رفیق ہند (اخبار)

1884ء میں لاہور سے شائع ہونے والا اردو اخبار

رفیق ہند برطانوی راج میں اردو زبان کا ایک ہفت روزہ اخبار تھا۔ یہ اخبار 5 جنوری 1884ء کو منشی محرم علی چشتی نے لاہور سے جاری کیا[1][2][3]۔ منشی محرم علی چشتی نے ہفت روزہ کوہِ نور کی ادارت سے اپنی صحافت کا آغاز کیا۔ وہ اعلیٰ پائے کے صحافی، وکیل اور مقرر تھے۔ انھوں نے منشی ہرسکھ رائے کے ساتھ مل کر انڈین نیشنل سوسائٹی کی بنیاد رکھی اور پنجاب کی سیاسی اور معاشرتی زندگی میں اتنے نمایاں ہوئے کہ آگے چل کر پنجاب کی قانون ساز کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔[4]

رفیق ہند
قسمہفت روزہ
بانیمنشی محرم علی چشتی
مدیرمنشی محرم علی چشتی
آغاز5 جنوری، 1884ء
زباناردو
اختتام1904ء
صدر دفترلاہور، برطانوی ہندوستان

رفیق ہند اپنے زمانے کا بلند پایہ علمی اور اصلاحی پرچہ تھا۔ مطبع رفیق ہند میں چھپتا تھا، یہ بڑی تقطیع کے 16 صفحات پر مشتمل ہوتا تھا۔ اہم مقامی و غیر ملکی خبریں، قسط وار مضامین اور ہندوستان بھر میں موجود نمائندوں کی اطلاعات پر مبنی رپورٹیں اس اخبار کے مسلسل سلسلے تھے۔ محرم علی چشتی نے برصغیر کی صحافتی تاریخ میں پہلی بار اخبار کی سالگرہ منانے کی طرح ڈالی۔ اخبار کی پہلی سالگرہ پر نا صرف تقریبات کا اہتمام کیا گیا بلکہ اخبار رفیق ہند کا خصوصی نمبر بھی شائع کیا گیا۔[2] اسے اپنے زمانے کے ممتاز اہلِ قلم کا تعاون بھی حاصل رہا۔ ان میں سر سید احمد خان، محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالی، محسن الملک، سید اقبال علی، مولوی ذکاء اللہ دہلوی، مولانا غلام قادر گرامی، فقیر سید جمال الدین، مولانا فتح محمد جالندھری، ڈاکٹر لائٹز، مولانا وحید الدین سلیم وغیرہ شامل تھے۔ محمد حسین آزاد کا سفرنامہ ایران بھی اسی اخبار میں شائع ہوا۔[5]

رفیق ہند مسلمانوں کے حقوق کا علم بردار تھا اور 1888ء تک وہ سر سید احمد خان کی تحریک کی نہایت شد و مد سے تائید کرتا رہا۔ لیکن جب سر سید کے مذہبی عقائد سے اختلاف ہوا تو رفیق ہند پنجاب میں سر سید کی مخالفت کا سب سے بڑا اڈا بن گیا۔ اس دور میں سر سید اور مولوی نذیر احمد کے خلاف فحش قسم کے مضامین بھی چھاپے گئے۔ چناں چہ مولوی نذیر احمد سے مقدمہ بازی بھی ہوئی اور آخر کار 19 جون 1893ء کو محرم علی چشتی نے مولوی نذیر احمد سے معافی مانگنا پڑی۔اس کے علاوہ محرم علی چشتی کی دیگر ہم عصروں سے بھی مقدمہ بازی رہی۔ آخر 1904ء میں رفیق ہند بند ہو گیا۔ تنازعات سے قطع نظر رفیق ہند ایک اعلیٰ پائے کا اخبار تھا، جس میں خبروں اور ٹھوس مضامین کی اشاعت کا بندوبست موجود تھے۔[4] رائے عامہ کی بیداری، پبلک کا شعور منظم کرنے اور حکومت پر نکتہ چینی کرنے میں اس خبار کا کردار ایک بیباک اخبار کا رہا۔ اردو صحافت کی ترقی اور اسے درپیش مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں بھی اس اخبار نے کوششیں کیں۔[6]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ڈاکٹر عبد السلام خورشید، صحافت: پاکستان و ہند میں، مجلس ترقی ادب لاہور، نومبر 2016ء، ص 280
  2. ^ ا ب محمد افتخار کھوکھر، صحافت کی تاریخ، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، 1995ء، ص 61
  3. مولوی محبوب عالم، اردو صحافت کی ایک نادر تاریخ، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، لاہور، 1992ء، ص 186
  4. ^ ا ب ڈاکٹر عبد السلام خورشید، صحافت: پاکستان و ہند میں، مجلس ترقی ادب لاہور، نومبر 2016ء، ص 281
  5. مولوی محبوب عالم، اردو صحافت کی ایک نادر تاریخ، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، لاہور، 1992ء، ص 191
  6. مولوی محبوب عالم، اردو صحافت کی ایک نادر تاریخ، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، لاہور، 1992ء، ص 189