حیاتیاتی ہتھیار
حیاتیاتی ہتھیار (Biological weapon) یا جراثیمی ہتھیار سے مراد ایسا ہتھیار ہے جس میں عموماً جراثیم کو استعمال کیا جاتا ہو۔ ایسے ہتھیار علانیہ اور خفیہ طور پر مختلف ممالک تیار کرتے ہیں۔ اگرچہ ایک سو ممالک نے 1972 میں ایک معاہدہ کی رو سے فیصلہ کیا ہے کہ انھیں تیار نہ کیا جائے اور ذخیرہ نہ کیا جائے مگر حیرت انگیز طور پر انھیں استعمال کرنے پر اس معاہدہ میں کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ حالانکہ 1925 میں جنیوا میں ایک معاہدہ کے تحت ان کے استعمال پر عالمی پابندی لگائی گئی تھی۔ بہت سے ممالک انھیں تیار بھی کرتے ہیں اور گاہے بگاہے استعمال بھی کرتے ہیں۔ جنگی لحاظ سے ایک اچھا حیاتیاتی ہتھیار اسے سمجھا جاتا ہے جس کے جراثیم ایک سے دوسرے فرد کو تیزی سے لگ جاتے ہوں، ہوا کے ذریعے پھیل سکتے ہوں اور جلدی تیار کیے جا سکتے ہوں مگر اس کا توڑ بھی موجود ہو تاکہ اپنے لوگوں کو اس سے بچایا جا سکے۔
تیار کنندہ
ترمیمحیاتیاتی یا جراثیمی ہتھیار سب سے پہلے برطانیہ اور امریکا نے تیار کیے مگر اور ان کے علاوہ جراثیمی تحقیقاتی ادارہ کے مطابق سترہ مزید ممالک پر بھی شبہ ظاہر کیا گیا ہے جن میں بھارت، اسرائیل، شمالی کوریا، روس، ایران، عراق، شام، مصر، چین، ویت نام، لاوس، کیوبا، بلغاریہ، جنوبی افریقا، لیبیا، جنوبی کوریا اور تائیوان شامل ہیں۔ ریاستہائے متحدہ امریکا نے ایسے ہتھیار بھی تیار کیے تھے جو زراعت کو نقصان پہنچاتے ہوں مثلا گندم اور چاول کی فصلوں کے مخصوص جراثیم جو کلسٹر بم کے ذریعے سے دشمن کے علاقے میں پھینکے جا سکتے ہوں یا ہوا میں چھڑکاؤ کیے جا سکتے ہوں۔ اگرچہ ظاہراً 1970 میں ان کی تیاری امریکا نے بند کر دی تھی۔
تاریخ
ترمیمحیاتیاتی یا جراثیمی ہتھیار قدیم زمانے سے استعمال میں ہیں۔ پہلے ان کی صورت یہ تھی کہ دشمن کے پانی کے ذرائع کو زھر آلود کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ جراثیموں سے ناواقفیت کے باوجود دشمن کے پانی کے ذرائع میں فنجس اور ایسے پودے ڈالنے کی مثالیں بھی موجود ہیں جن سے اس پانی کے پینے والے بیمار ہو جائیں یا مر جائیں۔ ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ طاعون کے مریضوں کی لاشوں کو دشمن کے علاقے میں پہنچا دیا جاتا تھا۔ مثلاً 1710 میں روس نے سویڈن کے ساتھ جنگ میں ایسا ہی کیا۔ امریکا میں یورپی لوگوں نے بہت سی ایسی بیماریاں پھیلائیں جن سے امریکا کے قدیمی باشندے لاکھوں کی تعداد میں مرے۔ اس کا تذکرہ لارڈ جیفرے ایمھرسٹ نے کیا ہے۔ کہ 1756-1763 میں فرانسیسیوں نے امریکا کے قدیمی باشندوں (ریڈ انڈین) میں ایسے کمبل تقسیم کیے جن میں خسرہ کے جراثیم تھے یعنی انھیں ایسے لوگوں نے استعمال کیا تھا جن کو خسرہ تھی۔ یاد رہے کہ امریکا میں اس سے پہلے یورپی بیماریاں نہیں تھیں اور مقامی باشندے آسانی سے موت کے منہ میں چلے جاتے تھے۔ ایسے ہی کمبل 1834 میں رچرڈ ھنری نے سان فرانسسکو میں تقسیم کیے اور کئی مقامات پر بیچے۔ بیسویں صدی میں امریکا میں باقاعدہ طور پر فورٹ ڈسٹرکٹ کی تجربہ گاہ میں کئی جراثیم جنگی نقطہ نظر سے تیار کیے گئے جن میں انتھراکس جیسے جراثیم شامل تھے۔ سرد جنگ کے دوران امریکا اور روس نے اس میدان میں بہت تحقیق کی اور متعدد جراثیم اور ان کے توڑ تیار کیے۔ کوریا کی جنگ (1950-1953) کے دوران امریکا نے ان ہتھیاروں کو استعمال بھی کیا۔[1]
امریکا نے ہمیشہ ایسے الزامات سے انکار کیا ہے۔
ستمبر 2001 میں امریکا خود ایسے ہتھیاروں کا شکار ہونے لگا تھا جب امریکی کانگرس اور دوسرے مشہور لوگوں اور دفاتر کو ایسے خط ملے جن میں انتھراکس کے جراثیم پاؤڈر کی شکل میں موجود تھا لیکن تاحال اس کے ذمہ داروں کا اور ان کے مقصد کا پتہ نہیں چل سکا اور بعض لوگ اسے ایک امریکی ڈراما سمجھتے ہیں۔
حیاتیاتی ہتھیار اور ایڈز(AIDS)
ترمیمایڈز کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ انسانی طور پر تیار کردہ جراثیموں کی مدد سے پھیلی۔ اور یہ امریکا نے اپنی ایک فوجی تجربہ گاہ میں تیار کیے تھے۔ یہ فوجی تجربہ گاہ فورٹ ڈسٹرکٹ، میری لینڈ، امریکا میں واقع ہے۔ اور USAMRIID کہلاتی ہے۔ یہ صرف ایک سازشی نظریہ نہیں بلکہ امریکا اور مغربی دنیا کے بے شمار لوگ اس کے قائل ہیں اور اس سلسلے میں ان کی تحقیق بھی موجود ہے مثلاً
- ھیمبولٹ یونیورسٹی، جرمنی کے ایک پروفیسر جیکب سیگل کی تحقیق کے مطابق امریکی فوجی تجربہ گاہ میں یہ عمل دو جرثوموں Visna اور HTLV-1 کی مدد سے 1977 میں کیا گیا۔ یہ تجربہ جیل کے کچھ قیدیوں کے اوپر کیا گیا جن کو جلدی رہا کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ اس پروفیسر پر امریکا نے روس کا جاسوس ہونے کا الزام لگایا
- نوبل انعام یافتہ ونگاری متھائی (Wangari Maathai) کے خیال کے مطابق ایڈز کا جراثیم حیاتیاتی ہتھیاروں کے تجربات کی پیداوار ہے۔ اور انسانی ہاتھوں سے بنا ہے۔
- مصنف ڈاکٹر ایلن کینٹول (Dr. Alan Cantwell) نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ایڈز کا جرثومہ جینیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے اور امریکا میں اسے تیار کرنے والے تجربات کا ذمہ دار ڈاکٹر وولف زمونس (Dr. Wolf Szmuness) تھا۔[2]
- ڈاکٹر لیونارڈ ہوروز (Dr. Leonard G. Horowitz) نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ایڈز کا جرثومہ امریکی فوجی تجربات کی پیداوار ہے۔[3]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Ed Regis, "Wartime Lies? Two historians contend that the United States engaged in germ warfare nearly 50 years ago", نیو یارک ٹائمز، (June 27, 1999)
- ↑ AIDS and the Doctors of Death: An Inquiry into the Origin of the AIDS Epidemic and Queer Blood: The Secret AIDS Genocide Plot, Dr. Alan Cantwell-
- ↑ Emerging Viruses: AIDS & Ebola. Nature, Accident or Intentional? and Death in the Air: Globalism, Terrorism and Toxic Warfare BY Dr. Leonard G. Horowitz
ویکی ذخائر پر حیاتیاتی ہتھیار سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |