محمد باقر دہلوی

ہندوستانی صحافی اور حریت پسند
(سید محمد باقر دہلوی سے رجوع مکرر)

علامہ سید محمد باقر دہلوی جو مولوی محمد باقر کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں (پیدائش: 1780ء[1] – وفات: 1857ء)، ہندوستانی مجاہدِ آزادی، مرحوم دلی کالج کے استاد، محمد حسین آزاد کے والد اور دہلی کے مشہور صحافی تھے۔ دہلی کالج کے زمانہ مدرسی میں ان کے علمی تبحر، اخلاق اور دیگر ذاتی خصوصیات سے متاثر ہو کر کلکٹر شاہجہان آباد مٹکاف نے انھیں کالج سے کلکٹری میں لے آیا جہاں وہ ترقی کرکے تحصیل دار دہلی کے عہدے تک پہنچے۔ بعد ازاں انھوں نے ملازمت ترک کرکے دہلی اردو اخبار کی ادارت سنبھالی اور جنگ آزادی ہند 1857ء میں اپنی جان قربان کرنے والے پہلے صحافی قرار پائے۔[2][1][3] آزادی کی اس جنگ میں شرکت کی بنا پر انھیں 16 ستمبر 1857ء کو گرفتار کیا گیا اور بغیر کسی مقدمے کے دو دنوں بعد انھیں توپ سے اڑا دیا ۔[4][5][6]

محمد باقر دہلوی

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1780ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 16 ستمبر 1857ء (76–77 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل تشیع (اثنا عشریہ)
فقہی مسلک جعفری
اولاد محمد حسین آزاد   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ صحافی ،  حریت پسند   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

مولوی محمد باقر سنہ 1780ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی محمد اکبر علی دہلی کے روحانی رہنما تھے۔ مولوی باقر نے تعلیم دہلی کالج، دہلی سے حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے کچھ ملازمتیں اختیار کیں جیسا کہ دہلی کالج میں پڑھایا اور ریونیو ڈپارٹمنٹ میں تحصیل دار کے طور پر رہے مگر یہ ان کی آخری منزل نہیں تھی۔ سنہ 1836ء میں جب حکومت میں پریس ایکٹ میں ترمیم کرنے کے بعد اخبارات کی اشاعت کی اجازت دے دی تو انھوں نے صحافت کی دنیا میں قدم رکھا جو ان کا فن اور پہچان بن گیا۔ جنوری 1837ء میں مولوی محمد باقر نے اردو زبان کا ہفت روزہ ”دہلی اخبار“ شروع کیا۔ یہ اخبار 21 برسوں تک جاری رہا اس دوران میں اس کا دو مرتبہ نام تبدیل ہوا۔[1] وہ مولانا محمد اکبر کے واحد بیٹے تھے۔ مولوی باقر کو اردو کے علاوہ عربی، فارسی اور انگریزی بھی آتی تھی، انھوں نے دینی اور دنیوی تعلیم دونوں حاصل کی تھیں۔[7]

صحافت

ترمیم

1836ء کے آس پاس انھوں نے اپنا چھاپہ خانہ قائم کیا اور 1837ء میں اردو کے پہلے باقاعدہ اخبار ’’دہلی اردو اخبار‘‘ کا آغاز کیا۔ اردو اخبار پہلا ایسا عوامی اخبار تھا جو دربار شاہی سے لے کر کمپنی کی خبروں تک اور قومی و بین الاقوامی خبریں بھی شائع کررہا تھا۔ ’’دہلی اردو اخبار‘‘ کے پہلے صفحہ پر ’’ حضوروالا‘‘ کے عنوان کے تحت مغل بادشاہ وشہزادوں کی خبروں کے ساتھ قلعۂ معلی کی نقل و حرکات اور ’’صاحب کلاں‘‘ عنوان کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی کی خبریں چھپتی تھیں۔ اخبار میں مذہبی مضامین کے ساتھ ادبی گوشہ بھی ہوتا تھا جس میں مومن، ذوق،  غالب، بہادرشاہ ظفر، زینت محل اور دیگر شعرا کا کلام چھپتا ۔ وہ ہندوستان میں جدید تعلیم کے فروغ کی اہمیت پر بھی زور دیا کرتے تھے۔

1857ء کی جنگ آزادی میں کردار

ترمیم
 
جنگ آزادی کے آغاز کے بعد 17 مئی 1857ء کے شمارے میں مولانا محمد باقر دہلوی نے تاریخ کے ان طاقتور ظالموں کی نابودی کا ذکر کیا، جن کو شکست دینا نا ممکن سمجھا جاتا تھا۔ اس شمارے میں درج عربی کے خطبے میں رسول اللہ اور ان کی آل کے ساتھ ساتھ صحابہ پر بھی درود و سلام بھیجا گیا ہے۔

1857ء میں انھوں نے فکری قیادت کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے اخبار کو آزادئ ہند کے لیے وقف کر دیا تھا۔[8] 1857ء کی بغاوت شروع ہونے کے کچھ عرصہ بعد ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ کا نام بدل کر ’’اخبار الظفر‘‘ کر دیا گیا تاکہ تحریک آزادی کو بادشاہ بہادر شاہ ظفر اور لال قلعہ دہلی کی شکل میں ایک مرکز میسر ہو۔ اخبار میں دہلی، میرٹھ، سہارنپور، انبالہ اور دیگر علاقوں کی سیاسی و ثقافتی خبریں شایع ہونے لگیں۔ انھوں نے سہارنپور، انبالہ، جھجر، کٹک، لاہور، ملتان، کلکتہ، بھوپال، میسور، جھانسی اور میرٹھ جیسے علاقوں کی خبریں اور حالات معلوم کر کے شائع کیے۔

معلوم ہوتا ہے کہ مولوی محمد باقر کا صحافتی نیٹ ورک اتنا وسیع تھاکہ دوردراز کے شہروں کی خبریں انھیں بروقت مل جاتی تھیں۔ ہو سکتا ہے وہ ان خبروں کے حصول کے لیے باغی فوجی دستوں اور انقلابی نظم کا سہارا لیتے ہوں۔ کیونکہ اس کے بغیر دور دراز کے علاقوں سے صحیح حالات کا علم ہونا ممکن نہیں تھا۔  تحریک آزادی کے عروج کے وقت جب دہلی شہر میں ہندوؤں کے خلاف جہاد کے اعلان پر مبنی اشتہار لگا ئے گئے جن میں انگریزوں کو اہل کتاب بھائی کہا گیا تھا،  تو مولوی محمد باقر نے تحریک آزادی کی صفوں میں انتشار اور داخلی جنگ پیدا کرنے کی اس سازش کو پہچان لیا اور اپنے اخبار میں اس سازش کے خلاف لکھا ۔ آپ نے خصوصی طور پر آزادی کے لیے لڑنے والے فوجیوں کو اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنے کی تلقین کی۔ انگریزوں کے ذرائع ابلاغ نے لکھنا شروع کیا کہ کارتوسوں پر سور کی چربی استعمال نہیں ہوئی ہے۔  اس کا مقصد مسلمانوں سپاہیوں کو یہ کارتوس اپنے ہم وطن ہندوؤں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے راضی کرنا تھا۔ مولوی محمد باقر نے اپنے اخبار میں لکھا کہ آج اگر ہندوؤں کی باری ہے تو کل ہماری باری ہو گی، انھوں نے مزید لکھا کہ ہندو تو مسلمانوں کے ساتھ شانہ بشانہ انگریزوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔  انھوں نے رئیسوں اور راجاؤں کے لیے لکھا کہ انھیں اپنے ہم وطن عوام کے خلاف انگریزوں کا ساتھ نہیں دینا چاہئیے اور یاد رکھنا چاہئیے کہ انگریز دھوکے باز ہیں۔ انھوں نے ہم وطنوں میں اتحاد پر زور دینے کے لیے شیخ سعدی کے مشہور اشعار کا بھی حوالہ دیا:

بنی‌آدم اعضای یکدیگرند
کہ در آفرینش ز یک گوهرند

عید الاضحی آئی تو مغل شہنشاہ  بہادر شاہ ظفر نے گائے کی قربانی پر پابندی لگائی تاکہ انگریز اس سے فائدہ اٹھا کر ہندو مسلم فساد نہ کروا سکیں، کیونکہ گائے ہندوؤں کے ہاں مقدس ہے۔

آزاد منزل

ترمیم

درگاہ پنجہ شریف دہلی کے قریب ہی ان کی تعمیر کردہ امام بارگاہ تھی جسے" آزاد منزل "کے نام سے جانا جاتاتھا۔ سید احمد بریلوی کی تحریک کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت کی وجہ سے دہلی کے شیعوں میں تبرا کا رواج ہونے لگا تو علامہ باقر دہلوی نے اس سلسلے کو روکنے کی کوشش کی اور اپنے امام بارگاہ میں تبرا پر پابندی لگائی۔[9] انھوں نے اکتوبر 1843ء میں مظہر الحق کے نام سے بھی ایک اردو اخبار نکالاتھا، جس میں شیعہ مسلک سے مخصوص مذہبی مضامین شائع ہوتے تھے جن میں غلامی کے خلاف شیعہ نظریہ کی وضاحت کی جاتی تھی۔[10]

وفات

ترمیم

معلومات، خبروں، قیادت اور نظم و ضبط کی جنگ میں انگریز جیت گئے۔ چار ماہ بعد دہلی پر انگریزوں کا دوبارہ قبضہ ہو گیا تو مولوی محمد باقر پر ایک انگریز کے قتل کا مقدمہ چلا کر گولی مار دی گئی، جس کو دہلی میں ہجوم نے پیٹ کر ہلاک کر ڈالا تھا یوں یہ تحریک آزادی ہند کے پہلے شہید صحافی بن گئے۔ ان کے بیٹے مولانا محمد حسین آزاد لاہور چلے گئے اور وہ بھی اردو کے مایہ ناز ادیب ہوئے۔ مولوی محمد باقر کو گولی مارنے والا شخص ولیم اسٹیفن رائیکس ہوڈسن تھا، جسے ایک سال بعد (1858ء میں) لکھنؤ میں واقع بیگم کوٹھی میں کسی نے گولی مار دی تھی۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت "Moulvi Mohammad Baqir : First editor who sacrifice his life and became martyr for the freedom of our India." 
  2. "Maulana Baqir Was First Journalist To Sacrifice His Life During 1857 Revolt, Here's His Story"۔ indiatimes.com۔ 2 دسمبر، 2017 
  3. آزاد اور خانوادہ آزاد از محمد اکرام چغتائی، صفحہ 151
  4. Rana Safvi۔ "Maulavi Muhammad Baqar: Hero or Traitor of 1857?"۔ The Wire۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جولا‎ئی 2019 
  5. Frances W. Pritchett (1994-05-09)۔ Nets of Awareness: Urdu Poetry and Its Critics (بزبان انگریزی)۔ University of California Press۔ ISBN 9780520914278 
  6. Syed Mahdi Husain (2006)۔ Bahadur Shah Zafar and the War of 1857 in Delhi (بزبان انگریزی)۔ Aakar Books۔ ISBN 9788187879916 
  7. Rauf Parekh (21 ستمبر، 2015)۔ "Literary Notes: History, war paintings and journalist Moulvi Muhammad Baqir"۔ DAWN.COM 
  8. "Maulavi Muhammad Baqar: Hero or Traitor of 1857?"۔ The Wire 
  9. S. A. A. Rizvi, "A socio-intellectual History of Isna Ashari Shi'is in India"، Vol. 2, p. 98, Mar'ifat Publishing House, Canberra (1986)۔
  10. ڈاکٹر عبد السلام خورشید، صحافت: پاکستان و ہند میں، مجلس ترقی ادب لاہور، نومبر 2016ء، ص 109