نبیل احمد خان آکھوانی گبول
رکن قومی اسمبلی، پاکستان
آغاز منصب
1 جون 2013
معلومات شخصیت
پیدائش 16 نومبر 1962ء (62 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
جماعت پاکستان پیپلز پارٹی   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

خاندانی پس منظر اور ابتدائی و اعلیٰ تعلیم

ترمیم

پاکستان پیپلزپارٹی کے سابقہ سینئر راہنما سردار نبیل احمد خان گبول، سردار خان احمد خان گبول کے بیٹے ہیں۔ وہ 16نومبر 1962ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ وہ بلوچ قبیلہ ’’گبول‘‘ کے موجودہ ’’چیف سردار‘‘ بھی ہیں۔ ابتدائی تعلیم (St Patrick's High School)سے حاصل کی، 1982ء میں کراچی یونیورسٹی سے بیچلر کیا۔ اُنھوں نے ایک سیاسی خاندان میں آنکھ کھولی اس لیے شروع سے سیاست سے لگاؤ تھا۔ اُن کے دو اور بھائی بھی ہیں جو سیاست سے دور اور بزنس مین ہیں۔ سردار نبیل احمد خان گبول گوکہ عمانی شہریت رکھتے تھے مگر اُن کی تعلیم و تربیت کراچی میں ہوئی۔ اُن کے ایک بڑے بھائی سرفرازاحمدخان گبول بھی عمانی شہریت کے حامل ہیں اور مسقط میں کاروبار سے منسلک ہیں۔ ذو الفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی اور پیپلزپارٹی کے بانی رُکن بیرسٹر عبد الستار گبول آپ کے چچا تھے۔ سردار نبیل گبول نے پارٹی اور سیاست کی خاطر اپنی عمانی شہریت کی قربانی دی۔ اُن کے دادا سردار خان بہادر اللہ بخش گبول تقسیمِ ہند سے پہلے کی سندھ اسمبلی کے ’’ ڈپٹی اسپیکر ‘‘ رہے اور کراچی کے دومرتبہ میئربھی۔ تحریکِ پاکستان میں سرداراللہ بخش گبول کا بڑا مثبت کردار رہا۔ اُن کے والد خان احمد خان گبول اورچچا عبد الستار گبول نے پاکستان کی سیاست میں بڑا فعال کردار ادا کیا ۔[1]

سیاسی زندگی

ترمیم

اُنھوں نے 24 سال کی عمر میں سیاسی کیریئر کا آغاز پاکستان پیپلزپارٹی سے کیا۔ اَب تک مسلسل پانچ مرتبہ وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے لیے اور ایک مرتبہ ایم۔ کیو۔ ایم کے لیے سیٹ جیت چکے ہیں۔ ممبر قومی و صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کے علاوہ انھیں سندھ کے کم عمر ترین ڈپٹی سپیکر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ انھیں مارچ 2009ء میں بلوچستان کے سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے پیپلزپارٹی کی خصوصی ٹیم میں شامل کیا گیا۔ انھوں نے مخلصانہ طور پر بلوچ عوام کی مشکلات حل کرنے کے لیے بلوچستان کے سیاسی اور قبائلی راہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کیں مگر افسوس کہ اُن کی پارٹی بلوچوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت میں وہ وفاقی کابینہ کا حصہ رہے مگر آصف علی زرداری سے اختلافات کی وجہ سے انھوں نے اپنے عہدے سے اِستعفیٰ دے دیا۔

گبول قبیلہ کے لیے نمایاں خدمات

ترمیم

سردار نبیل احمد خان گبول نے کوہستان کے لیے بڑی خدمات سر انجام دی ہیں۔ وہ اپنے علاقے کی فلاح کے لیے وہاں کی غریب عوام سے ملتے ہیں، اُن کی مشکلات کی داستان سنتے اور اُن کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرکے اُن کے مسائل حل کر تے ہیں۔ اِس لیے کوہستان کے عوام اُن سے بہت خوش ہیں۔ اُنھوں نے کوہستان میں عوام کے لیے ایک ’’ اوطاق ‘‘ قائم کیا۔ سرکاری مصروفیات سے فارغ ہو کر وہ وہاں آ کر علاقے کے لوگوں کے مسائل سنتے ہیں۔ اُنھوں نے لیاری کے ساتھ ساتھ کوہستان میں بھی بلوچ عوام کے لیے بلا تخصیص کام کیے ہیں۔ اُنھوں نے جن ترقیاتی کاموں کی منظوری کروائی اُن میں بجلی کی رَسد، پختہ روڈ، رُوزگار کے مواقع، ٹیلی فون وغیرہ کی سہولیات قابل ذکر ہیں، اُن میں سے تقریباً تمام منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ اُن کی خدمات اپنے قبیلے کے علاوہ کوہستان کی دوسری برادریوں کے لیے بھی نا قابلِ فراموش ہیں۔ خاص طور پر انھوں نے کڑچاٹ، نئیغ، ٹکو باران، تونگ، کیئجی،بیلہ ٹپ، کوہ تراش، ملیرڑی وغیرہ میں بے شمار فلاحی کام کروائے جن کی پورے علاقے میں مثال نہیں ملتی۔ ٹھوٹھ جبل سے راستہ نکلوانا اور کیر تھر پہاڑکی مغربی اور شمالی ندی کو ملانے والے کام ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ کوہستان کی غریب عوام سردار نبیل احمد گبول سے بہت خوش ہے۔ حال ہی میں اُنھوں نے ضلع جام شورو، تھانہ بولا خان میں آباد گبول قبیلہ کے لیے سید یوسف رضا گیلانی سے بجلی کی منظوری کروائی ہے۔’’ گبول ‘‘ ایک بڑا قبیلہ ہے جس کی شاخیں کراچی، کاشمور،علی پور، باران، جیکب آباد، گڈاپ، دادو، گھوٹکی، بدین، راجن پور کے علاوہ سلطنتِ عمان اور سعودی عرب میں بھی موجود ہیں۔ سردار نبیل احمد گبول خود کے لیے موروثی سیاست اورجاگیردارانہ شناخت کو فخرسمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آصف علی زرداری کی اس بات پرناراض تھے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ ’’ سردار‘‘ نہ لکھیں جو نہ صرف اُن کی خاندانی شناخت ہے بلکہ وہ موجودہ وقت میں بلوچی قبیلہ ’’گبول ‘‘ کے چیف سرداربھی ہیں جو زرداری قبیلہ سے کہیں بڑا ہے۔

سردار نبیل احمد گبول جب رُکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے تو اُس وقت اُن کی شہریت عمانی تھی اورعمانی پاسپورٹ پرپاکستان میں مقیم تھے۔ جب دوسری بار سندھ اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے، اُس وقت اُن کی شہریت پر ہنگامہ ہوا تب وہ عمان جاکر اپنے عمانی پاسپورٹ سے دستبردار ہوئے اور پاکستانی شہریت پر ڈپٹی اسپیکرشپ قائم رکھی۔ سردار نبیل گبول کا آبائی حلقہ انتخاب کراچی میں ہمیشہ لیاری کا علاقہ رہا ہے۔ اور وہ ہمیشہ اِسی حلقہ انتخاب سے جیتتے رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ لیاری گبول خاندان کا مضبوط حلقۂ انتخاب رہا ہے۔

سردار نبیل احمد خان گبول نے یہ کہہ کر وزیر مملکت برائے پورٹ اینڈ شپنگ کے منصب سے مُستعفی ہوئے کہ وہ اپنے تین سالہ پیپلز پارٹی کے دورِ وزارت میں اپنے حلقۂ انتخاب میں ووٹروں کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے اوراِس حدتک شرمندہ ہیں کہ اپنے حلقۂ انتخاب میں لوگوں کا سامنا بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن زیادہ ترتجزیہ نگاراِس دلیل سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ اِس کے مضمرات جاننے کے لیے ان امکانات کو بھی نظر انداز نہیں کرتے کہ پس پردہ ’’ سرداری ‘‘کی رسہ کشی اوراُن کی مشکوک دوہری شہریت کا ٹکراؤ شامل ہواور چونکہ اُن کے بیانات پارٹی پالیسی کے خلاف جانے لگے تھے جس میں سب سے اہم کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کو روکنے کے لیے ’’ فوج بلانے کا مطالبہ‘‘ سردار نبیل احمد خان گبول نے ہی کیا تھا، جو کہا جاتا ہے کہ پارٹی پالیسی کے سخت خلاف تھا۔ مگر مختلف ٹاک شوز میں وہ یہ بھی وضاحت کر چکے ہیں کہ اُنھوں نے کراچی میں پاکستان کی فوج بلانے کی بات کی تھی نہ کہ بھارت کی۔[2]

سردار نبیل احمد خان گبول اور لیاری کی سیاست

ترمیم

پیپلزپارٹی کے سابق رُکن قومی اسمبلی اور لیاری کے اہم سیاسی خاندان کے چشم و چراغ سردار نبیل احمد خان گبول نے پیپلز پارٹی سے طویل ناتا توڑنے کے بعد اپنے ساتھیوں سمیت متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ اُن کے اس فیصلے سے سندھ بالخصوص کراچی اورلیاری کی سیاست میں ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔ یہاں کئی سوالات بھی پیداہوئے ہیں۔ اوّل،سردارنبیل احمد گبول کے اِس فیصلے سے ایم۔ کیو۔ ایم کو کیا فوائد حاصل ہوئے ہیں اور پیپلز پارٹی کو کیا نقصان پہنچاہے؟ دوم،اُن کے اس فیصلے سے سندھ میں جاری لسانی تفاوت میں کسی قسم کی کمی کی توقع کی جا سکتی ہے یا نہیں؟سوم،سردارصاحب کی اپنی سیاسی حیثیت پر اِس فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

اِس فیصلے کے مضمرات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ لیاری کی سیاسی اور سماجی زندگی کو سمجھاجائے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں موجود علاقوں میں تقسیم ہند سے قبل پختونخوا اور سندھ میں سیاسی شعوردیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ تھا۔ جب کہ ساحلی شہر کراچی کے بلوچوں کے گڑھ لیاری میں سندھ کے دیگر شہروں کے مقابلے میں زیادہ سیاسی شعور پایاجاتا تھا۔ یہ علاقہ اُس زمانے میں کانگریس کا مرکز کہلاتا تھا۔ جہاں اس جماعت کے کئی بڑے جلسے ہوئے، جن میں کانگریس کی مرکزی قیادت نے شرکت کی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ حلقہ سیاسی سرگرمیوں میں پیش پیش رہا۔ خاص طور پر بائیں بازو کی سیاست میں اس کا کلیدی کردار رہا۔ جمہوریت کی بحالی اور صوبائی خود مختاری کے لیے ہونے والی جدوجہد کا مرکز رہاہے۔

اب جہاں تک لیاری کی سماجی زندگی کاتعلق ہے،تو قیام پاکستان سے قبل اس علاقے میں بلوچ اور کچھی محنت کش آباد تھے۔ کچھی لیاری کے جنوب مشرقی علاقے سے ہوتے ہوئے ویسٹ وہارف تک آباد تھے۔ اس سرزمین نے کئی نابغہ رُوزگارہستیاں بھی پیداکیں۔ جن میں قلمکار،دانشور،صحافی،کھلاڑی اور فنکار شامل ہیں۔ اردو اور بلوچی کے کئی نامی گرامی شعرا نے اِس مٹی سے جنم لیا۔ بلوچی زبان کے صوفی شاعر سید ملنگ شاہ کی صاحبزادی محترمہ ’’ بانل دشیاری ‘‘ بلوچی زبان کی بے مثل شاعرہ اور ادیبہ تھیں۔ اس کے علاوہ ’’ن۔ م دانش ‘‘ جیسا اُردوکافقید المثال شاعر بھی اِسی علاقے سے تعلق رکھتاہے۔ ’’ پروفیسر علی محمد شاہین ‘‘ مرحوم جیسا مدبراوردانشور بھی اسی مٹی سے اٹھا تھا۔ فٹ بال اہلِ لیاری کا پسندیدہ کھیل رہاہے اوریہی وجہ ہے کہ اس علاقے نے فٹ بال کے کئی عالمی شہرت یافتہ کھلاڑیوں کوجنم دیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد پختون، پنجابی، اردوگجراتی بولنے والے بھی اِس علاقے میں آباد ہوئے۔ اِس طرح آج یہ بلوچ اکثریتی ہونے کے باوجود کثیراللسانی حلقہ ہے۔

جیسا کہ اوپر بیان کیاجاچکاہے کہ سیاسی شعور میں لیاری کااپنا منفرد مقام ہے۔ اس علاقے نے ویسے تو کئی بلندقامت شخصیات کو جنم دیا،لیکن ’’ خان بہادر اللہ بخش خان گبول ‘‘ مرحوم خاصی فعال اور متحرک شخصیت تھے۔ اُنھوں نے برطانوی دور میں مسلم لیگی رہنما ’’ سر عبد اللہ ہارون ‘‘ کو اِس حلقے سے شکست دی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ دو مرتبہ کراچی کے میئرمنتخب ہوئے۔ پہلادَوراپریل 1951ء سے جنوری 1953ء تک، جب کہ دوسرا دور مئی 1961ء سے اکتوبر 1962ء تک محیط رہا۔ پیپلز پارٹی کے قیام کے ساتھ ہی گبول قبیلہ کا یہ خاندان اِس جماعت میں شامل ہو گیا تھا۔

خان بہادر اللہ بخش گبول کے بیٹے ’’ بیرسٹر عبد الستار گبول ‘‘نے 1970ء کے انتخابات میں لیاری کی نشست سے حصہ لیا اور سر عبد اللہ ہارون کے فرزند ’’ سعید ہارون‘‘ مرحوم کو شکست دے کر یہ نشست حاصل کی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن لیاری گبول قبیلہ کی اور کراچی کا گبول قبیلہ لیاری کی شناخت بن چکے ہیں۔ عبد الستار گبول کے بھتیجے اور ’’ خان احمد خان گبول‘‘ کے فرزند’’ سردار نبیل احمد خان گبول ‘‘ نے بھی اپنے سیاسی سفر کا آغاز پیپلز پارٹی سے کیا۔ وہ لیاری سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پرتین مرتبہ( 03)صوبائی اسمبلی اور دو مرتبہ قومی اسمبلی(02) جبکہ 2013 ء کے عام انتخابات میں ایم۔ کیو۔ ایم کے ٹکٹ پر تیسری بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ یوں سردار نبیل احمد خان گبول تین پشتوں سے سیاست سے وابستہ ایک ایسے معتبرسیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس کی سیاسی تاریخ سو سال سے بھی زائد عرصہ پر محیط ہے۔

سردار نبیل احمد گبول کے اپنے ساتھیوں سمیت متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت پر سینئر صحافی ’’نادر شاہ عادل‘‘سے سوال کیا گیا،تو اُن کاکہناتھا کہ حالات بتا رہے ہیں کہ سیاسی حالات میں تمام نشیب وفراز اور ووٹوں کی تعداد میں کمی بیشی کے باوجود لیاری فی الحال پیپلز پارٹی کا گڑھ رہے گا۔ اُن کا کہناتھا کہ سردار نبیل احمد خان گبول کے جانے سے لیاری کی سیاست پراچانک کوئی فرق نہیں پڑے گا، البتہ مستقبل میں اِس علاقے کو مزید سیاسی اہمیت حاصل ہوگی۔ ممکن ہے مستقبل میں سردار نبیل احمد گبول عزیز آباد کے علاوہ یہ سیٹ بھی حاصل کر لیں۔ تاہم،جماعتوں نے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر لیاری کو جس طرح گینگ وارکی آگ میں جھونکا ہے،اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ ’’یوسف مستی خان‘‘ کا کہناتھا کہ لیاری میں اِس وقت گینگ وار کی مافیائوں کاراج ہے،اس لیے وہاں ماضی کی جمہوری سیاست کے تسلسل کاتصور ختم ہو گیاہے اور رفتہ رفتہ طاقت کی سیاست پروان چڑھتی جا رہی ہے۔

’’عثمان بلوچ ‘‘ کا کہناتھا کہ سردار نبیل احمد خان گبول کے متحدہ میں جانے سے لیاری میں ووٹ تقسیم ہوگا۔گذشتہ پانچ برسوں کے دوران پیپلز پارٹی کے بعض وزراء کی پالیسیوں کی وجہ سے لیاری بے امنی کا گڑھ بن گیاہے۔ اس کے علاوہ کچھیوں اور بلوچوں کے درمیان بھی فاصلے بڑھے ہیں،جس کا فائدہ ایم۔ کیو۔ ایم کو پہنچا ہے۔ اُن کا کہناتھا کہ پیپلزپارٹی لیاری کی نشست تو نکال لے گی،لیکن متحدہ کواِس علاقے میں جگہ بنانے کا بہر حال موقع مل گیا ہے۔ ساتھ ہی اُن کا یہ بھی کہناتھا کہ سردار نبیل احمد خان گبول کے متحدہ میں جانے سے لیاری میںگینگ وار کے مختلف گروپوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور علاقے میں سیاسی فیصلہ سازی میں پیپلزامن کمیٹی کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اِس لیے پیپلز پارٹی اَب امن کمیٹی کے ساتھ معاملات طے کرنے پر مجبورہوگئی ہے۔ عثمان بلوچ کے مطابق لیاری کی مخدوش صورت حال کے سبب نظر اندازکیے جانے والے پیپلزپارٹی کے دیرینہ کارکن حکیم بلوچ کی اہمیت بھی بڑھ گئی ہے، جو کراچی کے اطراف میں موجود بلوچ اور سندھی بستیوں میں خاصے مقبول ہیں۔

گبول ایک بڑا بلوچ قبیلہ ہے، جو لیاری کے علاوہ کراچی کے اطراف میں موجودگوٹھوں میں بڑی تعداد میں آباد ہے اور سیاست میں خاصا فعال ہے۔گڈاپ ٹائون سے تعلق رکھنے والے بعض گبول نوجوانوں سے جب اِس حوالے سے گفتگو کی تو مختلف آراء سامنے آئیں۔ کچھ نوجوانوں کا کہناہے کہ 2005ء سے 2010ء کے دوران قائم ہونے والی مقامی حکومت میں ایم۔ کیو۔ ایم نے کراچی کے دیہی علاقوں کی ترقی پر توجہ نہیں دی۔ جس کی وجہ سے گذشتہ پانچ برسوں کے دوران لسانی نفرتوں میں اضافہ ہواہے۔ اس لیے سردار نبیل احمد خان گبول کے ایم کیو ایم میں جانے سے کراچی کے بلوچوں پرزیادہ اَثرات مرتّب نہیں ہوں گے۔ اِس کے برعکس نوجوانوں کے ایک دوسرے گروپ کا کہناہے کہ ہمارا مستقبل کراچی سے وابستہ ہے اور ہمیں اُن لوگوں کے ساتھ مل کر رہنا ہے، جو شہر کے مختلف حصوں میں اَب ایک حقیقت ہیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے مسائل کواَندرون سندھ سے آنے والے وزراء کے مقابلے میں ایم۔ کیو۔ ایم بہتر سمجھتی ہے۔ اس لیے ایم۔ کیو۔ ایم کے ساتھ ہمارا اتحاد فطری ہے۔

سردار نبیل احمد خان گبول کے اپنے ساتھیوں سمیت ایم۔ کیو۔ ایم میں جانے سے کراچی کے اِس قدیمی حلقے کی سیاست میں تبدیلی کے آثار بہرحال پیداہوئے ہیں،جس کے دُور رَس نتائج برآمد ہونے کے امکانات کو بھی ردنہیں کیا جا سکتا۔ سردار نبیل احمد خان گبول عزیزآباد کے حلقے سے اگلی قومی اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی نئی پارٹی کو لیاری میں عوامی سطح تک مقبول بنانے میں کس حد تک کامیاب ہوں گے۔ شاید اِسی کردار کی بنیاد پر نئی جماعت میں اُن کی پوزیشن کا تعین ہو سکے گا۔ لیکن جہاں تک ایم۔ کیو۔ ایم کاتعلق ہے،تو یہ اُس کے لیے بہت بڑی کامیابی ہے کہ وہ کراچی کے ایک قدیمی سیاسی خاندان کے اہم فرد کو اپنی صفوں میں شامل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔

ماقبل 
سردار خان بہادر اللہ بخش گبول سردار احمد خان گبول
سربراہ گبول قبیلہ مابعد 
برسرِ عہدہ

حوالہ جات

ترمیم
  1. گبول قبیلہ کی نمایاں شخصیات صفحہ 348، ناشر: ادارہ تحقیق و تاریخ، علی پور (2014)
  2. گبول قبیيلي جو تاريخي جائزو (2011) محقق: عبد الحميد گبول۔