رحمن عباس (انگریزی: Rahman Abbas)(ولادت: 30 جنوری 1972ء) بھارت کے افسانوی ادیب ہیں جنہیں اپنے ناول روحزن کے لیے 2018ء میں بھارت کے عظیم ترین ادبی اعزاز ساہتیہ اکیڈمی اعزاز کے نواز گیا تھا۔[3]،[4][5] وہ اس کے علاوہ انھیں دو صوبائی ساہتیہ اکیڈمی اعزازات بالترتیب ہائیڈ اینڈ سیک (2011ء) اور روزین (2017ء) بھی مل چکے ہیں۔[6][7] وہ واحد بھارتی ادیب ہیں جنھوں نے جرمنی میں لٹپروم اعزاز حاصل کیا ہے۔[8][9] ان کا قلم اردو اور انگریزی میں جوہر دکھاتا ہے۔[10] انھوں نے ممبئی یونیورسٹی نے انگریزی ادب اور اردو ادب میں ماسٹر کی ڈگری لی ہے۔[11] ان کے ناولوں میں عموما ممنوع سیاست اور محبت پر مبنی کہانیاں ہوتی ہیں۔[12]

رحمن عباس
معلومات شخصیت
پیدائش 20 جنوری 1972ء (52 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تھانے [1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی ممبئی یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  انگریزی ،  مراٹھی ،  کونکنی زبان [1]،  ہندی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ   (برائے:Rohzin ) (2018)[2][1]  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

پاکستانی مصنف اور ادیب مستنصر حسين تارڑ کا کہنا ہے کہ رحمن عباس کا تازہ ناول روحزن ایک بے خوف تخلیقی بیانیہ ہے۔ ساہتیہ اکیڈمی کے سابق صدر پروفیسر گوپی چند نارنگ کا کہنا ہے کہ رحمن عباس کا ناول روحزن اردو ناول نگاری میں ایک اہم موڑ ثابت ہوگا۔[13][14][15][16][17]

حیات اور کارنامے

ترمیم

رحمن عباس کے قلم نے اب تک 7 کتابوں کے کاغذوں کو سیاہ کیا ہے جن میں 4 ناول شامل ہیں۔ نخلستان کی تلاش، ایک ممنوعہ محبت کی کہانی، خدا کے سائے میں آنکھ مچولی اور روحزن ان کی ناولوں کے نام ہیں۔[18]،[13]۔ نخلستان کی تلاش 2004ء میں اشاعت پزیر ہوئی۔ بنیاد پرستوں نے اسے تنقید کا شانہ بنایا نتیجتا انھیں جیل میں کچھ دن گزارنے پڑے لیکن 2016ء میں انھیں بری کر دیا گیا۔[19][20][21] انھیں 2011ء میں ان کے ناول خدا کے سائے میں آنکھ مچو لی کے لیے ساہتیہ اکیڈمی کے اعزاز سے نوازا۔[22][23][24]

اعزازات

ترمیم

2011ء مہاراشٹر اسٹیٹ ساہتیہ اکیڈمی رحمن عباس کو ان کے ناول خدا کے سائے میں آنکھ مچولی کے لیے ریاستی ساہتیہ اکیڈمی اعزاز کے نوازا۔[25] 2017ء میں مہاراشٹر اسٹیٹ ساہتیہ اکیڈمی انھیں دوبارہ اس اعزاز سے نوازا مگر اس بات اس کا سبب ان کا شعرہ آفاق ناول روحزن [26]،[19] تھا۔ اسی روحزن کے لیے 2018ء میں ساہتیہ اکیڈمی، دہلی نے انھیں ساہتیہ اکیڈمی اعزاز دیا۔[19]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت http://sahitya-akademi.gov.in/festival/pdf/news_28-1-2019.pdf
  2. http://sahitya-akademi.gov.in/awards/akademi%20samman_suchi.jsp#URDU
  3. "Sahitya Akademi announces winners in 24 languages"۔ 6 دسمبر 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2019 
  4. http://www.uniindia.com/sahitya-akademi-awards-for-2018-announced/india/news/1427020.html
  5. "Sahitya Akademi announces 2018 awards in 24 languages, Rahman Abbas bags Urdu award"۔ 6 دسمبر 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2019 
  6. ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ (6 نومبر 2017)۔ "رحمن عباس کے ناول 'روحزن' کو ریاستی اکیڈمی کا انعام"۔ 07 جولا‎ئی 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2019 
  7. http://epaperlokmat.in/sub-editions/Hello%20Mumbai/2017-11-04/4#Article/LOK_HMUM_20171104_4_8/522px
  8. "Willkommen / LitProm"۔ www.litprom.de۔ 02 جولا‎ئی 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2019 
  9. "Übersetzungsförderung durch Litprom / Zuschuss für zwölf Verlage"۔ www.boersenblatt.net۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2019 
  10. "Urdu Literature Award"۔ 30 جولا‎ئی 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اکتوبر 2019 
  11. "آرکائیو کاپی"۔ 24 ستمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اکتوبر 2019 
  12. TNS Editor۔ "Of forbidden politics and love"۔ TNS – The News on Sunday۔ 15 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اکتوبر 2019 
  13. ^ ا ب Sucharita Dutta-Asane (12 مئی 2018)۔ "Rohzin: First Urdu novel to be discussed in Germany"۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2019 
  14. ZIYA US SALAM۔ "'Writers and thinkers should speak up'"۔ Frontline۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2019 
  15. "Rohzin, A Novel by Rahman Abbas. Password Ep91"۔ siasat-pk.com۔ 19 ستمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2019 
  16. "Rohzin: A monologue to soul – The Indian Awaaz"۔ 16 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2019 
  17. "آرکائیو کاپی"۔ 17 مئی 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اکتوبر 2019 
  18. "Rahman Abbas: 'English writers enjoy more freedom than us'"۔ OPEN Magazine۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2019 
  19. ^ ا ب پ "Mumbai Urdu author bags Sahitya Akademi award – Times of India"۔ The Times of India۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2019 
  20. "A colonial era law was used against Urdu writer Rahman Abbas; 10 years later, he's finally free"۔ Firstpost۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2019 
  21. "Mumbai Urdu author bags Sahitya Akademi award – Times of India"۔ The Times of India۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2019 
  22. "Dadri lynching: Urdu writer Rahman Abbas to return award in protest"۔ dna۔ 9 اکتوبر 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2019 
  23. Rini Mukkath (9 اکتوبر 2015)۔ "Urdu writer joins protest, to return prize"۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2019 – www.thehindu.com سے 
  24. "Novelist Sara Joseph returns Akademi Award; says intolerance is visible everywhere"۔ Rediff۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2019 
  25. "Dadri incident: Urdu writer Rahman Abbas to return award in protest"۔ 9 اکتوبر 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2019 – The Economic Times سے 
  26. Create a free website or blog at WordPress.com (10 مئی 2018)۔ "Rahman Abbas' 'Rohzin': First Urdu novel to be discussed in Germany"۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2019 

بیرونی روابط

ترمیم