زاہد فضل
زاہد فضل (پیدائش: 10 نومبر 1973ء سیالکوٹ، پنجاب) پاکستانی سابق کرکٹر تھے، جنھوں نے 1990ء سے 1995ء تک 9 ٹیسٹ اور 19 ایک روزہ بین الاقوامی میچز کھیلے۔ پاکستان کے علاوہ گوجرانوالہ ، لاہور،پاکستان آٹو موبلائز کارپوریشن اور پاکستان انٹر نیشنل ائیر لائنز کی طرف سے بھی کرکٹ کھیلی۔وہ دائیں ہاتھ کے بلے باز اور دائیں ہاتھ کے ہی میڈیم آف بریک بولر تھے۔
فائل:Zahid fazal.jpeg | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ذاتی معلومات | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
پیدائش | سیالکوٹ، پنجاب، پاکستان | 10 اکتوبر 1973|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بلے بازی | دائیں ہاتھ کا بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
گیند بازی | دائیں ہاتھ کا میڈیم، آف بریک گیند باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بین الاقوامی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قومی ٹیم |
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ٹیسٹ (کیپ 118) | 15 نومبر 1990 بمقابلہ ویسٹ انڈیز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ٹیسٹ | 22 ستمبر 1995 بمقابلہ سری لنکا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ایک روزہ (کیپ 78) | 6 نومبر 1990 بمقابلہ نیوزی لینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ایک روزہ | 11 ستمبر 1994 بمقابلہ سری لنکا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کیریئر اعداد و شمار | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ماخذ: ای ایس پی این کرک انفو، 24 جنوری 2014 |
ٹیسٹ کرکٹ
ترمیمزاہد فضل کو ویسٹ انڈیز کے خلاف 1990ء میں کراچی کے مقام پر ٹیم کا حصہ بنایا گیا تھا۔ اس پہلے ٹیسٹ میں ملنے والے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ پہلی اننگ میں 7 اور دوسری میں 12 رنز یہی ظاہر کر رہے تھے۔ فیصل آباد کے اگلے ٹیسٹ میں انھوں نے 32 اور 5 رنز بنائے جبکہ لاہور کے تیسرے ٹیسٹس میں وہ 13 اور 6 تک رسائی حاصل کرسکے۔ 1991ء میں جب سری لنکا کی ٹیم پاکستان آئی تو انھیں ہوم سیریز میں سلیکٹرز نے ایک بار پھر اعتماد کرکے ٹیم میں شامل کیا۔ سیالکوٹ کے پہلے ٹیسٹ میں 36 اور گوجرانوالہ کے دوسرے ٹیسٹ میں 21 رنز کے ساتھ وہ خاطر خواہ ٹیم کی مدد نہ کرسکے لیکن یہ ٹیسٹ فیصل آباد کا تیسرا ٹیسٹ تھا جب انھوں نے اپنا بہترین انفرادی سکور ٹیم کو دیا۔سری لنکا نے پہلے کھیلتے ہوئے 240 رنز بنائے جس میں سنتھ جیسوریا 81، روشن ماہنامہ 58 اور ہتھوراسنگھا 49 کے ساتھ نمایاں کھلاڑی رہے۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم مشکلات سے دوچار رہی اور رمیز راجا کے 63 رنز کی بدولت 221 رنز ہی بنا سکی۔ زاہد فضل صرف 13 رنز بنا کر وجے گوناوردنے کا شکار بنے۔ دوسری باری میں زاہد فضل نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا اور 13 چوکوں کی مدد سے 164 گیندوں پر 78 رنز کی باری کھیلی۔ ان کی اس اننگ کے باوجود پاکستان کا سکور 7 وکٹوں پر 188 سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اس کے بعد انھوں نے آسٹریلیا کے خلاف کراچی اور راولپنڈی میں 2 ٹیسٹ کھیلے مگر بیٹنگ میں کوئی موثر کارکردگی دکھانے سے قاصر رہے۔ 1995ء میں سری لنکا کے خلاف سیالکوٹ کا ٹیسٹ ان کا آخری ٹیسٹ تھا جس میں وہ 23 اور 1 رنز تک ہی محدود رہے۔
ون ڈے کرکٹ
ترمیمزاہد فضل کو نیوزی لینڈ کے خلاف 1990ء میں سیالکوٹ کے مقام پر ایک روزہ مقابلہ میں شرکت کا موقع ملا مگر وہ 5 ناقابل شکست رنز ہی بنا سکے جبکہ ویسٹ انڈیز کے دورہ پاکستان میں بھی وہ کوئی بڑی اننگ نہ کھیل سکے۔ شارجہ میں سری لنکا کے خلاف 11 اور بھارت کے خلاف 39 رنز کے ساتھ وہ کچھ فارم میں آتے ہوئے نظر آئے۔ 25 اکتوبر 1991ء کو شارجہ میں بھارت کے خلاف انھوں نے 98 ناقابل شکست رنز بنائے۔ ولز ٹرافی کے فائنل میچ میں پاکستان نے 6 وکٹوں پر 262 رنز سکور کیے۔ ابتدائی 2 کھلاڑیوں عامر سہیل اور ساجد علی کے جلد آئوٹ ہونے کے بعد زاہد فضل نے سلیم ملک کے ساتھ مل کر 171 رنز کی شراکت قائم کی۔ بدقسمتی سے زاہد فضل اس موقع پر ریٹائر ہرٹ ہو گئے جبکہ وہ اپنی سنچری سے محض 2 رنز کے فاصلے پر تھے۔ سلیم ملک 87 کے ساتھ پربھارکر کا شکار بنے اور پاکستان نے بھارت کو جیتنے کے لیے 263 رنز کا ہدف دیا جس کو عبور کرنے کی کوشش میں بھارتی بلے بازوں کا سانس پھول گیا اور پاکستان نے یہ میچ 72 رنز سے جیت لیا۔ میچ کی خاص بات عاقب جاوید کی تباہ کن بولنگ تھی جنھوں نے 10 اوورز میں 1 میڈن پھینک کر 37 رنز کے عوض 7 بھارتی کھلاڑیوں راستہ روکا۔ اظہر الدین، سچن ٹنڈولکر بغیر رنز بنائے عاقب جاوید کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوئے۔ 1991ء میں فیصل آباد مقام پر زاہد فضل کی ایک اور نصف سنچری 53 رنز کی صورت میں سامنے آئی۔ 1994ء میں سری لنکا کے دورے میں انھوں نے کولمبو کے مقام پر اپنا آخری ایک روزہ میچ کھیلا جس میں وہ 15 رنز ہی بنا سکے۔
اعداد و شمار
ترمیمزاہد فضل نے 9 ٹیسٹ میچوں کی 16 اننگز میں 78 کے بہترین سکور کے ساتھ 288 رنز سکور کیے۔ 18.00 کی اوسط سے بننے والے اس مجموعے میں 1 نصف سنچری شامل تھی جبکہ 19 ایک روزہ مقابلوں کی 18 اننگز میں 3 دفعہ ناٹ آئوٹ رہ کر 348 رنز ان کے ریکارڈ کا حصہ بنے جس میں 98 ناٹ آئوٹ ان کا بہترین انفرادی سکور تھا جس کے لیے انھیں 23.20 کی اوسط حاصل ہوئی۔ 2 نصف سنچریاں ان کے اس مجموعے کی تشکیل میں معاون ثابت ہوئی تھیں۔ زاہد فضل نے 122 فرسٹ کلاس میچوں کی 182 اننگز میں 17 مرتبہ ناقابل شکست رہ کر 5730 رنز سکور کیے۔34.72 کی اوسط سے بنائے گئے ان رنزوں میں 201 ناقابل شکست ان کا سب سے بڑا سکور تھا۔ 12 سنچریاں اور 27 نصف سنچریاں بھی انھوں نے سکور کی تھیں۔ فرسٹ کلاس میچوں میں انھوں نے 1 وکٹ بھی حاصل کی ہوئی تھی۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم
پیش نظر صفحہ سوانح پاکستانی کرکٹ سے متعلق سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |