انگریزی ادب

انگریزی زبان میں ادبی کام

انگریزی ادب (انگریزی: English literature) انگریزی زبان میں لکھی گئی شعری و نثری تحریروں پر مشتمل ہے۔ گوکہ انگریزی زبان انگلستان کی زبان ہے مگر اس کا ادب محض انگلستان کا نہیں بلکہ اسکاٹ لینڈ، ویلز اور تاج توابع، مکمل جزیرہ آئرلینڈ اور ان تمام ممالک میں لکھی گئی انگریزی زبان کے ادب کو بھی شامل ہے جو کسی زمانہ میں سلطنت برطانیہ کا حصہ رہے ہیں بشمول ریاستہائے متحدہ امریکا۔ البتہ 19ویں صدی تک انگریزی ادب کا تعلق تاج توابع، متحدہ مملکت برطانیہ عظمی و آئر لینڈ اور جزیرہ آئرلینڈ سے تھا۔ لیکن اس میں برطانیہ کی دیگر زبانوں کا ادب شامل نہیں ہے۔ انگریزی ادب کی تاریخ تقریباً 1400 برس پرانی ہے۔[1] 5ویں صدی میں اینگلو سیسکن کے ذریعے جزیرہ برطانیہ عظمی میں یں متعارف ہوئیں جنہیں قدیم انگریزی کہا گیا۔ قدیم انگریزی کا پہلا شاہکار ادبی نمونہ بيوولف ہے جو گرچہ اسکینڈینیویا میں لکھا گیا مگر اسے انگلستان میں قومی اساطیر کی حیثیت حاصل ہوئی۔ 1066ء میں انگلستان میں نورمن کا حملہ اور تلسط کے بعد قدیم انگریزی کا رواج کم ہوتا گیا۔ نئی اشرافیہ کے دباو اور اثر کی وجہ سے پارلیمان اور عدالتوں اور اونچے طبقہ میں فرانسیسی زبان کا استعمال ہونے لگا اور اسے ہی معیاری زبان کا درجہ دیا گیا۔[2] نورمن کی آمد کے بعد کی انگریزی کو وسطی انگریزی کہا گیا۔ 1470ء کے زمانہ میں وسطی انگریزی میں ادب لکھا گیا اور لندن میں واقع چانسری معیار اور لہجہ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ وسطی انگریزی کی ترویج میں دی کینٹربری ٹیلس کے مصنف چاسر (1343ء-1400ء) کی خدمات شامل ہیں۔ چاسر کی خدمات اس وجہ سے بھی اہم ہیں کہ اس زمانہ میں ہر جگہ فرانسیسی اور لاطینی کا دور دورہ تھا۔ 1439ء میں یوہانس گوٹن برک نے چھاپپ خانہ ایجاد کیا جس کی مدد سے انگریزی کو پروان چڑھنے میں بہت مدد ملی۔[3] اسی طرح جیمز کے نسخہ کی وجہ سے بھی انگریزی کو پھلنے پھولنے میں مدد ملی۔

انگریزی زبان و ادب کے لیے ولیم شیکسپیئر (1564–1616) سب سے بڑا مصنف اور شاعر ثابت ہوا۔ وہ شاعر ہونے سے ساتھ ساتھ ڈامہ نگار بھی تھا اور دنیا کے عظیم ڈراما نگاروں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔[4][5][6] اس کے ڈرامے دنیا کی تمام زندہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکے ہیں اور سب سے زیادہ انھیں تھیٹر میں دکھایا گیا ہے۔ اییسی مقبولیت کسی اور ڈراما نگار کو حاصل نہیں ہوئی۔[7] 19ویں صدی میں سر والٹر اسکاٹ کے تاریخی رومان]]ی تحریروں نے یورپ بھر کے قلمکاروں، کموزروں اور مصوروں کا بہت زیادہ متاثر کیا۔[8]

دنیا بھر میں انگریزی زبان کی مقبولیت کا سہرا سلطنت برطانیہ کو جاتا ہے جس نے 16ویں تا 18ویں صدی میں دنیا کے بیشتر خطوں پر حکومت کی یہاں کہ اپنے عروج پر یہ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت تھی۔[9] 1913ء میں اس کی حکوت 412 ملین لوگوں پر تھی جو اس وقت کی کل آبادی کا 23 فیصد تھا۔[10] 19ویں اور 20ویں صدی میں سلطنت برطانیہ کی تمام کالونیوں میں بشمول امریکا علاقائی ادب نے ترقی کرنا شروع کی اور ان علاقوں میں برطانوی ادب کا زور کم ہوتا گیا اور علاقائی انگریزی ادب وجود میں آنے لگا۔ گذشتہ 100 سال سے زیادہ کے عرصہ میں [[[جزیرہ برطانیہ عظمی]]، جزیرہ آئرلینڈ، امریکا اور سلطنت برطانیہ کی دیگر کالونیوں کے ادبا اور شعرا کو انگریزی ادب میں نوبل انعام برائے ادب سے نوازا جا چکا ہے۔

قدیم انگریزی ادب 450ء تا 1066ء ترمیم

 
بیولوف کا پہلا صفحہ

قدیم انگریزی ادب یا اینگلو سیکسن ادب اینگلو سیکسن برطانیہ کی قدیم انگریزی میں لکھا گیا۔ یہ اس کا ابتدائی مرحلہ تھا اور اس وقت انگریزی زبان و ادب اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے۔ قدیم انگریزی ادب کا یہ زمانہ 450ء میں سیکسن لوگ اور دیگر جرمن قبائل کے قدیم روم سے آنے سے شروع ہوتا ہے اور 1066ء میں ختم ہوتا ہے۔[11] اس دور میں رزمیہ شاعری، وعظ، بائبل کا ترجمہ، قانونی کتابیں، روزنامچے، پہیلیاں[12] اور مسودوں اور ہیجیوگرافی (Hagiography:مقدس سیرت یا خاکے) پرخوب کام کیا گیا۔ دراصل یہی قدیم انگریزی کے موضوعات تھے۔[12]

اینگلو سیکسن کرونکل 9ویں صدی کے قدیم انگریزی میں وقائع کا مجموعہ ہے جس میں اینگلو سیکسن کی تاریخ درج ہے۔[13] انگریزی کی مشہور نظم بیٹل آف مالڈون ایک تاریخی نظم ہے جس میں 991ء میں واقع ہوئی جنگ کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ اس جنگ میں وائی کنگ نے اینگلو سیکسن پر حملہ کر دیا اور فاتح قرار پائے۔[14]

ابتدائی انگریزی سیکسن ثقافت میں شفوی ادب بہت معیاری تھا۔ اس دور میں رزمیہ شاعری بہت مشہور تھی۔ شاعری کے کچھ نمونے بشمور بییولف آج تک زندہ ہیں۔ بیوولف قدیم انگریزی ادب کا شاہکار ہے جسے انگلستان میں قومی رزمیہ شاعری کا درجہ دیا گیا۔

حوالہ جات ترمیم

  1. "How the English Language has evolved through history"۔ childrensuniversity.manchester.ac.uk/۔ Manchester University 
  2. Baugh, Albert and Cable, Thomas. 2002. The History of the English Language۔ Upper Saddle River, New Jersey: Prentice Hall. pp. 79–81.
  3. "And now at last, … it being brought unto such a conclusion, as that we have great hope that the Church of England (sic) shall reape good fruit thereby ۔۔۔" Bible (King James Version, 1611)/Epistle Dedicatorie
  4. Greenblatt 2005, p. 11.
  5. Bevington 2002, pp. 1–3.
  6. Wells 1997, p. 399.
  7. Craig 2003, p. 3.
  8. The Oxford Companion to English Literature، p. 890.
  9. Ferguson 2004b.
  10. Maddison 2001، p. 97: "The total population of the Empire was 412 million [in 1913]"; Maddison 2001، pp. 241: "[World population in 1913 (in thousands):] 1 791 020"۔
  11. Drabble 1996, p. 323.
  12. ^ ا ب Angus Cameron (1983)۔ "Anglo-Saxon literature" in Dictionary of the Middle Ages، vol. 1, pp. 274–88.
  13. Stanley Brian Greenfield, A New Critical History of Old English Literature (New York: New York University Press, Abels, Richard (2005). Alfred the Great: War, Kingship and Culture in Anglo-Saxon England. Longman. p. 15. آئی ایس بی این 0-582-04047-7.
  14. Drabble 1996, p. 369.