میزائل
میزائل جسے انگریزی میں missile کہا جاتا ہے اصل میں ایک قسم کا راکٹ کی مانند یا پھینکا جانے والا اسلحہ ہے جو اپنے ہدف پر پہنچ کر اپنا کام انجام دیتا ہے اور اسی لیے اس کا شمار طبعیاتی اصولوں کے مطابق قذیفہ (projectile) میں کیا جاتا ہے۔ میزائل کے انجن ٹھوس ایندھن اور مائع ایندھن سے چلتے ہیں اور یہ لانچ کرنے کے بعد فضا میں عمودی سفر کرتا ہے اور چند ہی سیکنڈ میں دو سو سے تین چار سو (میزائل کی نوعیت کے مطابق)کلومیٹر فضا میں جا کر اپنے منتخب شدہ ہدف کی طرف رخ کر لیتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے قہر بن کر اپنے ہدف پر گر جاتا ہے اور اس کے اگلے حصے میں لگے ہوئے بم(وا رہیڈ) پھٹ جاتے ہیں اور تباہی پھیلا دیتے ہیں۔ میزائل دیگر ہتھیاروں جیسے توپ، رائفل اور جہاز کے بموں کی نسبت موثر ہتھیار سمجھا جاتا ہے جو نہ صرف اپنے راستے اور ہدف کو تلاش کرتا ہے بلکہ وقتِ ضرورت خود کشی بھی کر لیتا ہے۔ جب کسی فنی خرابی کی وجہ سے میزائل اپنے ہدف کو تلاش نہیں کرپاتا یا راستے کا تعین کرنے میں دقت محسوس کرتا ہے اور جبکہ اس کے پاس وقت بھی بہت کم ہوتا ہے تو ایسے میں یہ خود کشی کر لیتا ہے اور زمین پر گرنے سے پہلے ہی فضا میں پھٹ جاتا ہے۔
اقسام
ترمیممیزائلوں کی کئی اقسام ہیں۔ ان میں ایک فضا سے فضا میں مار کرنے والا میزائل (اے اے ایم) ہے جو ایک جہاز سے دشمن کے جہاز کو گرانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ گائیڈڈ میزائل بھی کہلاتا ہے اور اس میں راکٹ موٹر لگی ہوتی ہے جس میں ٹھوس ایندھن استعمال کیا جاتا ہے لیکن اب فضا سے فضا میں مار کرنے والے ایسے میزائل بھی بن چکے ہیں جن میں عام مائع ایندھن استعمال ہوتا ہے۔ یہ میزائل دوسرے جہاز سے نکلنے والے دھوئیں اور حرارت سے اپنے ہدف کا تعین کرتے ہیں۔
دوسری قسم فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل ( اے ایس ایم یا اے جی ایم )کی ہے جو جنگی جہاز سے زمین پر یا سمندر میں واقع کسی ہدف کو نشانہ بناتا ہے۔ اس میں بھی راکٹ موٹر یا جیٹ انجن استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ لانگ رینج اور شارٹ رینج بھی ہوتے ہیں جبکہ اس ضمن میں روسی میزائل سب سے زیادہ تیز رفتار اور دور ہدف پر پہنچنے والے سمجھے جاتے ہیں۔ اس قسم کے میزائل اپنے نشانے کا تعین لیزر گائیڈنس سسٹم کے علاوہ انفراریڈ گائیڈنس سسٹم، آپٹیکل گائیڈنس اور جی پی ایس سنگنلز کے ذریعے کرتے ہیں۔ ان سسٹم کا اطلاق ہدف کی نوعیت پر ہوتا ہے۔ سمندر میں واقع ہدف کے لیے آپٹیکل سسٹم یعنی ریڈار کے ذریعے کیا جاتا ہے جبکہ زمینی ہدف کے لیے دیگر سسٹم سے کام لیا جاتا ہے۔ اسی نوعیت کے میزائل فضا سے زمین پر استعمال کرنے کے ساتھ زمین سے زمین پر مار کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں
زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائل کو میزائلوں کی تیسری قسم کہا جاتا ہے۔ ٹوماہاک میزائل فضا سے زمین پر مار کرتا ہے جبکہ اے جی ایم86، اے جی ایم 84 ہارپون دونوں مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں جبکہ یہ سمندری ہدف کے علاوہ زمینی ہدف پر مار کرنے میں استعمال ہو سکتے ہیں۔ اسی نوعیت کے میزائلوں میں ایک اور قسم اینٹی ٹینک میزائل کی ہے جو زیادہ تر میدان جنگ میں دشمن کے ٹینکوں کو تباہ کرنے کے لیے ہیلی کوپٹر سے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کروزمیزائل، اینٹی شپ میزائل اور اینٹی ریڈار میزائل بھی اسی قسم کے میزائلوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ جبکہ زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل فضا میں موجود دشمن کے جہازوں کو گرانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں یہ میزائل انفراریڈ اور لیزر سسٹم پر کام کرتے ہیں۔ سٹنگر میزائل بھی اسی نوعیت کا ہے۔ اس کو انسانی کندھے پر رکھ کر چلایا جا سکتا ہے۔
میزائلوں کی چوتھی قسم بلاسٹک میزائل(بی ایم) ہے جس میں نیوکلیائی،کیمیائی یا حیاتیاتی اور روایتی اسلحہ استعمال کیے جاتے ہیں اور عموماً دور فاصلے پر موجود ہدف کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان میں بین البراعظمی بلاسٹک میزائل (آئی سی بی ایم ) بھی شامل ہیں جو ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک مار کرتے ہیں۔ شمالی کوریا کا زیر بحث میزائل جس کا تجربہ ابھی ہونے والا ہے وہ بھی انٹر کانٹی نینٹل میزائل میں شمار ہوتا ہے۔ پہلا بلاسٹک میزائل A-4 تھا جسے وی ٹو راکٹ بھی کہا جاتا تھا اور یہ1930 اور 1940 کے درمیانی عرصے میں جرمنی نے بنانے شروع کیے تھے جبکہ اس کا پہلا کامیاب حملہ 3 اکتوبر 1942، دوسرا کامیاب حملہ 6 ستمبر 1944 کو پیرس پر ہوا اور مئی 1945 کو لندن پر بھی اسی میزائل کے ذریعے حملے کیے گئے۔ دوسری جنگ عظیم میں 3000 کے قریب اس نوعیت کے میزائل ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیے گئے۔ یہ میزائل تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ بلاسٹک میزائل فکسڈ اور موبائل پلیٹ فارموں سے لانچ کیے جا سکتے ہیں۔ ان کو زمین کے علاوہ ہوائی جہاز، بحری جہاز اور آبدوز سے بھی فائر کیا جا سکتا ہے۔ ان میں شارٹ رینج بلاسٹک میزائل (ایس آر بی ایم ) ایک ہزار کلومیٹر تک مار کرتے ہیں۔ وی ٹو راکٹ، سکڈ اور SS21 مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائل میں شمار ہوتے ہیں۔ درمیانی فاصلے والا بلاسٹک میزائل ایک ہزار سے دو ہزار پانچ سو کلومیٹر تک مار کرتا ہے۔ انٹر میڈیٹ رینج بلاسٹک میزائل ڈھائی ہزار کلومیٹر سے تین ہزار پانچ سو کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کرتا ہے۔ سب کانٹی نینٹل میزائل پینتیس سو کلومیٹر سے چار ہزار پانچ سو کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کرتا ہے۔ جبکہ انٹر کانٹی نینٹل بلاسٹک میزائل پینتالیس سو کلومیٹر سے زائد اور چھ ہزار کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کرتا ہے۔ لمیٹڈ رینج انٹر کانٹی نینٹل بلاسٹک میزائل (ایل آر آئی سی بی ایم ) آٹھ ہزار کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کرتا ہے جبکہ فل رینج انٹر کانٹی نینٹل بلاسٹک میزائل (ایف آر آئی سی بی ایم ) بارہ ہزار کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کر سکتا ہے۔ میزائلوں کی پانچویں قسم اینٹی بلاسٹک میزائل (اے بی ایم) کی ہے۔ جو بلاسٹک میزائل کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے دنیا میں ابھی صرف دو سسٹم موجود ہیں ایک امریکا کا سیف گارڈ سسٹم جو ایل آئی ایم 49A سپارٹن اور سپرنٹ میزائلوں پر انحصار کرتا ہے اور دوسرا روس کا نظام (اے 35 سسٹم) ہے۔ امریکی نظام سیف گارڈ کی نسبت روس کا A 35 نظام زیادہ موثر اور چالو حالت میں ہے۔ جبکہ امریکا کا ایسا ہی دوسرا نظام زمینی مڈکورس ڈیفنس(جی ایم ڈی) ہے جس کو پہلے این ایم ڈی نظام کہا جاتا تھا اور یہ ابھی حال ہی میں ابتدائیییی سطح پر چالو ہوا ہے۔ جبکہ ان کے علاوہ امریکا کا ہی پیٹریاٹ، نیوی کا کمبیٹ سسٹم اور اسرائیل کا ایرو نظام بھی اسی نوعیت کے ہیں مگر یہ بھی ابھی ابتدائیییی سطح کے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکا میں سابق صدر ریگن کے سٹار وارز نامی دفاعی نظام کو بیس برس بعد جارج بش کے حکم پر دوبارہ شروع کیا گیا ہے۔ اس نظام کے تحت 2004 تک الاسکا کے علاقے میں دس انٹرسیپٹر میزائیل نصب کیے جا چکے ہیں جو امریکا کی طرف آنے والے کسی میزائیل کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جبکہ اسی طرح بعد میں دس مزید انٹرسیپٹر نصب ہوں گے جن میں زمین اور سمندر سے مار کرنے والے میزائیل اور خلاء میں قائم سینسر بھی شامل ہوں گے۔ امریکا اب تک اس نوعیت کے آٹھ تجربے کر چکا ہے جن میں سے تین ناکام رہے اور پانچ کامیاب ہوئے۔ اسی طرز پر انٹی سیٹلائٹ میزائل ہے جو زمین سے خلا میں مار کرتا ہے۔ ان کے علاوہ دنیا میں دیگر نوعیت کے میزائل بھی موجود ہیں جن میں ابدالی، غوری I، غوری II، غوری III، غزنوی، حتف I، کندور، جیریکو، ایم 5، ایم 45، ایم 51، نوڈونگ، پیس کیپر، پلوٹن، پلورس، پوسی ڈین، پرتھوی، سکڈ، شہاب 3، شہاب 4، شہاب 5، شاہین، سکائی بولٹ، ائیر لانچڈ بلاسٹک میزائل، ایس ایس 18، ایس ایس 24، تائی پو ڈنگ I،تائی پوڈنگ 2، ٹرائی ڈینٹ، اگنی، وی ٹو، عنزہ، بکتر شکن، بابر، حسین، سٹینگر، دھنش قابلِ ذکر ہیں۔
پاکستان کا حتف 7یا بابر میزائل زمین سے زمین اور زمین سے سمندر میں مار کرنے والے میزائل کی قسم کا ہے جو ہر طرح کے جوہری اور روایتی اسلحہ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کی حد پانچ سو کلومیٹر ہے۔ بابر میزائل کی نشان دہی کسی بھی ریڈار سسٹم یا دفاعی سسٹم پر نہیں ہو سکتی اور اس میزائل کو زمین کے علاوہ جنگی کشتی، آبدوز اور ہوائی جہاز کے ذریعے بھی پھینکا جا سکتا ہے اور یہ پاکستان کے سرکردہ سائنسدانوں اور انجینئروں کی کاوش کا نتیجہ ہے۔ پاکستان نے سب سے دور مار کرنے والے میزائل شاہین ٹو کا بھی تجربہ کیا ہوا ہے اور یہ میزائل جوہری اسلحہ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ شاہین 2، دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے اور متعدد بھارتی مقامات تک باآسانی پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ شاہین میزائل کو پاکستان میں سب سے اہم بلاسٹک میزائل سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ غوری ،حتف اور عنزہ میزائل بھی موجود ہیں۔ یہ زمین سے فضا، زمین سے زمین اور اور فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل ہیں۔
زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کی فہرست میں سب سے زیادہ خطرناک میزائل روسی ساختہ اِگلا نامی میزائل ہے جو کچھ ہی عرصہ قبل ایک برطانوی سوداگر نے امریکا میں بھی اسمگل کیا تھا۔ اس میزائل کے ذریعہ امریکی صدر بش کے طیارے ’ایئر فورس ون‘ کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔ اِگلا میزائل جدید ہتھیاروں کی اس قسم سے تعلق رکھتا ہے جو زمین سے فضا میں مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ دس ہزار فٹ کی بلندی تک اڑنے والی ہر چیز کو تباہ کر سکتا ہے۔ یہ میزائل بوسنیا کی جنگ کے دوران بھی استعمال کیے گئے تھے۔ جبکہ دو سال قبل چیچنیا میں ایک روسی فوجی جہاز کو مار گرایا گیا تھا جس میں ایک سو اٹھارہ روسی فوجی سوار تھے۔ خیال ہے کہ اس جہاز پر بھی اِگلا میزائل ہی داغا گیا تھا۔ اِگلا میزائل روسی ساختہ ہے اور اس کی فروخت 80 اور90 کی دہائی میں ہوئی تھی۔ یہ جہاز کے انجن سے خارج ہونے والی حرارت کا پیچھا کرتے ہوئے اپنے شکار کو جا لیتا ہے۔ اسی نوعیت کے امریکی میزائل سٹنگر ہیں جو افغان روس جنگ میں آزمائے گئے۔ اب بھی افغانستان میں سینکڑوں سٹنگر میزائل موجود ہیں جو جنگ کے دوران امریکہ نے روسی طیاروں کو گرانے کے لیے سٹنگر اور دیگر نوعیت کے راکٹ، بارودی سرنگوں اور دھماکا خیز مادے سمیت طرح طرح کے ہتھیار وار لارڈز کے حوالے کیے تھے۔ بعد میں امریکا نے ان میزائلوں کو مجاہدین سے بھاری قیمت پر واپس خریدنے کی کوشش بھی کی تھی جو کامیاب نہ ہو سکی اور اب بھی افغانستان میں سو کے قریب سٹنگر میزائل موجود ہیں۔ بلکہ ابھی حال ہی میں افغانستان میں بین الاقوامی حفاظتی فوج کے سربراہ کا کہنا ہے کہ انھیں امریکا میں بنے سٹنگر میزائل اور راکٹ فروخت کرنے کی پیشکش کی گئی ہے۔ جنرل اکِن زورلو نے کہا کہ ان کے فوجیوں کو سٹنگر میزائل دو لاکھ ڈالر اور راکٹ پانچ سے دس ہزار ڈالر کی شرح سے فروخت کیے جانے کی پیشکش کی گئی۔ ان کے خیال میں حالیہ دنوں میں کابل پر راکٹ حملوں میں اضافہ ڈیلروں کی طرف سے بین الاقوامی امن فوجیوں پر راکٹ خریدنے کے لیے دباؤ ڈالنے کا حربہ ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کابل میں صحافیوں کو بتایا تھاکہ تقریباً ہر ایسے واقعہ کے بعد انھیں ہتھیاروں کی فروخت کی پیشکش ہوتی رہی۔ امن فوج کے ایک اڈے پر ایک ہفتے کے دوران کم از کم چھ راکٹ داغے گئے۔
ایران کا شہاب سوم میزائل زمین سے زمین پر مار کرنے والا بیلاسٹک میزائل ہے۔ یہ تیرہ سو کلومیٹر دور تک مار کرتا ہے۔ یہ میزائل 1998میں تیار کیا گیا تھا جس کا تجربہ ابھی حال ہی میں کیا گیا ہے جو اسرائیل تک پہنچ سکتا ہے۔ جبکہ اسرائیل کے پاس بھی بیلاسٹک میزائلوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ جیریکو I اور جیریکوII نہ صرف ایران بلکہ تمام اسلامی دنیا اور ایشیا کے دیگر ممالک تک مار کر سکتا ہے۔ فرانس کے ایم 4 اور ایم 45 بیلاسٹک میزائل 4000 اور 5300 کلومیٹر تک پہنچتے ہیں۔ بھارت کا بیلاسٹک پرتھوی 150 سے 250 کلومیٹر جبکہ اگنی 2500 کلومیٹر تک پہنچتا ہے۔ روس کا ایس ایس 18 گیارہ ہزار، ایس ایس 19 دس ہزار، ایس ایس 24 دس ہزار، ایس ایس 25 دس ہزار پانچ سو، ایس ایس این 18 چھ ہزار پانچ سو، ایس ایس این 20 آٹھ ہزار تین سو کلومیٹر تک مار کرتے ہیں۔ برطانیہ کا ٹرائیڈینٹ D5 بارہ ہزار کلومیٹر تک پہنچ سکتا ہے۔ امریکا کا ایل جی ایم 30 G تیرہ ہزار، ایل جی ایم 118نو ہزار چھ سو، یو جی ایم 93 A سات ہزار چار سو، یو جی ایم 133 A بارہ ہزار کلومیٹر تک مار کر سکتے ہیں۔
اب میزائل ٹیکنالوجی عام ہو چکی ہے اور دنیا کے پچاس سے زائد ممالک کے پاس یہ کسی نہ کسی نوعیت کی موجود ہے جبکہ میزائل بھی دیگر عام ہتھیاروں کی طرح دوسرے ممالک سے خریدے جا سکتے ہیں۔ یہ بھی ہتھیار تیار کرنے والے اداروں کی ایک مہنگی اور جدید پراڈکٹ ہے اور ان کو بہتر سے بہتر بنانے کا عمل بھی جاری ہے۔ پہلی جنگِ عظیم میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے میزائلوں کے حصول کی شروع کی ہوئی لڑائی اب اس سطح تک پہنچ چکی ہے کہ اس کو روکنا بہت ہی مشکل ہو گیا ہے۔ اگر امریکا اور اس کے اتحادی اپنے میزائلوں کی تیاری ترک کر دیں اور برابری کی سطح پر بات چیت کے ذریعے ایک دوسرے کو سمجھیں تو تب شاید دیگر ممالک بھی اس نوعیت کے اپنے ہتھیار بنانے چھوڑ دیں کیونکہ دھمکیوں اور لڑائیوں سے یہ باتیں ختم نہیں ہوتیں بلکہ مزید شدت اختیار کر جاتی ہیں۔
بیرونی روابط
ترمیم- علم الخلاء علم الہیئت، حیاتیات خلا (حیاتیات الفلک)، کم ثقلی (حالت بے وزنی)، سفر بین السیارہ، صاروخ (پرتابہ)