زبیر الحسن کاندھلوی
زبیر الحسن کاندھلوی ت (30 مارچ 1950 – 18 مارچ 2014ء)[6][7] ایک ہندوستانی عالم دین اور تبلیغی جماعت، کے معروف رھنما تھے۔[3][8]
زبیر الحسن کاندھلوی | |
---|---|
برسر منصب جون 1995 – 18 مارچ 2014ء | |
پیشرو | انعام الحسن کاندھلوی |
جانشین | منصب ختم ہو گیا۔[1][2] |
ذاتی | |
پیدائش | 30 مارچ 1950ء[3] |
وفات | 18 مارچ 2014[3] | (عمر 63 سال)
مذہب | اسلام |
قومیت | بھارت |
فقہی مسلک | حنفی |
تحریک | دیوبندی، تبلیغی جماعت[4][5] |
بنیادی دلچسپی | دعوت |
پیشہ | عالم، تبلیغی جماعت کے داعی |
مرتبہ | |
خلیفہ و مُجاز | محمد زکریا کاندھلوی |
ابتدائی و عملی زندگی
ترمیمزبیر الحسن 30 مارچ 1950 کو موجودہ مظفر نگر ضلع، اتر پردیش، بھارت کے قصبہ کاندھلہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم مظاہر علوم سہارنپور میں ہوئی۔[6] وہ اپنے نانا محمد زکریا کاندھلوی کے خلیفہ و مجاز تھے۔ زبیر نے 1971ء میں سند فضیلت حاصل کرکے اپنی تعلیم مکمل کی۔ وہ ہر سال ڈھاکہ، رائے ونڈ اور بھوپال میں منعقد ہونے والے عالمی اجتماعات میں آخری نماز کے امام ہوا کرتے تھے۔[6][3]
اپنے بھاری بدن کی وجہ سے وہ اکثر وہیل چیئر پر نظر آتے تھے۔ وہ بڑے اجتماعات کے سامنے اپنے طویل خطابات اور تقاریر کی بجائے اختتامی دعا کے لیے جانے جاتے تھے جیسا کہ ان سے پہلے ان کے والد سمیت دیگر جماعت کے رہنماؤں کا معمول تھا۔[3]
وہ ابتدائی طور پر علما کی کونسل (بین الاقوامی تبلیغی شوریٰ) کے رکن تھے جنھیں ان کے والد انعام الحسن کاندھلوی کی وفات کے بعد تبلیغی جماعت کے امور کی انجام دہی کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ ان کی وفات کے بعد ان کی تدفین نئی دہلی میں نظام الدین درگاہ کے میدان میں ہوئی۔[3][7]
وفات اور پسماندگان
ترمیم1969ء میں، مولانا زبیر الحسن کا نکاح محمد زکریا کاندھلوی کے دامادوں میں سے ایک سہارنپور کے حافظ الیاس کی بیٹی اور محمد شاہد سہارنپوری کی ہمشیرہ طاہرہ خاتون سے ہوا تھا۔ اس جوڑے کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ بڑے بیٹے حافظ مولانا زہیر الحسن کاندھلوی تبلیغی تحریک کے معروف مذاکرات کار بن چکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق زبیر بھاری بدن کا شکار تھے، ذیابیطس کے مریض تھے اور کچھ عرصے سے طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ نئی دہلی پولیس کے اندازوں کے مطابق، تقریباً دو لاکھ لوگ ان کے نماز جنازہ میں شریک ہوئے تھے۔[3][7][6]
جامع مسجد دہلی کے شاہی امام، سید احمد بخاری نے اپنے خراج عقیدت میں کہا کہ تبلیغی جماعت کے مرحوم سینئر رکن مولانا زبیر الحسن ایک اہم مسلم رہنما تھے۔ جنھوں نے جماعت کی بھلائی کے لیے کام کیا۔ وہ زندگی بھر غیر سیاسی رہے اور صرف مذہبی معاملات میں ہی فکرمند رہے۔[6][3]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "Tablighi Jamaat at the crossroads" [دوراہے پر تبلیغی جماعت]۔ ملی گزٹ۔ 30 جولائی 2016ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-03-30
- ↑ غزالی، عبد الستار (12 اکتوبر 2018ء)۔ "Global leadership split in Tablighi Jamaat echoes in San Francisco Bay Area" [سان فرانسسکو خلیجی علاقے میں تبلیغی جماعت میں عالمی قیادت کی تقسیم کی بازگشت]۔ countercurrents.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-03-30
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ مولانا زبیر الحسن کا انتقال اور پروفائل TwoCircles.net ویب گاہ پر، P21 مارچ 2014ء کو شائع ہوا، 27 فروری 2020ء کو بازیافت ہوا۔
- ↑ رشید، نگہت۔ "7"۔ A critical study of the reformist trends in the Indian Muslim society during the nineteenth century [انیسویں صدی کے دوران ہندوستانی مسلم معاشرے میں اصلاحی رجحانات کا تنقیدی مطالعہ] (PDF)۔ ص 332۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-03-03
- ↑ زیڈ پیری (5 مارچ 2015ء)۔ Tablighi Jamaat and the Quest for the London Mega Mosque: Continuity and Change [تبلیغی جماعت اور لندن میگا مسجد کی تلاش: تسلسل اور تبدیلی]۔ ISBN:9781137464392۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-03-03
- ^ ا ب پ ت ٹ تبلیغی جماعت کے امیر انتقال کر گئے، نظام الدین میں ان کے جلوس جنازہ میں ہزاروں افراد کا شرکت شائع: 19 مارچ 2014ء، بازیافت 27 فروری 2020ء
- ^ ا ب پ Maulana Zubair-ul-Hasan passed away روزنامہ سیاست (اخبار)، 19 مارچ 2014ء کو شائع ہوا، 27 فروری ء2020 کو بازیافت ہوا۔
- ↑ MOHD.ZAKIRULLAH، فردوسی (12 ستمبر 2014ء)۔ Political Ideology of Abul Ala Maududi [ابوالاعلیٰ مودودی کا سیاسی نظریہ]۔ ص 79۔ ISBN:9781312489127۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-03-03