شاہدہ پروین
شاہدہ پروین (پیدائش: 1953— وفات: 13 مارچ 2003ء) پاکستان کی کلاسیکی گلوکارہ تھیں۔
شاہدہ پروین | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | سنہ 1953ء |
وفات | 13 مارچ 2003ء (49–50 سال) لاہور |
شہریت | پاکستان |
عملی زندگی | |
پیشہ | گلو کارہ - گیت نگارہ ، گلو کارہ |
پیشہ ورانہ زبان | سرائیکی ، پنجابی ، اردو |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیماگرچہ شاہدہ کی شہرت کا بنیادی سبب ان کی گائی ہوئی پنجابی اور سرایئکی کافیاں ہیں لیکن انھیں ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی تمام اصناف پر مکمل عبور حاصل تھا۔ وہ لوک گیت، غزل، ٹھمری، دادرا اور خیال ایک سی سہولت اور آسانی سی گاتی تھیں۔ انھوں نے ماسٹر عبداللہ اور طافو کی ترتیب دی ہوئی دھنوں میں کچھ فلمی گیت بھی گائے لیکن اپنی والدہ اورسرایئکی کافیوں کی بے تاج ملکہ زاہدہ پروین کی طرح انھوں نے جلد ہی اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
دیکھا جائے تو شاہدہ پروین کی تمام تر فنکارانہ زندگی کی کہانی اپنی والدہ کے بلند پایہ مقام کے سائے سے جدوجہد کی کہانی ہے۔ ان کی والدہ، زاہدہ پروین سے، جو ملتانی کافی گانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں، ورثے میں انھیں ابتدائی تربیّت کے ساتھ ساتھ گایئکی کا انگ اور شناخت بھی ملی تاہم انھوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر خواجہ غلام فرید کے علاوہ دوسرے صوفی شاعروں جیسے کہ شاہ حسین، بلھے شاہ اور سچل سرمست کا کلام گانے میں اپنے لیے ایک نئی شناخت دریافت کی۔
شاہ رانجھا البیلا، جوگی جادوگر ہے اور دلڑی لُٹی، تیں یار سجن کدی موڑ مہار تے آ وطن، ان کی چندمشہور کافیوں میں سے ہیں۔ وہ محفلوں میں گھنٹوں بغیر تھکے گاتی تھیں اور یاسین گوریجہ کے کہنے کے مطابق شاہدہ پروین نے کم وبیش پچھلے اٹھایئس سال میں ریڈیو اور ٹیلیوژن کے علاوہ بے شمار کیسٹس بھی ریکارڈ کروائے۔
اپنی والدہ کی وفات کے بعد انھوں نے موسیقی کی تعلیم استاد چھوٹے غلام علی سے حاصل کی جس کی وجہ سے انکا انگ کسی حد تک مختلف ہوا تاہم زیادہ نمایاں انگ ان کی والدہ ہی کا رہا۔ ان کی زیادہ تر زندگی حیرت انگیز طور پر اپنی والدہ کی زندگی سے مماثلت رکھتی ہے حتٰی کہ ان کا انتقال بھی اپنی والدہ کی طرح عمر کے اس حصے میں ہوا جب وہ اپنی فنکارانہ صلاحیتوں، اپنی موسیقیّت اور صوفی کلام میں اپنی والہانہ آمد کے عروج پر تھیں۔
وفات
ترمیمشاہدہ پروین کا انتقال گردوں کے کام چھوڑ جانے کے سبب 13 مارچ 2003ء کو شب 2 بجے قبل از فجر ہوا۔ دوپہر 02:30 پر نماز جنازہ اداء کی گئی اور 3 بجے تدفین عمل میں آئی۔[1]