زید بن خطاب
زید بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (وفات: 12ھ) خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوتیلے بھائی، عمر میں ان سے چھوٹے تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شروع میں ہی اسلام قبول کر لیا تھا ۔مدینہ ہجرت میں شامل تھے۔ہجرت کے بعد غزوہ بدر اور دیگر تمام غزوات میں شامل تھے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جنگ یمامہ میں شہادت نوش فرمائی۔
زید بن خطاب | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | مکہ |
وفات | سنہ 632ء جنگ یمامہ |
مدفن | مقبرہ شہداء یمامہ |
اولاد | عبد الرحمن بن زید بن خطاب |
والد | خطاب بن نفیل |
بہن/بھائی | |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | مہمات نبوی کی فہرست ، غزوۂ بدر |
درستی - ترمیم |
حلیہ
ترمیمآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حلیہ مبارک یہ تھا: قد لمبا اور رنگ گندم گوں تھا۔[1]
نام و نسب
ترمیمزید نام ، ابوعبدالرحمن کنیت، سلسلہ نسب یہ ہے، زیدبن خطاب بن نفیل بن عبد العزیٰ بن رباح بن عبد اللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوی بن غالب ابن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ قرشی عدوی۔ ماں کا نام اسماء تھا،نانہالی سلسلہ نسب یہ ہے،اسماء بنت وہب بن حبیب اسدی،آپ حضرت عمرؓ کے سوتیلے بھائی اور عمر میں ان سے بڑے تھے۔ [2]
اسلام و ہجرت
ترمیمزید بن خطاب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بہت پہلے مشرف باسلام ہو چکے تھے اور مہاجرین کے پہلے قافلہ کے ساتھ ہجرت کی تھی اور آنحضرت ﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے بعدا ن میں اور معن بن عدی عجلانی میں مواخاۃ کرا دی۔[3] [4]
غزوات
ترمیممدینہ آنے کے بعد سب سے پہلے غزوہ بدر میں پھر غزوہ احد میں شریک ہوئے انتہائی شجاعت نے زرہ سے بے نیاز کر دیا تھا، میدان جنگ میں ننگے بدن گئے، عمر فاروق کو ان سے بڑی محبت تھی، انھوں نے قسم دلا کر اپنی زرہ پہنادی؛ لیکن طالب شہادت کے لیے زرہ عار تھی، تھوڑی دیر پہن کر اتاردی اب عریاں سینہ دشمنوں کا ہدف تھا، عمر رضی اللہ عنہ نے سبب پوچھا ، فرمایا تمھاری طرح مجھ کو بھی جام شہادت پینے کی تمنا ہے۔[5] غزوہ احد کے بعد صلح حدیبیہ کے موقع پر جب آنحضرت ﷺ نے موت پر بیعت لینا شروع کی تو فداکارانہ جان بازوں کی فہرست میں نام لکھایا[3] اس کے علاوہ غزوہ خندق، غزوہ حنین اور اوطاس وغیرہ میں بھی برابر شریک رہے۔ حجۃ الوداع میں بھی آنحضرت ﷺ کے ہمرکاب تھے،اسی موقع پر آپ نے ان سے یہ حدیث بیان فرمائی تھی،کہ جو تم کھاتے پہنتے ہو،وہی اپنے غلاموں کو بھی کھلاؤ پہناؤ،اور اگر وہ کسی جرم کے مرتکب ہوں اور تم نہ معاف کرسکو تو فروخت کر ڈالو۔[5][6]
فتنہ ارتداد اور شہادت
ترمیمعہد صدیقی میں فتنہ ارتداد کے استیصال کے لیے مسلمانوں کے ساتھ نکلے اور متعدد سرکشوں کے ساتھ مشہور مرتد نہاد بن عنفو جس کے متعلق اس کے زمانہ اسلام میں آنحضرت ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی،انھی کے ہاتھ سے مارا گیا۔[3] جنگ یمامہ میں ہی دشمنوں کی صفیں چیرتے ہوئے گھستے چلے گئے اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے، [7] جنگ یمامہ میں اسلامی فوج کی علمبرداری کا منصب سپرد ہوا،بنو حنیفہ نے ایک مرتبہ اس زور کا حملہ کیا کہ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے،کچھ لوگ میدان جنگ سے بھاگ نکلے اس سے زید کا جوش اوربڑھ گیا، انھوں نے قسم کھالی کہ میں اس وقت تک نہ بولوں گا جب تک دشمنوں کا منہ نہ پھیردوں یا خود لڑتے لڑتے شہید ہوجاؤں اور مسلمانوں کو للکارا کہ آنکھیں بند کرکے داڑھیں داب کر دشمنوں کے قلب میں گھس جاؤ،[8]ایک طرف لوگوں کو ابھارتے تھے ،دوسری طرف زبان بارگاہ ایزدی میں معذرت میں مصروف تھی کہ "خدایا میں اپنے ساتھیوں کی پسپائی پر تیری بارگاہ میں معذرت خواہ ہوں"،اسی حالت میں علم ہلایا اور دشمنوں کی صفیں چیرتے ہوئے گھستے چلے گئے اورلڑتے لڑتے شہید ہو گئے، [9] آپ کی شہادت کے بعد حضرت سالمؓ نے علم سنبھالا، لوگوں نے کہا سالم! تمھاری علمبرداری سے شکست کا خطرہ ہے کہا اگر میرے سبب سے شکست ہو تو مجھ سے بدتر حامل قرآن کون ہوگا۔ [10] ،[11]
حضرت عمرؓ کا غم
ترمیمعمر فاروق ان کو بہت محبوب رکھتے تھے،ان کی شہادت سے بہت غم زدہ ہوئے اورجب کبھی کوئی مصیبت پیش آتی تو فرماتے کہ سب سے بڑاداغ زید کا تھا، اس کو اٹھایا اور صبر کیا،[12] اکثر فرمایا کرتے کہ بادصبا سے زید کی خوشبو آتی ہے اس سے ان کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔[7] اسی زمانہ میں مشہور شاعر متمم بن نویرہ کا بھائی ایک معرکہ میں خالد بن ولید کے ہاتھ سے مارا گیا،متمم اپنے بھائی کا عاشق وشیفتہ تھا، اس حادثہ نے اس کو ایسا وارفتہ کر دیا کہ دیکھنے والوں کو ترس آتا تھا، اسی عالم میں اپنے بھائی کا ایسارقت انگیز مرثیہ لکھا کہ سننے والے بے قرار ہو جاتے ،اتفاق سے عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہو گئی، آپ نے فرمایا تم کو اپنے بھائی کا کس قدر دکھ ہے ،کہا ایک مرض کی وجہ سے ایک آنکھ کے آنسو خشک ہو گئے تھے؛لیکن بھائی کے غم میں جب سے اشکبار ہوئی ہے، آج تک نہ رکی، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہ رنج والم کی آخری حد ہے ،کوئی جانے والے کا اتنا غم نہیں کرتا، اس کے بعد فرمایا کہ اللہ زید کی مغفرت کرے، اگر میں شاعر ہوتا تو میں بھی ان کا مرثیہ کہتا، متمم نے کہا، امیر المومنین، اگر آپ کے بھائی کی طرح میرا بھائی شہید ہوا ہوتا تو میں کبھی اشکباری نہ کرتا، عمر کو ایک گونہ تسلی ہو گئی،[5] فرمایا کہ اس سے بہتر تعزیت کسی نے نہیں کی، [3]؛لیکن بھائی کے ساتھ شدید تعلق قلب کے باوجود صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا،جس وقت حضرت زیدؓ کی شہادت کی دلخراش خبر ملی تھی، اس وقت بجائے نالہ وشیون کرنے کے فرمایا کہ میرے بھائی دو نیکیوں میں مجھ سے سبقت لے گئے ،مجھ سے پہلے اسلام لائے اور مجھ سے پہلے جام شہادت پیا۔[3] [13]
ازواج و اولاد
ترمیمآپ رضی اللہ عنہ کے دو بیویاں تھیں،لبابہ اور جمیلہ،لبابہ سے عبد الرحمن تھے اور جمیلہ سے اسماء تھیں۔ [14]
فضل و کمال
ترمیمآپ سے متعدد اشخاص نے حدیث روایت کی ہے۔ [15]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ صفہ اور اصحاب صفہ از مولانا مفتی مبشر ص 174
- ↑ الطبقات الكبرى لابن سعد - زيد بن الخطاب آرکائیو شدہ 2017-02-02 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ^ ا ب پ ت ٹ الاستيعاب فی معرفۃ الاصحاب 1/1190مؤلف: ابو عمر ابن عبد البر بن عاصم النمری ناشر: دار الجيل، بيروت
- ↑ الطبري، محمد (2017)۔ تهذيب تاريخ الطبري (بزبان عربی) (الأولى ایڈیشن)۔ مكتبة جزيرة الورد۔ صفحہ: 342۔ ISBN 9789778340112۔ 13 ديسمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ^ ا ب پ الطبقات الكبير جلد3،ق اول:1275مؤلف: محمد بن سعد بن منيع الزہری ناشر: مكتبہ الخانجي - القاہرہ
- ↑ سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» زيد بن الخطاب آرکائیو شدہ 2018-01-17 بذریعہ وے بیک مشین
- ^ ا ب اسد الغابہ،مؤلف: ابو الحسن عز الدين ابن الأثير ،ناشر: دار الفكر - بيروت
- ↑ (ابن اثیر:2/277)
- ↑ (ابن اثیر:2/277)
- ↑ (ابن سعد،جز3،ق1:4،2 ومستدرک حاکم:3/227)
- ↑ الإصابة في تمييز الصحابة - زيد بن الخطاب آرکائیو شدہ 2017-02-02 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ مستدرک حاکم:3/227
- ↑ أسد الغابة في معرفة الصحابة - زيد بن الخطاب آرکائیو شدہ 2017-02-02 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ (ابن سعد،جز3،ق1:275)
- ↑ موسوعة مواقف السلف في العقيدة والمنهج والتربية - محمد بن عبد الرحمن المغراوي - ج9 ص11 آرکائیو شدہ 2017-10-05 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]