دریائے سندھ کی لڑائی
دریائے سندھ کی لڑائی سن 1221 میں ، خوارزم شاہی سلطنت کے سلطان جلال الدین مِنگوبردی کی بچی کھچی تیس ہزار فوج اور چنگیز خان کی دو لاکھ مضبوط منگول فوج کے مابین دریائے سندھ پر لڑی گئی۔
Battle of Indus | |||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
سلسلہ the وسطی ایشیاء پر منگول حملہ | |||||||||
Genghis Khan watches in amazement as the Khwarezmi Jalal ad-Din prepares to ford the Indus. | |||||||||
| |||||||||
مُحارِب | |||||||||
منگول سلطنت | خوارزم شاہی سلطنت | ||||||||
کمان دار اور رہنما | |||||||||
چنگیز خان | جلال الدین مینگوبردی | ||||||||
طاقت | |||||||||
30,000[1]–50,000 cavalry[2] |
| ||||||||
ہلاکتیں اور نقصانات | |||||||||
Unknown | Most of the army |
پس منظر
ترمیمبخار اور سمرقند سمیت متعدد شہروں کی منگولوں کے ہاتھوں تباہی کے بعد جلال الدین منگبرنو اپنے آدمیوں اور ہزاروں مہاجرین کے ساتھ فارس سے ہندوستان کی طرف جا رہا تھا ۔ غزنی شہر کے قریب [3] پروان کی جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ، جلال الدین منگبرنو اپنے 3000 جوانوں کی فوج اور کئی ہزار مہاجرین کے ساتھ پناہ کے لیے ہندوستان روانہ ہوا۔ تاہم ، چنگیز خان کے زیر قیادت ایک طاقتور فوج نے، جس کی تعداد 25،000–50،000 پیادہ تھی ، جب وہ دریائے سندھ کو عبور کرنے جارہا تھا ، اس کو جا لیا۔
جنگ
ترمیمجلال الدین نے کم سے کم تیس ہزار جوانوں پر مشتمل اپنی فوج کو منگولوں کے خلاف دفاع میں کھڑا کیا ، ایک حصہ پہاڑ کے سامنے کھڑا کر دیا جبکہ اس کا دوسرا حصہ دریا کے موڑ سے ڈھکا ہوا تھا۔ [3] ابتدائی منگول دستہ جس نے جنگ کا آغاز کیا تھا اس کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔ جلال الدین نے جوابی کارروائی کی اور اس نے منگول فوج کے مرکز کو قریب قریب توڑ ڈالا تھا۔ تب چنگیز نے پہاڑ کے چاروں طرف 10،000 جوانوں کا ایک دستہ جلال الدین کی فوج کو گھیرنے بھیج دیا۔ جب اس کی فوج نے دو اطراف سے حملہ کیا تو خوارزمی فوج کی شکست نوشتۂ دیوار ہو گئی تو افراتفری میں جلال الدین دریائے سندھ کو پار کرکے فرار ہو گیا۔
جلال الدین کی فوج سے جو بھی باقی بچا اسے چنگیز خان نے مار ڈالا اور اس کے خاندان کے بچوں اور مردوں کو بھی تہ تیغ کر دیا ، یہاں تک کہ ایک ایک شیرخوار بھی زندہ نہیں بچا تھا اور جلال الدین کے حرم پر قبضہ کر لیا اور اسے منگولیا بھیج دیا ۔ اور اس نے اپنے دو بیٹے اوکتائی اور چغتائی کو اس جگہ چھوڑا کہ اگر سلطان واپس آئے تو اس کو گرفتار کر لیا جائے اور وہ خود آمو دریا کے کنارے لوٹ آیا ۔
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب Trevor N. Dupuy and R. Ernest Dupuy, The Harper Encyclopedia of Military History, (Harper Collins Publishers, 1993), 366.
- ^ ا ب پ Carl Sverdrup (2010)۔ "Numbers in Mongol Warfare"۔ Journal of Medieval Military History۔ Boydell Press۔ 8: 109–17 [p. 113]۔ ISBN 978-1-84383-596-7
- ^ ا ب A Global Chronology of Conflict: From the Ancient World to the Modern Middle, Vol. I, ed. Spencer C. Tucker, (ABC-CLIO, 2010), 273.