زیاد بن ابیہ
حضرت امیر معاویہ کے ایک اہم مشیر۔ اتنہائی ذہن انسان تھا۔ بہت بہادر جرنیل اور بہت اچھا منتظم تھا۔
زیاد بن ابیہ | |
---|---|
(عربی میں: زياد بن أبيه) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 623ء طائف |
وفات | 23 اگست 673ء (49–50 سال) کوفہ |
مدفن | کوفہ |
طرز وفات | طبعی موت |
شہریت | خلافت راشدہ سلطنت امویہ |
اولاد | ابن زیاد |
تعداد اولاد | 8 |
والد | ابو سفیان بن حرب |
بہن/بھائی | |
خاندان | خلافت امویہ |
عملی زندگی | |
پیشہ | عسکری قائد ، والی ، سیاست دان |
مادری زبان | عربی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
عسکری خدمات | |
وفاداری | سلطنت امویہ |
درستی - ترمیم |
نام و نسب
ترمیماس کا نام زیاد بن ابیہ تھا چونکہ دور جاہلیت میں اس کی ماں سمیہ (حارث بن کلدہ طبیب کی لونڈی تھی) کے کئی آدمیوں سے تعلق تھا تو اس کو معلوم نہ ہو سکا کہ اس کا یہ بیٹا کس آدمی کی اولاد ہے۔ متعدد افراد اس کے باپ ہونے کے دعویدار تھے۔ سمیہ ایک ایرانی یا ہندوستانی کنیز تھیں اور رومی غلام عبید ثقفی کی بیوی تھی مگر اس کے کئی مردوں سے تعلقات تھے، اس لیے اس کے اس بیٹے کا والد نامعلوم تھا اور اسی لیے زیاد کو زیاد ابن ابیہ (اپنے باپ کا بیٹا زیاد)، زیاد ابن امہ (اپنی ماں کا بیٹا زیاد) اور زیاد ابن سمیہ اور زیاد بن عاص کہا جاتا تھا۔ جب زیاد جوان ہوا تو اس کی ماں سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد تھی اور ان میں سے کچھ اسے اپنا بیٹا سمجھتے تھے۔ دوسرے خلیفہ عمر کے دور میں ابو سفیان نے اسے اپنا بیٹا کہنا شروع کر دیا۔ لیکن حضرت علی ابن ابی طالب نے ابو سفیان کی اس بات پر اسے سرزنش کی۔امیر المومنین علی ابن ابی طالب کی شہادت کے چند سال بعد اس کے بیٹے معاویہ نے علی مرتضی کی مخالفت کرتے ہوئے، بغیر کسی دلیل کے دوبارہ اسے اپنے باپ ابوسفیان کی اولاد کہنا شروع کر دیا۔[1] ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی معاویہ بن ابی سفیان کا اقدام درست نہیں مانا،[2] سخت مخالفت کی اور زیاد کو اپنا بھائی تسلیم نہ کیا۔[3]
حضرت علی کی حمایت
ترمیمشروع میں حضرت علی کے معروف حامیوں میں سے تھا اور حضرت علی نے اسے کرمان اور اصطخر، فارس کا گورنر مقرر کیا تھا۔ معاویہ نے اس زمانے میں ان کو ایک خط لکھا تھا جس میں انھیں خلیفہ المسلمین علی کو چھوڑ کر اپنی طرف بلایا اور دھمکیاں دی تھیں۔زیاد نے انکار کرتے ہوئے، بڑا سخت جواب لکھا جو تاریخ میں ثبت ہے۔اپنے جواب میں یہ بھی لکھا: جنگ احزاب سے بچ نکلنے والے بچے۔ نفاق کے ستون کی اولاد اور جگر کو چبانے والی کے بیٹے تم مجھے دھمکیاں دے رہے ہو جبکہ میرے اور تمھارے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں جو ستر ہزار تلواروں کے ساتھ تیار ہیں، خدا کی قسم! اگر تم مجھے تیر سے نشانہ بنانا چاہتے ہو تو میں خونی تلوار لے کر تمھارے پاس آؤں گا۔[4]
حضرت علی کے بعد حضرت حسن کے ساتھ منسلک رہا۔ لیکن ان کی دستبرداری کے بعد مشرقی علاقوں میں آزاد حکمران بن گیا۔ اس کی اعلیٰ صلاحیتوں کے سبب امیر معاویہ اس سے خائف تھے اور وہ یہ سمجھتا تھا کہ امیر معاویہ اسے کسی قیمت پر نہیں بخشیں گے۔ مغیرہ بن شعبہ امیر معاویہ کے مشیر بنے تو انھوں نے زیاد اور امیر معاویہ کے درمیان معاملات طے کرا دیے۔
امیر معاویہ کے مشیر
ترمیماس طرح زیاد دمشق گیا۔ امیر معاویہ نے نہ صرف اس کا گرمجوشی سے استقبال کیا بلکہ یہ اعلان بھی کیا کہ وہ اس کے والد ابوسفیان کا بیٹا اور ان کا بھائی ہے۔ اس سے زیاد کو نفسیاتی سکون ملا اور اس نے بہت وفاداری سے اموی حکومت کی خدمت کی۔ زیاد شروع میں مغیرہ بن شعبہ کا مشیر بنا پھر بصرہ کا گورنر اور مغیرہ کی وفات کے بعد کوفہ و بصرہ دونوں جگہ کا گورنر بنا۔ وہ سال کا نصف حصہ ایک جگہ گزارتا تھا اور باقی نصف دوسری جگہ۔ نہایت سخت گیر حکمران تھا۔ اس نے شورش پسند عراقیوں کو سختی سے کچل دیا۔ کوفہ و بصرہ میں فوج اور پولیس کی تعداد میں اضافہ کیا۔ مشتبہ افراد کی نگرانی کی۔ رات بھر کا پہرہ نافذ کیا جو اتنا سخت تھا کہ رات کو گھر سے باہر نکلنے والا قتل کر دیا جاتا۔ زیاد نے بنو امیہ کے مخالفین کو چن چن کر قتل کروا دیا۔ ان میں صحابی رسول حجر بن عدی اور ان کے ساتھ بھی شامل تھے۔ جن کو قتل کروانے کے لیے مغیرہ تیار نہیں ہوئے تھے۔
یزید نے حضرت حسین کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے اس کے بیٹے عبید اللہ بن زیاد کو مقرر کیا تھا جو ابن زیاد کے نام سے مشہور ہے جو اس کی وفات 673ھ کے بعد اس کا جانشین مقرر کیا گیا تھا۔