کوہ نور (اخبار)
کوہِ نور برطانوی ہندوستان کا اردو زبان کا سرکاری سرپرستی میں نکلنے والا ایک ہفت روزہ اخبار تھا جسے 14 مئی 1850ء میں منشی ہرسکھ رائے نے لاہور سے جاری کیا تھا۔[1] یہ اردو زبان کا پہلا اخبار ہے جو پنجاب سے جاری کیا گیا۔ برطانوی ہند کے صوبہ پنجاب کی صحافت میں اِس اُردو کے اِس اخبار کا اہم مقام ہے جس سے پنجاب پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت اور سکھ سلطنت کے بعد کے وقائع ملتے ہیں۔ یہ اخبار کم وبیش 54 سال تک جاری رہا اور 1904ء میں بند ہو گیا۔ [2]
کوہِ نور کے شمارہ 16 جنوری 1855 کا سر ورق | |
قسم | ہفت روزہ |
---|---|
بانی | منشی ہرسکھ رائے |
ناشر | مطبع کوہِ نور |
مدیر | منشی ہرسکھ رائے |
آغاز | 14 مئی 1850ء |
زبان | اردو |
اختتام | 1904ء |
صدر دفتر | لاہور، صوبہ پنجاب |
تعداد اشاعت | 349 |
تاریخ
ترمیمیہ اخبار برطانوی راج میں منشی ہرسکھ رائے نے 14 مئی 1850ء میں لاہور سے جاری کیا[3]۔ یہ پنجاب کا پہلا اردو اخبار تھا۔ اس اخبار کے مالک اور ایڈیٹر منشی ہرسکھ رائے ایک تجربہ کار اور با حوش صحافی تھے جو سکندرآباد (ضلع بلندشہر) کے باشندے تھے اور اخبار کوہِ نور کے اجرا سے قبل جام جمشید میرٹھ کی ادارت کے فرائض انجام دے چکے تھے[4]۔ منشی ہرسکھ رائے نا صرف راست گو اور بے خوف قسم کے صحافی تھے بلکہ ان کا ذہن نہایت رسااور خیالات نہات بلند تھے، وہ اخبار کا وجود ملک و قوم کی بقا کے لیے بے حد ضروری سمجھتے تھے۔[5]۔ ہرسکھ رائے کو کوہ نور کی بدولت ہندوستان گیر شہرت حاصل ہوئی۔ لاہور کی مجلسی زندگی میں وہ نمایاں اور مقبول تھے۔ وہ میونسپل کمشنر بھی بنائے گئے۔[6] ہر سکھ رائے نے پنجاب میں اردو زبان کو فروغ دینے اور تعلیم کو پھیلانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ اردو کی ترویج و اشاعت کے لیے ہفتہ وار مشاعرے کراتے تھے اور مشاعرے کے شعرا کی منتخب غزلیں کوہِ نور اخبار میں شائع کر دیتے تھے۔ حکومت پنجاب اُن کے اخبار میں اسکولوں اور کالجوں کی کارگزاریاں شائع کراتی تھی۔[6]
1857ء کے بعد بڑے بڑے ادیب کوہِ نور اخبار سے وابستہ ہوئے، مثلاً سید نادر علی سیفی، مولوی سیف الحق، منشی نثار علی شہرت، تاج الدین، مرزا موجد، منشی لال سنگھ، مولوی عبد اللہ اور منشی محرم علی چشتی وغیرہ، ان سب نے اپنی صحافت کا آغاز کوہِ نور سے کیا اور اُن میں سے اکثر نے بعد میں اپنے اخبار نکالے[7]۔ اس اخبار طویل عرصہ شائع ہونے کے بعد 1904ء میں بند ہوا۔[3]
اس اخبار کو سرکاری سرپرستی اور خیر خواہی حاصل تھی لیکن منشی ہرسکھ رائے حق بات کہنے سے نہ چوکتے تھے اور اخبار کے ذریعے گاہے بہ گاہے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہتے تھے۔[8] بقول مدیر (ایڈیٹر)، اِس اخبار کا اجرا پنجاب کے بورڈ آف ایڈمنسٹریشن کی سرپرستی سے ہوا۔[9]
اشاعت
ترمیماس اخبار کے 1851ء کے مختلف شماروں کے مطالعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ اخبار ہفتے میں دو بار شائع ہوتا تھا [10]، بعد میں ہفت روزہ ہو گیا[11]۔ کوہِ نور کے دستیاب شدہ شماروں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 1851ء تک یہ ہفتہ میں دو بار شائع ہوتا رہا ہے۔1852ء کے شمارے دستیاب نہیں ہو سکے، اِس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ 1852ء تک یہ ہفتہ میں ایک بار شائع ہوتا تھا یہ دو بار۔ البتہ 1853ء کے جو شمارے دستیاب ہوئے ہیں ، اُن میں سے جلد 4 کے تین شماروں کے مطابق کوہِ نور جنوری 1853ء میں دوبارہ ہفت روزہ ہو گیا تھا[12]۔ اس کے صفحات کی تعداد 16 تھی جو حسبِ ضرورت بڑھ کر 18 تک بھی جا پہنچتی تھی[13]۔ صوبہ بھر میں اِس اخبار کی اشاعت سب سے زیادہ تھی ۔1850ء اور 1851ء کے وسطی زمانہ میں اِس کی اشاعت متاثر ہوئی اور کم ہوتی گئی۔ ہفت روزہ اخبار 227 پرچے شائع ہوتا تھا مگر اِس زمانہ میں اشاعت متاثر ہوئی تو 189 پرچوں پر یہ اشاعت رک گئی۔[14] 1852ء میں دفعتہً اِس کی اشاعت 205 اور 1853ء میں اِس کی اشاعت 259 پرچے جبکہ 1854ء میں اشاعت 349 پرچے تھی۔ [15]
دستیاب شدہ شمارے
ترمیمانجمن ترقی اُردو دہلی میں کوہِ نور کے 1851ء تا 1855ء کے یہ شمارے موجود ہیں:
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ محمد افتخار کھوکھر، صحافت کی تاریخ، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، 1995ء، ص 44
- ↑ معصوم مراد آبادی، اردو صحافت کا ارتقا، اردو اکادمی دہلی، 2013ء، ص 62
- ^ ا ب معصوم مراد آبادی، اردو صحافت کا ارتقا، اردو اکادمی دہلی، 2013ء، ص 62
- ↑ نادر علی خاں، اردو صحافت کی تاریخ، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 1987ء، ص 287
- ↑ نادر علی خاں، اردو صحافت کی تاریخ، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 1987ء، ص 294
- ^ ا ب مولوی محبوب عالم، اردو صحافت کی ایک نادر تاریخ، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، لاہور، 1992ء، ص 263
- ↑ ڈاکٹر عبد السلام خورشید، صحافت: پاکستان و ہند میں، مجلس ترقی ادب لاہور، نومبر 2016ء، ص 114-115
- ↑ نادر علی خاں، اردو صحافت کی تاریخ، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 1987ء، ص 292
- ↑ محمد عتیق صدیقی: صوبہ شمالی و مغربی کے اخبارات و مطبوعات، ص 126، مطبوعہ انجمن ترقی اُردو، ہند (دہلی)۔
- ↑ محمد عتیق صدیقی: صوبہ شمالی و مغربی کے اخبارات و مطبوعات، ص 126، مطبوعہ انجمن ترقی اُردو، ہند (دہلی)۔
- ↑ نادر علی خاں، اردو صحافت کی تاریخ، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 1987ء، ص 289
- ↑ محمد عتیق صدیقی: صوبہ شمالی و مغربی کے اخبارات و مطبوعات، ص 127، مطبوعہ انجمن ترقی اُردو، ہند (دہلی)۔
- ↑ نادر علی خاں، اردو صحافت کی تاریخ، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 1987ء، ص 290
- ↑ محمد عتیق صدیقی: صوبہ شمالی و مغربی کے اخبارات و مطبوعات، ص 126، مطبوعہ انجمن ترقی اُردو، ہند (دہلی)۔
- ↑ محمد عتیق صدیقی: صوبہ شمالی و مغربی کے اخبارات و مطبوعات، ص 127، مطبوعہ انجمن ترقی اُردو، ہند (دہلی)۔
- ↑ محمد عتیق صدیقی: صوبہ شمالی و مغربی کے اخبارات و مطبوعات، ص 127، مطبوعہ انجمن ترقی اُردو، ہند (دہلی)۔