خيرالنساء جعفری

پاکستانی کہانی نویس اور ماہر تعلیم

خيرالنساء جعفری (07 اگست 1947ء - 4 مارچ 1998ء) ((سندھی: خيرالنساء جعفري)‏) پاکستانی کہانی نویس اور ماہر تعلیم تھیں جو حیدرآباد، سندھ سے تعلّق رکھتی تھیں۔ وہ پاکستان کی سندھ یونیورسٹی، جامشورو میں شعبہ نفسیات کی پروفیسر اور چیئرپرسن بھی رہ چکی ہیں۔

خيرالنساء جعفری
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1947ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حیدرآباد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 4 مارچ 1998ء (50–51 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حیدرآباد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن حیدرآباد   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مصنفہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان سندھی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حالات زندگی

ترمیم

خيرالنساء جعفری 7 اگست 1947ء کو پاکستان کے حیدرآباد، سندھ کے ایک گاؤں ٹنڈو ولی محمد میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والدین کا تعلق تلہار، ضلع بدین سے تھا۔ خير النساء کے والد احمد علی خواجہ اسلامی ثقافت کے پروفیسر تھے اور والدہ شیریں ایک گھریلو خاتون تھیں۔ خير النساء نے میران اسکول اور پھر زبیدہ کالج حیدرآباد سے تعلیم حاصل کی۔[1] انھوں نے سندھ یونیورسٹی سے نفسیات میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد خيرالنساء نے 1970ء میں سندھ یونیورسٹی میں نفسیات کے لیکچرر کی حیثیت سے اپنے پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا۔ آپ نفسیات شعبہ کی پروفیسر اور چیئر پرسن کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں۔[2]

خيرالنساء جعفری کو بچپن سے ہی ادب اور لکھنے میں دلچسپی تھی۔ ان کی پہلی کہانی "بے روزگاری اور بندوق"[3] ادبی رسالہ سوجھرو میں شائع ہوئی ۔ جب یہ کہانی شائع ہوئی تھی تو خيرالنساء اس وقت 27 سال کی تھیں۔[3] ان کی مختصر کہانیوں کی پہلی کتاب "تخلیق کی موت" کے عنوان سے 1978ء میں شائع ہوئی۔

سندھی ادب میں، خيرالنساء بولڈ رائٹر کی حیثیت سے مشہور ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ ایک بہت ہی سادہ، صاف ستھری اور ہمدرد خاتون تھیں۔ وہ ایک عمدہ کہانی مصنفہ تھیں۔ وہ کھلی سوچ اور کھلی بات کرنے والی خاتون تھی۔ خيرالنساء کی کہانیاں خواتین کے نفسیاتی، ذہنی، جذباتی اور اندرونی احساسات کی عکاسی کرتی ہیں۔ آپ نے عورت پر ہونے والے جبر اور اس کی کمزوری اور مجبوری کو نہایت دلیری کے ساتھ بیان کیا ہے۔[4]

خيرالنساء کی کہانی "حویليءَ کان ھاسٽل تائین" ( حویلی سے ہوسٹل تک) حویلی کے مرصع ماحول سے ہاسٹل کی کھلی جگہ تک جاتی ہے۔ یہ کہانی اس قدر مشہور ہوئی کہ اس کا ہندی، اردو، چینی اور ملیالم زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔[حوالہ درکار]

وفات

ترمیم

خيرالنساء جعفری کی وفات 4 مارچ 1998ء کو ہوئی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. "خيرالنساءِ جعفري : (Sindhianaسنڌيانا)". www.encyclopediasindhiana.org (سندھی میں). Retrieved 2020-08-02.
  2. Sindhi، Yousif (2016)۔ Sindhi Adab . Hik Sao Sindhi Ji Adeeban aeen Kam Jo Jaizo (In Sindhi)۔ Daro, Sindh: Sachal Ashat Ghar۔ ص 106–108
  3. ^ ا ب Mirza، Nasir (2017)۔ "خيرالنساء جعفري : شخصيت ۽ فن –هڪ اڀياس (Khairu-nnisa Jafery: A Study of her Personality and Literary work)"۔ سنڌي ٻوليءَ جو تحقيقي جرنل (Research Journal of Sindhi Lanuage)۔ Sindhi Language Authority, Hyderabad, Sindh۔ ج 10 شمارہ 2
  4. Shoro, Shaukat Hussain (2012): سنڌ جي دلير خاتون ۽ ڪهاڻيڪار (Brave Woman of Sindh and Story Writer), Sartiyoon. Sindhi Adabi Board, Jamshoro, Sindh, Pakistan. 23 (August–October ( (Khair-un-Nissa Jaferry Number)): pp. 7.