خط مُحَقَّق اسلامی خطاطی کا ایک خط ہے جو خط کوفی کے اختراع کے بعد ایجاد میں آیا۔ اِسے اسلامی خطاطی کے قدیم ترین خطوط میں شمار کیا جاتا ہے۔ تیسری صدی ہجری سے بارہویں صدی ہجری تک اِس خط کو سرکاری کاغذات کی ترتیب و تدوین کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ خط کوفی کے بعد اِس خط نے زیادہ شہرت پائی۔ خلافت عباسیہ اور اُس کے ماتحت دیگر سلطنتوں میں اِس خط کے متعدد خطاطین موجود تھے جن کی سرپرستی تک یہ خط تقریباً دس صدیوں تک رائج رہا۔ اِس خط میں حروف تہجی کی پیمائش تحقیق سے کی جاتی ہے، اِسی لیے اِسے خطِ مُحَقَّق کہا جاتا ہے۔ اٹھارہویں صدی عیسوی سے قبل سلطنت عثمانیہ کا سرکاری خط کہلاتا تھا جبکہ اِس کا دورِ عروج مصر کے مملوک سلاطین کا عہد تھا۔

خط محقق میں تحریر کردہ قرآن کریم

تاریخ ترمیم

خط محقق کی بنیاد خط کوفی پر ہے کیونکہ یہ خط کوفی کے بعد ایجاد ہوا ہے۔ عربی زبان کے علم الخط کے قدیم ترین مؤرخ ابن ندیم نے اپنی تصنیف کتاب الفہرست میں اِس خط کا ذِکر خط کوفی کے بعد اور خط ثلث سے قبل کیا ہے۔ یہ مستقل بالذات خط ہے‘ یعنی اِس کو کسی دوسرے خط کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ بعض محققین کے خیال کے مطابق خط کوفی کی وہ قسم جس میں سطح زیادہ ہے‘ اُسی سے ترقی پا کر خط محقق وجود میں آیا ہے۔ اِس خط پر اگر غور کیا جائے تو یہ خط معقلی کے قریب قریب معلوم ہوتا ہے۔ مؤرخ ابن ندیم کے بیان کے مطابق خلیفہ مامون الرشید کے عہدِ حکومت میں اِس خط سے دلچسپی اور شوق عام طور پر پھیل گیا تھا۔ تحسینِ خط کی قدردانی سرکاری سطح پر عام ہو گئی تھی۔ پیشہ ور کاتبین کا ایک طبقہ وجود میں آچکا تھا جن کو وَرَّاق کہا جاتا تھا۔ وہ کتب کو نقل کرتے، جلد باندھتے اور پھر فروخت کر ڈالتے تھے۔ اِس پیشے سے اُن کی روزی وابستہ تھی۔ اُن کے پیشے کا تقاضا یہ تھا کہ ایک طرف وہ زُود نویس ہوں‘ تو دوسری طرف صاف خط اور واضح حروف لکھیں تاکہ پڑھنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے اور پھر اُن کی نقل کردہ کتب جلدی فروخت ہوجائیں۔ اِسی ضرورت کے تحت وَرَّاق مجبور ہوئے کہ خط کوفی کی سادہ شکل سے کوئی نیا خط ایجاد کیا جائے جو صاف ہو‘ واضح ہو اور خوش خط ہو۔ بقول ابن ندیم، اِن وَرَّاق نے ہی یہ خط ایجاد کیا۔[1] خط ثلث اور خط نسخ کی ترویج کے بعد اِس خط کی شہرت کم ہو گئی۔

خصوصیات ترمیم

  • اِس خط کا دَور ڈیڑھ دانگ (حصہ) ہے۔
  • اِس خط کی سطح چار دانگ ہے۔
  • اِس خط کی خوبی یہ ہے کہ اِس میں حروف تہجی کی شکلیں‘ انفرادی حالت میں اور ترکیبی حالت‘ دونوں میں ہی قواعد کے مطابق لکھی جاتی ہیں۔ ضابطے کی پوری طرح پیروی کی جاتی ہے۔
  • حروف کی پیمائش کا اندازہ پورا پورا رکھا جاتا ہے۔ اِس طرح لکھنے میں ہر حرف واضح ہوتا ہے اور دوسرے حروف سے اشتباہ پیدا نہیں ہوتا۔
  • حروف تہجی میں حرف لام کو کاف کی طرح افتادہ لکھا جاتا ہے۔
  • حروف تہجی میں حروف الف، کاف اور لام کا خط بلند تر ہوتا ہے۔
  • حروف تہجی میں گرہ دار حروف یعنی صاد، طا، ہائے ہوزی، ہائے دوچشمی کی گرہ کو وضاحت سے بنایا جاتا ہے۔
  • حروف لام اور الف کے سروں پر قلم سے قدرے خَم دیا جاتا ہے۔[2]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. تاریخ خط و خطاطین: صفحہ 97۔ مطبوعہ لاہور
  2. تاریخ خط و خطاطین: صفحہ 97- 98۔ مطبوعہ لاہور