منشی ہرسکھ رائے
منشی ہرسکھ رائے (انگریزی: Munshi Harsukh Rai)، (پیدائش: 1816ء - وفات: 2 دسمبر، 1890ء) غیر منقسم ہندوستان کے نامور صحافی تھے۔ انھوں نے میرٹھ سے نکلنے جاری ہونے والے اخبار جام جمشید کی ادارت کی اور 1850ء میں لاہور سے پنجاب کا پہلا اردو اخبار کوہ نور نکالا۔ ہرسکھ رائے کو کوہ نور کی بدولت ہندوستان گیر شہرت حاصل ہوئی۔ لاہور کی مجلسی زندگی میں وہ بے حد مقبول تھے۔ وہ لاہور شہر کے میونسپل کمشنر بھی رہے۔
منشی ہرسکھ رائے | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1816ء ضلع بلند شہر ، برطانوی ہند |
وفات | 2 دسمبر 1890ء (73–74 سال) لاہور ، برطانوی پنجاب |
شہریت | برطانوی ہند |
عملی زندگی | |
پیشہ | صحافی ، مدیر |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
شعبۂ عمل | ادارت |
کارہائے نمایاں | کوہ نور ، جام جمشید |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی و خدمات
ترمیممنشی ہرسکھ رائے 1816ء کو سکندر آباد، ضلع بلند شہر کے ایک کائیستھ خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا گھرانہ علمی روایات کا حامل تھا۔ اردو اور فارسی ادب کی تعلیم حاصل کی۔ اخبار کوہِ نور کے اجرا سے قبل میرٹھ کے اخبار جام جمشید کی ادارت کے فرائض بھی انجام دے چکے تھے۔ 34 سال کی عمر میں لاہور آئے اور 14 مئی 1850ء کو پنجاب سے اردو کا پہلا ہفت روزہ اخبار کوہ نور نکالا۔ یہ اخبار پنجاب کے بورڈ آف ایڈمنسڑیشن کی سرپرستی میں نکلتا تھا اور حکومت کی وضع کردہ پالیسی کے مطابق مرتب کی جاتا تھا۔[1] منشی ہرسکھ رائے انگریزوں کے بہی خواہ تھے اور ان کا اخبار سرکاری سرپرستی میں نکلتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ نا صرف راست گو اور بے خوف قسم کے صحافی تھے بلکہ ان کا ذہن نہایت رسااور خیالات نہات بلند تھے، وہ اخبار کا وجود ملک و قوم کی بقا کے لیے بے حد ضروری سمجھتے تھے۔[2]
1857ء کی جنگ آزادی سے ایک سال قبل ہرسکھ رائے اچانک گرفتار کر لیے گئے۔ غالباً ان کے خلاف ازالہ حیثیتِ عرفی کا مقدمہ تھا، جس میں انھیں تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اسی برس انھوں نے لاہور سے ایک رسالہ خورشیدِ پنجاب نکالا۔ یہ 50 صفحات پر مشتمل تھا اور مطبع کوہ نور میں چھپتا تھا۔ ہر سکھ رائے گرفتار ہوئے تو کوہِ نو کی اشاعت میں فرق نہیں آیا اور اسے منشی ہیرا لعل باقاعدگی سے نکالتے رہے۔[3] حکومت نے جب تحصیلِ زر کے لیے مہینے بھر کی قید بھگت لینے والے قیدیوں سے پانچ پانچ روپے وصول کر کے رہا کرنا شروع کیا تو منشی ہرسکھ بھی دو سو روپے کے عوض رہا کر دیے گئے۔ ہر سکھ رائے نے پنجاب میں اردو زبان کو فروغ دینے اور تعلیم کو پھیلانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ اردو کی ترویج و اشاعت کے لیے ہفتہ وار مشاعرے منعقد کراتے تھے اور مشاعرے کے شعرا کی منتخب غزلیں کوہِ نور اخبار میں شائع کر دیتے تھے۔ لاہور کی مجلسی زندگی میں وہ نمایاں اور مقبول تھے۔ وہ لاہور کے میونسپل کمشنر بھی بنائے گئے۔ ان کا شمار شہر کے معززین میں ہوتا تھا۔ جب وہ ریاست جموں و کشمیر میں قدم رکھتے تھے تو مہاراجا کا ہاتھی ان کی سواری کے لیے موجود ہوتا تھا اور شاہی مہمان خانے سے رخصت ہوتے وقت مہاراجا کی طرف سے 1100 روپے رخصتانہ بھی دیا جاتا تھا۔[4]
وفات
ترمیممنشی ہرسکھ رائے 2 دسمبر 1890ء کو لاہور میں انتقال کر گئے۔[5]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ مولوی محبوب عالم، اردو صحافت کی ایک نادر تاریخ، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، لاہور، 1992ء، ص 261
- ↑ نادر علی خاں، اردو صحافت کی تاریخ، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 1987ء، ص 294
- ↑ مولوی محبوب عالم، اردو صحافت کی ایک نادر تاریخ، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، لاہور، 1992ء، ص 262
- ↑ مولوی محبوب عالم، اردو صحافت کی ایک نادر تاریخ، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، لاہور، 1992ء، ص 263
- ↑ مالک رام، تذکرہ ماہ و سال، مکتبہ جامعہ ملیہ لمیٹڈ دہلی، 2011ء، ص 413