ابن البواب
ابن البواب (پیدائش: 961ء– وفات: اگست 1022ء یا یکم ستمبر 1022ء) خلافت عباسیہ اور آل بویہ کے زمانے میں عربی کا خطاطاور مصور تھا۔
ابن البواب | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 10ویں صدی[1] بغداد |
وفات | سنہ 1022ء (21–22 سال)[2] بغداد |
شہریت | دولت عباسیہ |
عملی زندگی | |
پیشہ | خطاط |
شعبۂ عمل | اسلامی خطاطی |
درستی - ترمیم |
نام و کنیت
ترمیمابن البواب کا نام علی بن ہلال ابن البواب ہے، لقب ابن البواب اور کنیت ابو الحسن تھی۔ ابن البواب کے والد ہلال آل بویہ کے یہاں دربان تھے، اِسی لیے انھیں ابن البواب اور ابن استری (استر: یعنی پردہ) کے القابات سے یاد کیا جاتا تھا۔بغداد میں صاحب الخط کے لقب سے بھی مشہور تھا۔[3]
خطاطی
ترمیمابن البواب نے اصلاً خطاطی کی تعلیم ابو عبد اللہ محمد بن اسد بغدادی اور ابن جنی (متوفی 1002ء) سے حاصل کی۔ بغداد میں دوسرے اساتذہ خطاطی کی تعلیم پائی۔ فن خطاطی میں محنت اور ریاضت کے سبب اپنا نام پیدا کیا اور اپنے زمانے کا ممتاز ترین خطاط بن گیا اور اِس کی استادی کو مستقبل کے تمام خطاطین نے تسلیم کیا۔ ابن البواب کی فنی صلاحیتوں کی بنا پر بویہی امیر عراق بہاء الدولہ دیلمی (388ھ-403ھ/ 998ء تا 1012ء) کے وزیر فخرالملک ابو طالب نے اُسے اپنا ندیم خاص بنالیا اور پھر کسی مجلس میں ابن البواب کو جدا نہیں کیا۔ کچھ عرصہ تک بہاء الدولہ دیلمی کے کتب خانہ کا منتظم و کتابدار (لائبریرین) بھی رہا۔
اِسی دور میں جبکہ ابن البواب دربارِ آل بویہ سے وابستہ تھا، بہاء الدولہ دیلمی نے کتب خانے سے ابن مقلہ کا خطاطی والا نسخہ قرآن طلب کیا لیکن یہ نسخہ مکمل نہ تھا۔ تیسواں پارہ اِس نسخے میں موجود نہ تھا۔ بہاء الدولہ دیلمی کے حکم پر ابن البواب نے نے آخری پارہ لکھ کر اِس نسخے کو مکمل کر دیا۔ بہاء الدولہ دیلمی خود بھی فن خطاطی اور خطوط کا بڑا نقاد تھا مگر وہ یہ تمیز نہ کرسکا کہ کونسا خط ابن مقلہ کا ہے اور کونسی تحریر ابن البواب کی ہے؟۔[4] ابن البواب کا خط حسن و رعنائی میں ضرب المثل تھا۔
ابن البواب کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ ابن البواب نے 64 مرتبہ قرآن کریم کی کتابت کی ہے اور اِس کی ایک نقل 391ھ (1001ء) کی تحریر شدہ چیسٹر بیٹی لائبریری میں اور دوسری نقل جامع سلطان سلیم مسجد، استنبول میں موجود ہے۔
ناقدین کی نظر میں
ترمیمناقدین کا یہ خیال ہے کہ فن خطاطی میں قواعد سازی اور ضابطہ سازی کا جو سلسلہ ابن مقلہ نے شروع کیا تھا، اُس کو ابن البواب نے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا اور پھر اِن قواعد و ضوابط کے مطابق خطوط کی تزئین و تہذیب کی۔ ابن مقلہ کی خطاطی میں کہیں کہیں خامی یا جھول دکھائی دیتا ہے لیکن یہ خامیاں ابن البواب کے یہاں دکھائی نہیں دیتیں۔ ابن البواب نے خطوط کے تمام نقائص کو دور کرتے ہوئے اُن کے قواعد کو مرتب کیا۔ انھیں کوششوں کے باعث عوام میں ابن مقلہ کے خط کی بجائے ابن البواب کی خطاطی کو مقبولیت ہوئی۔
وفات
ترمیمابن البواب کا انتقال ماہِ جمادی الاول 413ھ/ اگست 1022ء میں بعمر 63 سال قمری (61 سال شمسی) بغداد میں ہوا اور بابِ حرب کے قبرستان میں[5] امام احمد بن حنبل کے مدفن کے جوار میں تدفین کی گئی۔[3][6] امام ابن الجوزی (متوفی 597ھ/1200ء) نے المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم میں ابن البواب کی تاریخ وفات بروز ہفتہ 2 جمادی الثانی 413ھ مطابق یکم ستمبر 1022ء کو ہوئی۔[7] ابن البواب کی وفات پر عربی شعرا نے مرثیے کہے جن میں نقیب الاشراف سید مرتضیٰ موسوی (متوفی 436ھ/1045ء) کا بھی مرثیہ شامل ہے۔ شعرا نے ابن البواب کے خط کو بطور تشبیہ استعمال کیا ہے کیونکہ اُس کا خط حسن و رعنائی میں ضرب المثل تھا۔ ابو العلاء المعری (متوفی 449ھ/ 1057ء) نے شعر میں اُس کے خط کی یوں تعریف کی ہے:
ولاح ھلال مثل نون اجادھا | بماء النضار الکاتب ابن ھلال |
صاحب انیس العشاق شرف الدین رامی (متوفی 795ھ/1393ء) نے لکھا ہے:[8]
از خط و سواد ابروانت بمثال | عاجز شود ابن مقلہ و ابن ھلال |
شاگرد
ترمیمابن البواب کے شاگردوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے جن میں مشہور عالم امام ابن الجوزی (متوفی 597ھ/1200ء) اور یاقوت مستعصمی (متوفی 698ھ/1298ء) ہیں۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Ibn-al-Bawwab
- ↑ عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Ibn-al-Bawwab — بنام: Ibn al-Bawwab — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب ابن العماد الحنبلی: شذرات الذھب، جلد 5، صفحہ 71۔ مطبوعہ بیروت، لبنان۔
- ↑ تاریخ خط و خطاطین: صفحہ 117۔
- ↑ ابن کثیر: البدایہ والنہایہ، جلد 12، صفحہ 38۔ مطبوعہ لاہور۔
- ↑ تاریخ خط و خطاطین، صفحہ 117۔
- ↑ امام ابن الجوزی: المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، جلد 15، صفحہ 155۔ مطبوعہ دارالکب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1415ھ/ 1995ء۔
- ↑ تاریخ خط و خطاطین: صفحہ 117/118۔