ساحر ہوشیارپوری (پیدائش: 11 فروری 1912ء – وفات: 18 دسمبر 1994ء) اردو زبان کے شاعر تھے۔ دبستان دہلی کے شعرا میں اُن کا شمار بیسویں صدی کے بڑے شاعروں میں کیا جاتا ہے۔

ساحر ہوشیارپوری
معلومات شخصیت
پیدائش 11 فروری 1912ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ہوشیارپور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 18 دسمبر 1994ء (82 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فریدآباد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ صحافی ،  شاعر ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان پنجابی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

پیدائش و نام و خاندان

ترمیم

ساحر کی پیدائش 11 فروری 1912ء کو ہوشیار پور میں ہوئی۔ اسکول رجسٹر کے مطابق تاریخ پیدائش 5 مارچ 1913ء ہے مگر یہ درست تاریخ پیدائش نہیں ہے کیونکہ ساحرؔ کے آخری مجموعہ کلام ’’سحر خیال‘‘ (جسے نارنگ ساقی نے مرتب کیا تھا) میں شامل ایک قطعہ کے مطابق جو ساحر نے 11 فروری 1987ء کو اپنے 75 ویں یومِ پیدائش کی ایک تقریب کے موقع پر کہا، اُس کے مطابق درست تاریخ پیدائش 11 فروری 1912ء ہی ہے۔ ساحر کا پیدائشی نام رام پرکاش تھا مگر اُن کے استاد جوش ملسیانی نے 1949ء میں تخلص ’’ساحرؔ‘‘ اختیار کرنے کی تجویز دی تھی جس سے وہ ساحرہوشیارپوری کے نام سے مشہور ہوئے[1]۔ساحر ہوشیارپور کے ایک نہایت ہی متمول خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔[2]

دہلی میں سکونت

ترمیم

تقسیم ہندوستان سے قبل ہوشیار پور میں ساحر کے والد کا بڑا کاروبار تھا۔ دولت کی ریل پیل تھی اور کوئی فکر معاش نہیں تھی۔ لیکن تقسیم ہندوستان (1947ء) کے آس پاس بھرے پُرے خاندانی کاروبار کو چھوڑ کر ساحر نے دہلی میں بودوباش اِختیار کرلی۔ دہلی میں سکونت کے دوران وہ نجی ملازمتوں سے منسلک رہے اور بعد ازاں اپنے ذاتی کاروبار میں مصروف ہو گئے۔ وہ دہلی میں مقیم اردو زبان کے شعرا میں معاشی طور پر ایک کامیاب شاعر کی حیثیت سے زندگی بسر کرتے رہے۔[3]

وفات

ترمیم

ساحر ہوشیارپوری کی وفات 82 سال کی عمر میں بروز 18 دسمبر 1994ء کو فرید آباد میں ہوئی۔

شاعری

ترمیم

ساحر ہوشیارپوری کو شاعری میں جوش ملسیانی سے تلمذ حاصل تھا۔ جوش ملسیانی اردو زبان کے ممتاز ترین شاعر داغ دہلوی کے آخری شاگردوں میں سے تھے، اِس اعتبار سے ساحر کو داغ دہلوی سے بھی نسبت حاصل ہے[4]۔ساحر ایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نہایت متحرک اور سرگرم انسان بھی تھے۔ متعدد ادبی انجمنوں اور تنظیموں سے وابستہ تھے۔ تحت اللفظ میں اپنا کلام پڑھنے کے باوجود مشاعروں میں نہایت مقبول تھے اور ہر جگہ پسند کیے جاتے تھے۔ نعت و سلام بڑے اہتمام اور عقیدت سے پڑھتے تھے۔ مجموعہ ہائے کلام میں سحر غزل 1959ء، سحر نغمہ 1970ء اور سحر حرف 1982ء میں شائع ہوئے۔ یہ وہ مجموعہ ہائے کلام ہیں جو ساحر کی زندگی میں ہی شائع ہوئے۔ آخری مجموعہ کلام سحر خیال ہے جسے 1990ء میں نارنگ ساقی نے مرتب کیا۔اِن شعری مجموعہ ہائے کلام کے علاوہ ساحر نے ماہنامہ کتاب نما دہلی کا ’’یادگارِ جوش ملسیانی نمبر‘‘، ہریانہ پردیش کے شاعروں کا تذکرہ ’’بساط فکر‘‘ (جو 1988ء میں شائع ہوا) اور ’’نقوشِ داغ‘‘ جیسے مجموعہ جات بھی مرتب کیے جن کو ہریانہ پردیش ، اُردو اکادمی نے بڑے اہتمام سے شائع کیا۔ساحر نے 1939ء میں مہاویر[5] کی زندگی اور تعلیمات کو ’’مہاویر مہیما‘‘ کے عنوان سے شعری پیکر میں ڈھال کر پیش کیا۔[6]

کتابیات

ترمیم
  • ساحر ہوشیارپوری: نذر ساحر ہوشیار پوری، مطبوعہ غالب اکیڈمی، دہلی، 1987ء
  • عظیم اختر: بیسویں صدی کے شعرائے دہلی، جلد 2، مطبوعہ اُردو اکادمی، دہلی، 2005ء

حوالہ جات

ترمیم
  1. نذر ساحر ہوشیارپوری، صفحہ 1 ۔
  2. بیسویں صدی کے شعرائے دہلی، جلد 2، صفحہ 629۔
  3. بیسویں صدی کے شعرائے دہلی، جلد 2، صفحہ 629۔
  4. بیسویں صدی کے شعرائے دہلی، جلد 2، صفحہ 629۔
  5. مہاویر جین مت کے سب سے بڑے پیشوا سمجھے جاتے ہیں جن کی پیدائش 599 قبل مسیح اور وفات 72 سال کی عمر میں 527 قبل مسیح میں ہوئی۔ مہاویر بدھ مت کے بانی مہاتما گوتم بدھ کے ہم عصر تھے۔
  6. بیسویں صدی کے شعرائے دہلی، جلد 2، صفحہ 629۔