سردار خان بہادر اللہ بخش گبول

خان بہادر اللہ بخش خان گبول ولد خداداد خان گبول (15 اگست 1895 تا دسمبر 1972) کراچی سے بیسویں صدی کے معروف سیاسی راہنما اور جاگیر دار تھے۔ موجودہ لی مارکیٹ، صفورا گوٹھ، عبد اللہ گبول گوٹھ، چھٹہ خان گوٹھ اور گڈاپ کا علاقہ اُن کی ذاتی ملکیت میں شامل تھا۔[1]

ابتدائی و اعلیٰ تعلیم

ترمیم

ابتدائی تعلیم کراچی میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے ممبئی روانہ ہوئے اور گریجویشن کی ڈگری 1930ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اِمتیازی نمبروں کے ساتھ حاصل کی۔

سیاسی زندگی

ترمیم

عملی سیاست کا آغاز اُنھوں نے کانگریس میں شمولیت سے کیا۔ انھیں گورنمنٹ انڈیا ایکٹ کے نفاذ کے بعدسندھ اسمبلی کے پہلے ڈپٹی سپیکر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔

سندھ کی ممبئی سے علیحدگی کے بعد 1937ء کے پہلے انتخابات میں اُنھوں نے مسلم لیگ کے ’’ سر عبد اللہ ہارون‘‘ کو شکست دی۔ وہ دو بار 1935ء اور 1962ء میں کراچی کے میئر رہے جو اَب کراچی میٹروپولیٹن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انگریز دور ِحکومت میں اُن کو ’’ خان بہادر‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد 1966ء میں انھیں اُس وقت کے صدر ایوب خان کی طرف سے ’’ ستارۂ امتیاز‘‘ سے بھی نوازا گیا۔ وہ اَپنے وقت کے کراچی کے با اَثر سیاست دان تصور کیے جاتے تھے۔ اِس کے علاوہ وہ بہت سے اعزازی عہدوں پر بھی فائز رہے جن میں ’’ ٹرسٹی آف کراچی پورٹ‘‘، ’’ اعزازی سیکریٹری سول ہسپتال کراچی‘‘، 1952ء میں ’’ اعزازی مشیر حکومتِ پاکستان ‘‘، ’’ وائس پریذیڈنٹ سندھ مدرسہ ‘‘اور ’’ ایس-ایم کالج‘‘، ’’پریذیڈنٹ کراچی ریس کلب ‘‘ اور ’’ آنریری مجسٹریٹ درجہ اوّل ‘‘ (With Summary Powers)۔ آپ کے بیٹے عبد الستار گبول بھی آپ کے نقشِ قدم پر گامزن رہے ۔[2]

سماجی خدمات

ترمیم

اپنی زندگی کے دوران اُنھوں نے کراچی اور سندھ کے غریب خاندانوں بالخصوص بلوچوں کو زمینیں عطا کیں۔ بہت سے اسکول اور ثقافتی مراکز آج بھی اُن کے نام سے موسوم ہیں جن میں لیاری کا مشہور ’’گبول پارک‘‘ بھی شامل ہے۔ کراچی سول ہسپتال کے اعزازی سیکریٹری اور خزانچی، کراچی حج کمیٹی، موہتا آئی ہاسپٹل، لیڈی ڈفرن ہسپتال کے انتظامی ممبر اور کراچی کے میئر ہونے کی بدولت اُنھوں نے خیراتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔[3]

بلوچ لیگ کی بنیاد

ترمیم

بلوچ قومی شعور کو اُجا گر کرنے کے لیے کراچی نے بہت اَہم کردار اَدا کیا۔ کراچی نہ صرف جدید بلوچی اَدبی تحریک کا سنگِ میل رہا ہے بلکہ جدید بلوچ سیاسی رجحانات کی بالادستی کے لیے بھی مرکز کی سی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ انجمن کے قیام کے ساتھ بیک وقت کراچی میں اَدبی کلاس نے ’’ بلوچ لیگ‘‘ کے نام سے ایک قوم پرست جماعت تشکیل دی۔ غلام محمد نور الدین جو ممبئی سے تعلیم یافتہ تھے، پہلے صدر تعینات ہوئے۔ بلوچ لیگ کے دوسرے سرکردہ عہدے داروں میں واجہ عمر بخش سبیرا، محراب خان،مولانا عبد الصمد سربازی، خان صاحب عثمان، خان بہادر اللہ بخش خان گبول اور پیر بخش شہداد وغیرہ شامل تھے۔ بلوچ لیگ نے پہلی سالانہ کانفرنس میں مگسی صاحب کی گرفتاری کی مذمت کی اور حکومتِ برطانیہ سے فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ بلوچ لیگ کی مقبولیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ مشہور قوم پرست راہنما ’’ میر غوث بخش بُزنجو ‘‘نے علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجوایشن کے بعد 1930ء کے اَواخر میں سب سے پہلے بلوچ لیگ میں شمولیت اختیار کی۔[4]

ماقبل  سربراہ گبول قبیلہ
مابعد 

حوالہ جات

ترمیم
  1. The Caseof Sindh - G.M. Syed’s deposition in court (Part 1)
  2. گبول قبیلہ کی نمایاں شخصیات صفحہ 344، ناشر: ادارہ تحقیق و تاریخ، علی پور (2014)
  3. جنب گذاريم جن سين از: جی-ایم سید ناشر:سندھی ادبی بورڈ، جامشورو (1967)
  4. https://balochwriters.files.wordpress.com/2010/12/balochnationalismitsoriginanddevelopment.pdf

بیرونی روابط

ترمیم