حج کے دوران بہت سارے سنگین حادثات ہوتے رہے ہیں اور ان سے ہزاروں انسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ہر صاحبِ حیثیت مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ایک بار حج ادا کرنے کے لیے مکہ پہنچے۔ حج کے مہینے میں مکہ میں لگ بھگ 30 لاکھ عازمین حج آتے ہیں۔[1] ہوائی سفر کی وجہ سے حاجیوں کا مکہ تک کا سفر بہت آسان ہو گیا ہے اور پوری دنیا سے لوگ فریضہ حج ادا کرنے آتے ہیں۔ نتیجتاً حج کے دوران حاجیوں کی تعداد مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ شہری حکام کو لاکھوں عازمینِ حج کے لیے خوراک، رہائش، نکاسی آب اور ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے حادثات سے یکسر بچاؤ ممکن نہیں۔ شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران زیادہ تر حادثات ہوتے ہیں کیونکہ حجاج دو منزلہ پل سے گذرتے ہوئے یہ فرض سر انجام دیتے ہیں۔

2003ء میں یوم حج کے موقع پر جبل رحمت کا منظر۔

بھگدڑ

ترمیم
 
رمی جمار، 2006ء

بعض اوقات بڑھتے ہوئے ہجوم جب ایک مناسک حج سے دوسرے کو سفر کرتے ہیں تو ان میں بھگدڑ مچ جاتی ہے۔ لوگ گھبرا جاتے ہیں اور کچلے جانے سے بچنے کی نیت سے لوگ بھاگنے لگتے ہیں اور سینکڑوں جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ رمی جمار کے دوران سب سے زیادہ حادثات ہوتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک ذیل میں دیے گئے ہیں:

  • 2 جولائی 1990: مکہ سے منیٰ اور میدانِ عرفات کی طرف جانے والی ایک سرنگ جس سے لوگ پیدل سفر کرتے ہیں، اس میں بھگدڑ مچی اور 1,426 افراد جاں بحق ہوئے۔ زیادہ تر کا تعلق ملائیشیا، انڈونیشیا اور پاکستان سے تھا۔[2][3]
  • 23 مئی 1994 کو رمی کے دوران مچنے والی بھگدڑ سے کم از کم 270 حاجی جاں بحق ہوئے۔
  • 9 اپریل 1998 کو جمرات کے پل پر ہونے والے ایک حادثے میں 118 افراد جاں بحق اور 180 زخمی ہوئے۔[4]
  • 5 مارچ 2001 کو رمی کے دوران 35 حاجی کچلے جانے سے جاں بحق ہوئے۔[5]
  • 11 فروری 2003 کو رمی کے دوران 14 افراد جاں بحق ہوئے۔[6]
  • یکم فروری 2004 کو منیٰ میں رمی کے دوران بھگدڑ سے 251 جاں بحق اور 244 زخمی ہوئے۔[7]
  • 12 جنوری 2006 کو حج کے آخری دن رمی جمار کے دوران کم از کم 346 افراد کچل کر جاں بحق ہوئے اور 289 زخمی ہوئے۔ یہ حادثہ دن کے 1 بجے کے بعد پیش آیا جب عازمینِ حج سے بھری ایک بس کے عازمینِ حج پل جمرات کے مشرقی راستے پر پہنچے تو کچھ افراد گر گئے اور یہ حادثہ شدت اختیار کر گیا۔ اس وقت لگ بھگ 20 لاکھ افراد مناسک حج ادا کر رہے تھے۔

اس حادثے کے بعد جمرات کا پل اور شیطان والے ستون ہٹا کر دوبارہ بنائے گئے ہیں۔ ایک زیادہ وسیع اور کئی منزلہ پل بنایا گیا ہے اور شیطان کے ستون بھی نئے اور بڑے بنائے گئے ہیں۔ اب ہر منزل پر آنے اور جانے کے راستے محفوظ تر ہیں۔ مزید برآں رمی کے لیے الگ سے نظام الاوقات بنا دیے گئے ہیں تاکہ اس طرح کے حادثات سے بچا جا سکے۔ جمرات کے میدان کو گول سے بیضوی شکل میں تبدیل کر دیا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ آسانی سے رمی کر سکیں۔ اس کے علاوہ نئے انتظامات کے تحت آنے اور جانے کے راستے الگ کر دیے گئے ہیں۔[8]

  • 24 ستمبر 2015ء کو حج کے دوران بھگدڑ مچنے سے 700 سے زائد حجاج شہید، جبکہ 800 کے قریب زخمی ہوئے۔

آتش زدگی

ترمیم
  • دسمبر 1975 میں گیس کا سلنڈر پھٹنے سے خیمہ بستی میں آگ لگ گئی تھی اور 200 حاجی جاں بحق ہوئے۔[9]
  • 5 اپریل 1997کو منیٰ میں 8 ذو الحجہ کو لگنے والی آگ سے 343 حاجی جاں بحق اور 1500 زخمی ہوئے۔ یہ آگ صبح دس سے رات بارہ بجے تک لگی رہی۔ تب سے خیمے آگ سے محفوظ بنائے جاتے ہیں۔[10]
  • یکم نومبر 2011 کو دو میاں بیوی کوچ میں لگنے والی آگ سے جاں بحق ہوئے۔
  • مظاہرے اور تشدد

    ترمیم
    • 31 جولائی 1987 کو ایرانی مظاہرین اور سعودی فوج کے مابین ہونے والی جھڑپ سے 400 سے زیادہ حجاج جاں بحق جبکہ کئی ہزار زخمی ہوئے۔
    • 9 جولائی 1989 کو دو بم پھٹے جن سے ایک حاجی جاں بحق اور 16 زخمی ہوئے۔ سعودی حکام نے 16 کویتی شیعہ افراد کو بم دھماکوں میں ملوث ہونے اور شیعہ ایجنٹ ہونے کے الزام میں سزائے موت دی۔

    بیماریاں

    ترمیم

    بہت سارے ممالک سے آنے و الے عازمین حج کا آزادانہ میل ملاپ ہونے کی وجہ سے غریب ممالک کے حجاج جن کے پاس صحت کی بہتر سہولیات نہیں ہوتیں، عام بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات یہ بیماریاں وبائی حالت اختیار کر لیتی ہیں۔ ایسے حجاج اپنے گھروں کو واپسی پر بیماری ساتھ لے جاتے ہیں۔ 1987ء کے حج کے بعد گردن توڑ بخار نے اس وقت عالمی وبا کی شکل اختیار کر لی جب حجاج اس بیماری کو اپنے اپنے ممالک میں واپس لے گئے۔ اب یہ ویزہ کی لازمی شرط ہے کہ مخصوص بیماریوں کے خلاف ویکسین کرا لی جائے۔ 2010ء کی شرائط میں زرد بخار، پولیو اور انفلوئنزا کی ویکسین بھی لازمی قرار دی گئی ہیں۔[11][12]

    میرس (مڈل ایسٹ ریسپیریٹری سنڈروم کورونا وائرس)

    ترمیم

    2013ء میں سعودی حکومت نے شدید بیمار اور بوڑھے افراد کو اس سال حج ملتوی کرنے کی درخواست کی اور میرس (مڈل ایسٹ ریسپیریٹری سنڈروم کورونا وائرس|Middle East respiratory syndrome coronavirus) بیماری کی وجہ سے حجاج کی کل تعداد میں بھی کمی کر دی۔[13][14] یکم نومبر 2013 کو ایک خاتون جب حج ادا کر کے واپس سپین پہنچی تو اس بیماری کی علامات ظاہر ہونے لگیں۔[14] اگرچہ یہ بیماری حجاج میں پھیلی تو نہیں لیکن اس کے پھیلنے کے خطرات موجود ہیں۔[15]

    قدیم وبائیں

    ترمیم

    1905ء میں مصر میں 6 حجاج کو جب الطور شہر کے قرنطینہ میں رکھا گیا تو ان میں ہیضے کی علامات پائی گئیں۔

    الغزہ ہوٹل کا حادثہ

    ترمیم

    5 جنوری 2006 کو مسجد الحرام کے پاس ایک کثیر منزلہ ہوٹل کی پختہ عمارت گر گئی۔ اس ہوٹل میں ایک سٹو اور ایک ریستوران بھی تھے۔ ہوٹل میں حجاج کو ٹھہرایا جاتا تھا۔ حجاج کی تعداد کے بارے تو علم نہیں لیکن اس حادثے میں کل 76 افراد جاں بحق اور 64 زخمی ہوئے۔[16]

    دیگر مہلک حادثات

    ترمیم
    • دسمبر 2006ء کے حج کی ابتدا سے پہلے 243 حجاج جاں بحق ہو گئے۔[17] سعودی حکومت کے مطابق اموات کی وجوہات میں دل کے امراض اور بوڑھے لوگوں کا گرمی اور سخت محنت برداشت نہ کر سکنا تھا۔ حج کے بعد نائجیرین حکومت نے اعلان کیا کہ ان کے 33 باشندے فشارِ خون، ذیابیطس اور دل کی وجہ سے ہلاک ہوئے اور یہ ہلاکتیں کسی وبائی مرض سے نہیں ہوئیں۔[18]
    • مصر کی سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق 10 ذوالحجہ کو 22 مصری بھی جاں بحق ہوئے۔[19] جبکہ 50 فلپائنی شہری بھی حان بحق ہوئے جن میں سے 4 بزرگ حجاج کو مکہ میں ہی دفن کیا گیا۔[20] پاکستان کے 130 حاجی جاں بحق ہوئے جن کی اکثریت بہت بوڑھی اور کمزور تھی اور نمونیا اور دل کے امراض سے جاں بحق ہوئے۔
    • دسمبر 2006ء کے اوائل میں حجاج کو مدینہ سے مکہ لے جانے والی ایک کوچ کو حادثہ پیش آیا جس سے 3 برطانوی شہری جاں بحق اور 34 زخمی ہوئے۔[21]
    • نومبر 2011ء میں بیماریوں اور ٹریفک حادثات کے سبب 13 افغان جاں بحق اور درجن بھر زخمی ہوئے۔[22]
    • ستمبر 2015ء کو مکہ کرین حادثہ پیش آیا، جس میں 107 افراد جاں بحق اور 237 زخمی ہوئے۔

    جیب تراشی

    ترمیم

    حالیہ برسوں میں حجاج کو جیب تراشوں سے خاصی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ سیو مدینہ فاؤنڈیشن کے مطابق 2010ء کے حج میں 321 وارداتیں ہوئیں۔[23]

    سرکاری ردِ عمل

    ترمیم
     
    سعودی حکومت نے سی سی ٹی وی کیمروں کا ایک جال بچھایا ہوا ہے جس سے سکیورٹی کا انتظام بہتر ہوگا۔

    ناقدین کے مطابق ایسی صورت حال سے بچاؤ کے لیے سعودی حکومت کو مزید اقدامات کرنے چاہیے تھے۔ سعودی حکومت کے مطابق اس طرح کے عظیم اجتماعات کے دوران لوگوں کو قابو کرنا بہت مشکل اور خطرناک ہو جاتا ہے، تاہم انھوں نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔
    سب سے بڑا اور سب سے متنازع فیصلہ یہ ہوا ہے کہ رجسٹریشن، پاس پورٹ اور ویزوں کے لیے نیا نظام متعارف کرایا گیا ہے۔ اس نظام کے تحت پہلی بار آنے و الے افراد کے لیے سہولیات ہوں گی جبکہ بار بار آنے والے افراد کی آمد کو کم کیا جا سکے گا۔ صاحبِ حیثیت افراد نے جو ایک سے زیادہ حج کرنا چاہتے ہیں، اس پر احتجاج کیا ہے لیکن سعودی حکومت کے مطابق یہ کام بہت ضروری ہے۔
    2004ء کی بھگدڑ کے بعد سعودی حکومت نے جمرات کے پل کے آس پاس بہت بڑا تعمیراتی منصوبہ شروع کیا ہے۔ اضافی راستے اور ہنگامی صورت حال میں نکلنے کے اضافی راستے بنائے گئے ہیں۔ جمرات کے تین ستونوں کی جگہ اب دیواریں لگائی گئی ہیں تاکہ رمی آسان ہو سکے۔ اس کے علاوہ رمی کے لیے پل کی پانچ منزلیں بنانا بھی اس منصوبے کا حصہ ہے۔[24]

    مزید دیکھیے

    ترمیم

    حوالہ جات

    ترمیم
    1. "Pilgrims mark end of peaceful hajj: Circling of Kaaba brings to close perhaps largest-ever pilgrimage to Mecca]"۔ BBC News۔ January 2, 2007۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 ستمبر 2015۔ This year’s hajj was likely the biggest ever, with authorities estimating that around 3 million people participated. 
    2. "True Islam"۔ Quran-Islam.org۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جولا‎ئی 2013 
    3. "A history of hajj tragedies | World news"۔ London: theguardian.com۔ January 13, 2006۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جولا‎ئی 2013 
    4. "Saudis identifying nationalities of 118 dead pilgrims"۔ BBC News۔ April 9, 1998۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 ستمبر 2015 
    5. "BBC News – MIDDLE EAST – Lessons from Hajj deaths"۔ News.bbc.co.uk۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2014 
    6. "Fourteen killed in Hajj stampede"۔ BBC News۔ February 11, 2003۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 ستمبر 2015 
    7. "BBC NEWS – Hundreds killed in Hajj stampede"۔ News.bbc.co.uk۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2014 
    8. "آرکائیو کاپی"۔ 04 جنوری 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 ستمبر 2015 
    9. "Dokumentation: Die schwersten Unglücke bei der Hadsch – SPIEGEL ONLINE"۔ SPIEGEL ONLINE۔ 12 January 2006۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2014 
    10. "Saudi diplomat: Hajj fire was an accident"۔ CNN۔ 1997-04-16۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اپریل 2014 
    11. "WHO – 22 October 2010, vol. 85, 43 (pp 425–436)"۔ Who.int۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2014 
    12. Osamah Barasheed، Harunor Rashid، Leon Heron، Iman Ridda، Elizabeth Haworth، Jonathan Nguyen-Van-Tam، Dominic E. Dwyer، Robert Booy (November 2014)۔ "Influenza Vaccination Among Australian Hajj Pilgrims: Uptake, Attitudes, and Barriers"۔ Journal of Travel Medicine۔ 21 (6): 384–390۔ ISSN 1195-1982۔ doi:10.1111/jtm.12146 
    13. "MERS virus claims three more lives in Saudi Arabia"۔ AFP۔ September 7, 2013 <!- – 8:42 PM -->۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 ستمبر 2013 
    14. ^ ا ب Branswell, Helen (7 November 2013)۔ "Spain reports its first MERS case; woman travelled to Saudi Arabia for Hajj"۔ Vancouver Sun۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2013 
    15. Osamah Barasheed، Harunor Rashid، Mohammad Alfelali، Mohamed Tashani، Mohammad Azeem، Hamid Bokhary، Nadeen Kalantan، Jamil Samkari، Leon Heron، Jen Kok، Janette Taylor، Haitham El Bashir، Ziad A. Memish، Elizabeth Haworth، Edward C. Holmes، Dominic E. Dwyer، Atif Asghar، Robert Booy (14 November 2014)۔ "Viral respiratory infections among Hajj pilgrims in 2013"۔ Virologica Sinica۔ 29 (6): 364–371۔ doi:10.1007/s12250-014-3507-x 
    16. "Mecca Death Toll Rises to 76 – Forbes.com, 6 January 2006"۔ WEb.archive.org۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2014 
    17. "Millions descend on Mecca for haj"۔ Iol.co.za۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2014 
    18. "Nigeria: Hypertension, Diabetes Kill 33 Nigerian Pilgrims in Saudi Arabia"۔ Allafrica.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2014 
    19. "People's Daily Online – 22 Egyptian pilgrims dies during Mecca hajj"۔ English.people.com.cn۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2014 
    20. "Inquirer.net"۔ Newsinfo.inq۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2014 
    21. "Third Briton died in Jeddah crash"۔ BBC News۔ December 10, 2006۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 ستمبر 2015 
    22. "13 Afghan pilgrims die during hajj"۔ Pajhwok.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2014 
    23. "آرکائیو کاپی"۔ 21 مارچ 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2020 
    24. "Hajj ritual sees new safety moves"۔ BBC News۔ January 10, 2006۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 ستمبر 2015 

    بیرونی روابط

    ترمیم