ابن مقلہ
ابن مقلہ شیرازی (پیدائش: 886ء — وفات: 20 جولائی 940ء) عباسی وزیر اور ماہر خطاط تھا۔اپنے زمانے کا نادرۂ روزگار شخص تھا۔ عربی زبان کے رسم الخط کی تاریخ میں کوئی دوسرا ماہر خطاط قدرتِ فن میں اِس کی ہمسری نہیں کرسکتا۔ عجیب و غریب شخصیت کا مالک تھا اور اپنے زمانہ میں سیاست میں پورا دخیل تھا۔ ابن مقلہ تین خلفائے عباسیہ کے زمانہ ٔ خلافت میں خلافت عباسیہ کا وزیر مقرر ہوا۔
ابن مقلہ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 886ء [1] بغداد |
وفات | 20 جولائی 940ء (53–54 سال) بغداد |
شہریت | دولت عباسیہ |
مناصب | |
امیر الامراء | |
برسر عہدہ 908 – 936 |
|
عملی زندگی | |
پیشہ | خطاط ، وزیر |
درستی - ترمیم |
ابتدائی حالات
ترمیمابن مقلہ کی پیدائش غالباً 273ھ مطابق 886ء میں بغداد میں ہوئی۔[2] ابن مقلہ کا نام ابوعلی محمد بن بن علی بن الحسین بن مقلہ تھا۔ مقلہ اِس کی پڑدادی تھیں، جب وہ چھوٹی سی بچی تھیں تو اُن کا والد اُن کو کھلاتے ہوئے کہہ رہا تھا: ''مقلۃ ابیھا''، (باپ کی نورِ چشم)۔ اُس وقت سے وہ مقلہ کے نام سے مشہور ہوئیں اور اُن کی اولاد بھی ابن مقلہ کے نام سے مشہور ہوئی۔
تحصیل علم
ترمیمابن مقلہ نے علوم متداولہ کی تعلیم حاصل کی تھی۔ فقہ، قرات، تفسیر اور عربی ادب میں ماہر تھا۔ عموماً شعر بھی کہا کرتا تھا۔ انشاء اور کتابت و مراسلت کا ماہر تھا۔
سوانح
ترمیمابن مقلہ ابتدائی زِندگی میں کمزور اور کم آمدن شخص تھا۔ حالات ناگفتہ بہ تھے لیکن قسمت نے پلٹا کھایا تو خلافت عباسیہ کا تین بار وزیر بنا۔[3] آغازِ کار میں ابن مقلہ دفتر مال (دِیوانی) میں چھ دِینار مشاہرہ پر ملازم ہوا تھا۔ یہ ملازمت ایران کے کسی علاقے میں اُسے حاصل ہوئی تھی۔ بعد ازاں وہ ابی الحسن ابن فرات کا ملازم ہوا اور بغداد چلا آیا۔ بغداد میں اُس کی قابلیت کے جوہر کھلے اور یہاں اُس کی بیش بہاء قدردانی بھی ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ روم و عرب کی جنگ کے بعد صلح نامہ اُس نے اپنے قلم سے لکھ کر روم بھیجا تھا جو وہاں فن (آرٹ) کے شاہکار کی حیثیت سے مدتوں شہنشاہِ روم کے خزانہ میں موجود رہا۔[2] آغازِ کار میں ابن مقلہ دفتر مال (دِیوانی) میں چھ دِینار مشاہرہ پر ملازم ہوا تھا۔ یہ ملازمت ایران کے کسی علاقے میں اُسے حاصل ہوئی تھی۔ بعد ازاں وہ ابی الحسن ابن فرات کا ملازم ہوا اور بغداد چلا آیا۔ بغداد میں اُس کی قابلیت کے جوہر کھلے اور یہاں اُس کی بیش بہاء قدردانی بھی ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ روم و عرب کی جنگ کے بعد صلح نامہ اُس نے اپنے قلم سے لکھ کر روم بھیجا تھا جو وہاں فن (آرٹ) کے شاہکار کی حیثیت سے مدتوں شہنشاہِ روم کے خزانہ میں موجود رہا۔
وزارت
ترمیمالمقتدر باللہ
ترمیمخلیفہ المقتدر باللہ نے 312ھ مطابق 924ء میں ابن مقلہ کو وزیر مقرر کیا۔[4]
القاہر باللہ
ترمیمخلیفہ القاہر باللہ العباسی نے اکتوبر 932 میں ابن مقلہ کو منصبِ وزارت پر فائز کیا۔[4][5] خلیفہ القاہر باللہ کے دور میں ابن مقلہ کی وزارت سے برخاستگی کا معاملہ یوں ہوا کہ امیر بن یعقوب اور ابن مقلہ میں پرانی مخاصمت و مخالفت تھی۔ امیر بن یعقوب نے خلیفہ کو اپنا ہم خیال بنا لیا تو ابن مقلہ اور امیر مونس اور امیر بلیق نے باہم متفق ہوکر مشورہ کیا کہ القاہر باللہ کو تخت خلافت سے اُتار دیا جائے۔ خلیفہ کو اُن کے مشورہ کی خبر ہو گئی تو اُس نے امیر بلیق، امیر مونس اور امیر علی کو بلوا کر اپنے غلاموں کے ہاتھوں قتل کروا دِیا۔ ابن مقلہ اِس اثنا میں کہیں روپوش ہو گیا جس سے اُس کی جان بچ گئی۔ ابن مقلہ کی روپوشی سے عہدہ ٔ وزارت خالی ہو گیا اور ابوجعفر محمد بن قاسم کو وزیر بنایا گیا۔[6] ابن مقلہ کو خلیفہ راضی باللہ کے زمانہ میں عروج حاصل ہوا۔[7]
راضی باللہ
ترمیمراضی باللہ نے تخت نشین ہوتے ہی ابن مقلہ کو دوبارہ عہدہ ٔ وزارت پر فائز کیا۔ عنانِ وزارت ہاتھ میں لیتے ہیں دشمنوں سے ابن مقلہ نے نیک سلوک کیا مگر امیر محمد بن یاقوت سے وہ خائف رہا۔ابن مقلہ نے خلیفہ کو اپنا ہمنواء بنا کر امیرمحمد بن یاقوت اور اُس کے بھائی مظفر کو قید کروا دیا۔ مگر مظفر نے ابن مقلہ سے عہد لے کر آزاد کر دیا۔ فوج کو تنخواہ کے سلسلے میں بھڑکا دیا اور فوج نے ابن مقلہ کو گھیرلیا اور معزول کیا۔ [8] راضی باللہ کے عہد میں تمام اُمورِ خلافت ابن مقلہ اور امیر محمد بن یاقوت وزیر کے اختیار میں تھے۔[9] ابن مقلہ کی وزارت سے معزولی کے بعد خلیفہ اور فوج کے حالات ناگفتہ بہ ہوتے گئے۔ خلافت عباسیہ دورِ زوال سے گذر رہی تھی، خودسر افراد حوصلہ مندی سے حکمرانی قائم کرنے لگے تھے مگر ابھی تک یہ رسم باقی تھی کہ عباسی خلیفہ اُن کی حکومت کی تصدیق کرے۔ عمادالدولہ علی ابن بویہ نے شیراز پر قبضہ کر لیا اور ابن مقلہ سے مقبوضہ علاقوں کی حکومت کی سند کی درخواست کی اور خلیفہ بغداد کی اطاعت کے اقرار کے ساتھ ایک رقم سالانہ پیش کرنے کا وعدہ کیا۔ ابن مقلہ نے وقت کا تقاضا سمجھ کر اِسے منظور کر لیا اور راضی باللہ کی جانب سے خلعت و لوائے حکومت بھجوا دیا۔ اِس سے ابن مقلہ کی عظمت بڑھ گئی۔[10] راضی باللہ کے عہد خلافت میں ابن مقلہ محلاتی سازشوں کا شکار ہوا۔ راضی باللہ کی سخت ناراضی کے باعث وہ عہدہ ٔ وزارت سے معزول ہوا جبکہ ابن رائق والی ٔ بصرہ خلیفہ راضی باللہ کا ہمنوا بن چکا تھا۔ راضی باللہ نے ابن مقلہ کو قید کروا دیا اور قید خانہ میں اُس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ بعد ازاں اُس کی زبان کاٹ دی گئی۔[2]
فن خطاطی
ترمیمابن مقلہ ماہر خطاط بھی تھا۔ اُس نے بے شمار نئے خطوط ایجاد کیے۔ دربارِ اکبری کے مؤرخ ابو الفضل (متوفی 1602ء) نے اکبر نامہ میں لکھا ہے کہ ابن مقلہ نے آٹھ خطوط ایجاد کیے جن کا رواج ایران، ہندوستان، بلاد روم اور توران میں ہے۔[11] خط ثلث اور خط نسخ کی ایجاد بھی ابن مقلہ کی جانب منسوب کی جاتی ہے۔مفتی انتظام اللہ شہابی نے تاریخ ملت میں لکھا ہے کہ: "ابن مقلہ، ابوعلی محمد بن علی بن مقلہ، بڑا فاضل اور اپنے عہد کا بڑا باکمال خطاط تھا۔ اُس کے زمانہ میں اِس فن میں کوئی اُس کا مقابل نہ تھا۔ اُس نے خط کوفی میں ترمیم کرکے ایک نیا خط ایجاد کیا جسے خط نسخ کہتے ہیں۔"[6]
وفات
ترمیمقیدخانے کی صعوبتوں میں ابن مقلہ کا انتقال 12 شوال 328ھ مطابق 20 جولائی 940ء کو 56 سال قمری کی عمر میں ہوا۔اولاً نعش کو مقبرہ ٔ سلطانی میں دفن کیا گیا۔ بعد ازاں ابن مقلہ کے بیٹے ابو الحسین کی درخواست پر اُسے وہاں سے نعش منتقل کرنے کی اجازت مل گئی۔ اُس نے ابن مقلہ کے جسد کو گھر لاکر دفن کیا۔ چند دِن بعد ابن مقلہ کی ایک آزادکردہ کنیر دیناریہ نے وہاں سے جسد کو نکلوایا اور اپنے محل قصرام حبیب میں دفن کروایا۔[2]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Ibn-Muqlah — بنام: Ibn Muqlah — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب پ ت سید محمد سلیم: تاریخ خط و خطاطین، صفحہ 114۔
- ↑ ابن کثیر: تاریخ ابن کثیر، جلد 11، صفحہ 351۔ مطبوعہ لاہور
- ^ ا ب انتظام اللہ شہابی و مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی: تاریخ ملت، جلد 2، صفحہ 468۔ مطبوعہ لاہور
- ↑ المسعودی: التنبیہ والاشراف، صفحہ 282۔
- ^ ا ب انتظام اللہ شہابی و مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی: تاریخ ملت، جلد 2، صفحہ 469۔ مطبوعہ لاہور
- ↑ انتظام اللہ شہابی و مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی: تاریخ ملت، جلد 2، صفحہ 470۔
- ↑ انتظام اللہ شہابی و مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی: تاریخ ملت، جلد 2، صفحہ 482۔
- ↑ انتظام اللہ شہابی و مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی: تاریخ ملت، جلد 2، صفحہ 481۔
- ↑ انتظام اللہ شہابی و مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی: تاریخ ملت، جلد 2، صفحہ 483۔
- ↑ دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 15، صفحہ 963۔ مطبوعہ لاہور، 1984ء