سردار غلام عباس خان
سردار غلام عباس خان کا نام چکوال ضلع کی سیاست میں بہت اہمیت کا حامل ہے ان کا تعلق کوٹ چوہدریاں کے چوہدریال گھرانے سے ہے ان کے والد محترم سردار حق نواز علاقے کی مشہور اور ہردلعزیز شخصیت تھے سردار غلام عباس خان نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں اور بی اے کی ڈگری گورنمنٹ کالج لاہور سے حاصل کی چوہدری خضر حیات خان سے انھوں نے سیاسی تعلیم و تربیت حاصل کی اور انہی کے جانشین کے طور پر سیاست میں قدم رکھا۔1985ء میں پہلی مرتبہ الیکشن میں شمولیت اختیار کی اور PP18سے اپنی ذاتی حیثیت سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے 1988ء کے جماعتی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر PP18 پر کامیاب نہ ہو سکے۔
بعد ازاں 1990ء میں ہونے والے انتخابات میں NA-44 اور PP18 کے دونوں صوبائی و قومی دونوں حلقوں سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ الیکشن میں حصہ لیا اور اگرچہ اس الیکشن میں دھاندلی کے باعث پیپلزپارٹی کو سارے پنجاب میں شکست ہوئی لیکن سردار غلام عباس نے تلہ گنگ جیسی مشکل نشست پر سے ستر ہزار ووٹ حاصل کیے اور صرف 2800 ووٹوں کے فرق سے سردار منصور حیات ٹمن کامیاب ہو گئے 1993ء کے الیکشن میں سردار غلام عباس خان کی مقبولیت عروج پر تھی جب شہید محترمہ بے نظیر بھٹو سرپاک گرائونڈ میں منعقدہ جلسے میں تشریف لائیں غلام عباس خان کا پرتپاک استقبال دیکھ کر انھوں نے بے ساختہ کہا کہ عباس آپ ان لوگوں کو کون سی گندم کا آتا کھلاتے ہو 1993ء میں سردار عباس راولپنڈی ڈویژن کی واحد ایم این اے کی نشست سے ممتاز ٹمن کو کامیاب کروانے اور اپنی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
اس کامیابی کے صلہ میں پیپلزپارٹی کی طرف سے صوبائی وزیر بنا دیے گئے غلام عباس خان مائر منہاس قبیلہ کے پہلے فرد تھے جو صوبائی وزیر بنے لیکن کچھ عرصہ بعد غلام عباس خان نے محترمہ بے نظیر بھٹو سے اختلافات ہو گئے اور انھوں نے پیپلزپارٹی کو خیر باد کہہ دیا اور شائد اسی وجہ سے 1997ء میں شاندار ماضی کے باوجود آزاد حیثیت سے صرف بائیس ہزار ووٹ حاصل کر سکے۔ 2000ء میں سردار اشرف خان کی وفات کے بعد انھوں نے سردار گروپ کو یکجا کیا اور غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور فوج کو مجبوراً غلام عباس خان کو ضلع ناظم بننے کی دعوت دینا پڑی ضلع ناظم بننے کے کچھ عرصہ بعد غلام عباس خان کو مجبوراً ق لیگ میں شمولیت اختیار کرنا پڑی شروع میں وہ یہی کہتے رہے کہ ان کے لیڈر صرف پرویز مشرف ہیں لیکن بعد ازاں ان کے چوہدری پرویز الہی سے قریبی مراسم بن گئے 2003ء کے ہونے والے قومی وصوبائی اسمبلی کے انتخابات میں ضلع چکوال کی تمام چھ نشستوں سے ق لیگ کو کامیاب کروانے میں سردار غلام عباس نے اہم رول ادا کیا، 2006ء میں ان کو جنرل(ر) مجید پر فوقیت دے کر دوبارہ ضلع ناظمی کا ق لیگ کی طرف سے ٹکٹ دیا گیا اوروہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوکر دوبارہ ضلع ناظم منتخب ہوئے۔
بطور ضلع ناظم عباس خان کی کارکردگی انتہائی شاندار رہی اور انھوں نے اس قدر ترقیاتی کام کروائے جن کی مثال ضلع چکوال اس سے قبل نہ ملتی تھی اسی وجہ سے ان کے ساتھیوں نے انھیں محسن چکوال کا خطاب دیا، مگر2008ء کے انتخابات میں محترمہ کی شہادت کے باعث عباس خان اپنی سابق کارکردگی کے باوجود ق لیگ کے خلاف عوامی نفرت کا ووٹ لے بیٹھا اور ان کے بھائی سردار نواب 92ہزار ووٹ لینے کے باوجود 33ہزار ووٹوں سے شکست کھا بیٹھے۔
غلام عباس خان نے کافی سوچ بچار کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کافیصلہ کیا۔لیکن وہ عمران خان اپنا لیڈر تسلیم نہ کرسکے اور الیکشن کے قریب اچانک پارٹی چھوڑ دی اور آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا لہذا ایک لاکھ ووٹ لینے کے باوجود کامیاب نہ ہو سکے، سردار غلام عباس خان انتہائی سحر انگیز شخصیت کے مالک ہیں۔
اکثر لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں اس کے علاوہ ان کا اوڑھنا بچھونا ہی سیاست ہے۔آمدہ بلدیاتی الیکشن میں سننے میں آرہا ہے کہ وہ دوبارہ سے تحریک انصاف کے مقامی امیدوار اور بھٹی گروپ کے سیاسی جانشین چوہدری علی ناصر خان بھٹی سے غیر علانیہ اتحاد کر چکے ہیں سردار غلام عباس خان کی سیاسی چھلانگوں سے سردار گروپ کے ووٹران دوہری سوچ کا شکار ہیں۔[1]