہر وارثی،اظہار وارثی |
خاندان
ترمیمحکیم صفدر علی کا تعلق اودھ بارہ بنکی ضلع کے موضع گدیا کے ایک زمیندار خاندان سے تھا۔ آپ کے والد موضع گدیا کے روہانی پیشوا تھے۔ آپ کے خاندان کا تعلق حاجی وارث علی شاہ کے خاندان سے تھا۔ جب ّآپ بہرائچ ہجرت کر کے آئے اور طباعت کا پیشہ اختیار کیا۔ آپ شہربہرائچکے مشہور شاعر حکیم محمد اظہر وارثی کے چچا اور اظہار وارثیکے دادا ہیں۔
خدمات
ترمیمآپ نے حاجی وارث علی کی حیات پر ایک کتاب جلوائے وارث کے نام سے لکھی تھی جو اب نایاب ہے۔ اس کتاب میں آپ نے حمد و نعت،منقبت بھی لکھی ہے۔ حاجی وارث علی صاحب کے حکم سے آپ نے 1910 کی دہائی میں بارہ بنکی سے شہر بہرائچ کو منتقل ہوئے اور یہی سکونیت اختیار کی۔ حاجی وارث علی شاہ آپ کی زندگی میں کئی بار بہرائچ تشریف لائے اور آپ کے گھر پر قیام کیا۔[1] آپ شہر بہرائچ کے مشہور حکیموں میں سے تھے۔ آپ کی حکمت کی خاص بات یہ تھی کہ آپ کی دوا کی قیمت 2 پیسے سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ مریض کو شفا صرف ایک ہی خوراک میں ہو جاتی تھی۔ آپ کا ایک واقعہ بہت دلچسپ ہے ایک بار ایک دہاتی مریض آپ کے مطب پر آیا اس کو دوا کا نسخہ لکھ دیا اور کہا کی دوا کو لے جا کر عبال لینا اور چھاں کر صبح اور شام پینا۔ لیکن وہ مریض بازار سے دوا لینے کے نسخہ ہی صبح اور شام چھاں کر پینے لگا اور دوبارہ جب حکیم صاحب کے پاس آیا تو نسخے کے تمام تکڑے دامن میں باندھ لایا اور حکیم صاحب سے کہا کہ بڑی مشکل سے بس اتنا بچا ہے۔ حکیم جی نے مریض سے کہا کی اب حال بتاؤ کیسا یے تو اس مریض نے کہا کی روپیے میں بارہ آنے فایدہ ہے اور چار آنہ رہ گیا ہے۔ تب حکیم صاحب نے اس مریض کو دوسرا نسخہ دیا اور تاکید کی کی عبد الرحمن کی دکان سے دوا لے لینا۔ تب اس مریض نے اس دوا کو استمال کیا اور جو چار آنے بھر باقی تھا وہ بھی شفایابی اس مریض کو ہو گئی۔[2]
وفات
ترمیمحکیم صفدر علی وارثی کا انتقال 1952ء 122 سال [2] کی عمر میں شہر بہرائچ میں ہوا اور آپ کی تدفین آپ ہی کی رہائش گاہ میں باہری کمرے میں ہوئی جہاں آپ مریضوں کو دیکھتے تھے اور لوگوں سے ملاقات کرتے تھے۔[1]
حوالہ جات
ترمیم- اردو ویکیپیڈیا کے لیے اظہار وارثی کا انٹرویو
- نقوش رفتگاں از عبرت بہرائچی