حبیب تنویر

بھارتی اداکار اور ڈراما نگار (2009-1923)


حبیب تنویر :: پیدائش 1 ستمبر 1923ء، ہندی فلموں کے اداکار، ڈراما نگار اور تھیٹر ڈائریکٹر، جنھوں نے راہی، فٹ پاتھ، چرن داس چور، گاندھی، یہ وہ منزل تو نہیں، ہیرو ہیرا لال، پر ہار، منگل پانڈے اور بلیک اینڈ وہائٹ نامی فلموں میں کام کیا۔ ۔[6]

حبیب تنویر
 

معلومات شخصیت
پیدائش 1 ستمبر 1923ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رائے پور [2]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 8 جون 2009ء (86 سال)[3][1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بھوپال [2]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی علی گڑھ یونیورسٹی
رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ (–1955)[4]
برسٹل اولڈ وِک تھیٹر اسکول   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تخصص تعلیم اداکاری   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ڈراما نگار [2]،  اداکار [2]،  سیاست دان ،  مصنف [2]،  ہدایت کار [2]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان ہندی [5][2]،  اردو [2]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک ترقی پسند تحریک   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
سنگیت ناٹک اکادمی ایوارڈ  
جواہر لعل نہرو فیلوشپ
 فنون میں پدم شری  
 پدم بھوشن    ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

اردو- ہندی کے ڈراما نگار اور تھئیٹر ڈائریکٹر۔حبیب تنویر 1 ستمبر 1923ء کو وسطی ہندوستان کے شہر رائے پور میں پیدا ہوئے اور اپنے کرئیر کا آغاز صحافت سے کیا۔ موسیقی اور شاعری سے بھی شغف رہا

مشہور ڈرامے ترمیم

بیب تنویر کی مشہور ترین تخلیقات میں آگرہ بازار( 1954) اور چرنداس چور(1975) شامل ہیں۔ انھوں نے 1959 میں نیا تھئیٹر کے نام سے ایک ڈراما کمپنی قائم کی۔ 1972 میں راجیہ سبھا کے رکن بنائے گئے۔

نیا انداز ترمیم

اس کے علاوہ وہ ملک کے اعلی اعزازات سے بھی نوازے گئے لیکن شاید انھیں سب سے زیادہ یاد اس لیے کیا جائے گا کہ انھوں نے اپنے ڈراموں میں بڑے ناموں کی بجائے لوک فنکاروں کو استعمال کیا اور ان گلیوں اور بازاروں کو ہی سٹیج بنایا جن کی کہانی وہ بیان کر رہے تھے۔ اس تجربہ کا آغاز آگرہ بازار سے ہوا جو اٹھارویں صدی کے شاعر نذیر اکبر آبادی کی زندگی اور ان ک تخلیقات پر مبنی تھا۔ نذیر اکبر آبادی خود عام لوگوں کے بارے میں انھیں کی زبان میں لکھتے تھے۔ اس ڈرامے کے لیے حبیب تنویر نے روایتی انداز سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے دلی کے مقامی لوک فنکاروں اور 'سٹریٹ آرٹسٹس' کو استعمال کیا۔ اردو کے تھیٹر ڈرامے کے تنقیدی نظریہ دان اور نقاداحمد سہیل نے اپنے مضمون " تنویر حبیب کا ڈراما " آگرہ بازار میں لکھتے ہیں ، "آگرہ میں بازار پر افسردگی کا راج ہے اور کچھ نہیں بکتا۔ ایک کھیرا بیچنے والے کو لگتا ہے کہ اگر اسے اپنی مصنوعات کی خوبیوں کے بارے میں لکھی ہوئی نظم مل جائے تو یہ بہتر فروخت ہوگی۔ وہ کئی شاعروں سے رجوع کرتا ہے لیکن وہ اس کی درخواست کو ٹھکرا دیتے ہیں۔ آخر میں وہ شاعر نظیر کے پاس جاتا ہے جو اسے فوراً پابند کرتا ہے۔ وہ کھیرے کے بارے میں نظیر کا گانا گاتا ہے اور اس کے پروڈکٹ کے لیے گاہک جمع ہوتے ہیں۔ دوسرے دکان دار - لڈو والا، تربوز والا، وغیرہ - اس کی پیروی کرتے ہیں اور جلد ہی پورا بازار نظیر اکبر آبادی کے گانوں سے گونجنے لگتا ہے۔اس مرکزی پلاٹ کے ارد گرد ایک نوجوان آوارہ کی کہانی بنی ہے جو ایک ویگن کا پیچھا کرتا ہے اور اپنے حریف ایک پولیس انسپکٹر کے ہاتھوں انجام کو پہنچتا ہے، جسے وہ محبت کے اس کھیل میں پہلے شرمندہ کر چکا ہے۔ ٹی اے، ممبئی کے سرگرم رکن ہونے کے علاوہ، وہ ایڈیٹر اور ڈراما نقاد بھی رہ چکے ہیں۔ ان کی کچھ اہم پروڈکشن جن میں آگرہ بازار، مٹی کی گاڑی، چرنداس چور، جن لاہور نہیں دیکھا، راجکت اور بہت کچھ شامل ہے"

بامقصد تھیٹر ترمیم

اس کے بعد انھوں نے تین سال برطانیہ کی رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹس میں تربیت حاصل کی اور یورپ میں مختلف ہدایت کاروں کے کام کا مطالعہ کیا۔ وہ سب سے زیادہ متاثر جرمن تمثیل نگار ربٹولٹ براخت کے کام سے ہوئے۔ ہندوستان لوٹنے پر تنویر اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ جب تک اپنی ثقافتی روایات کا بھرپور استعمال نہ کیا جائے، سماجی اعتبار سے بامقصد اور فنی اعتبار سے دلچسپ تھئیٹر ممکن نہیں ہے۔ یہیں سے اس سفر کا آغاز ہوا جو آگے چل کر ان کے منفرد اور انقلابی انداز ہدایت کاری کی پہچان بن گیا۔

مقامی زبان ترمیم

لیکن ان کے ہدایت کاری کے سفر میں سب سے اہم موڑ انیس سو ستر کے بعد آیا جب انھوں نے آگرہ بازار کو ایک نئے انداز میں پیش کرتے ہوئے اپنی کمپنی، نیا تھئیٹر کے فنکاروں کو، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق چھتیس گڑھ سے تھا، اپنی مقامی زبان میں مکالمات ادا کرنے کی آزادی دی۔ چرنداس چور حبیب تنویر کا سب سے مقبول ڈراما ثابت ہوا جو تقریباً تین دہائیوں تک ہندوستان اور یورپ میں سٹیج کیا گیا۔ انتقال 8 جون 2009 بروز پیر بھوپال میں ان کا انتقال ہو گیا۔

حوالہ جات ترمیم