شاہد جمیل
بھارت کی حکومت نے انڈین سارس سی او وی 2 جینومکس کنسارٹیا (انساکوگ) (Indian SARS-COV-2 Genomics Consortia (Insacog)) کے نام سے ایک مشاورتی گروپ تشکیل دیا جس کے صدر مشہور وائرسیات کے ماہر ڈاکٹر شاہد جمیل (انگریزی: Shahid Jameel) بنے۔ وہ اشوکا یونیورسٹی کے تریویدی اسکول آف بایو لائف سائنسیز کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ انساکوگ ملک کی ددس لیباریٹریوں کا ایک گروپ ہے جس کا مقصد ملک میں کووڈ 19 کی ابھرتی اقسام کا مطالعہ ہے۔ شاہد جمیل کی شہرت کا سبب ان کا سائنسی کیریئر، وائرسوں پر ان کا ادراک اور ہیپاٹائٹس ای ان کی تحقیق ہے۔ وہ شانتی سوروپ بھٹناگر اعزاز برائے سائنس و ٹیکنالوجی سے بھی نوازے گئے ہیں۔ انھوں نے کئی انٹرویو اور مذاکروں کے ذریعے ملک کے لوگوں کے بیچ کووڈ 19 کے تعلق سے سوالات کے تفصیلی جوابات دیے اور انساکوگ کے صدر کے طور پر بھی کافی کام کیا۔
شاہد جمیل | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 8 اگست 1957ء (67 سال) علی گڑھ |
رہائش | نئی دہلی |
شہریت | بھارت |
رکن | انڈین نیشنل سائنس اکیڈمی |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ کولوراڈو واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، کانپور |
پیشہ | ماہر سمیات |
ملازمت | جامعہ کولوراڈو |
اعزازات | |
درستی - ترمیم |
تاہم وہ کووڈ 19 کو دور کرنے حکومت ہند کے اقدامات سے ناخوش تھے۔ 13 مئی 2021ء کو انھوں نے نیو یارک ٹائمز میں اپنی رائے لکھی۔انھوں نے بھارت کے متعدد لہروں کے لیے رد عمل اور غیر متوازن ویکسین پروگرام پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا: "سائنس دان ثبوت پر مبنی پالیسی سازی کے معاملے میں کافی اڑیل اور رکاوٹی رویہ جھیل رہے ہیں۔ 30 اپریل کو 800 بھارتی سائنس دانوں نے وزیر اعظم سے اپیل کی اور ڈیٹا کا مطالبہ کیا جس سے کہ انھیں اس وائرس کے مزید مطالعے، پیش قیاسی اور روکنے میں مدد ملے۔ اس ڈیٹا پر فیصلہ سازی بھی متاثر ہو رہی ہے کیونکہ عالمی وبا بھارت میں قابو سے باہر ہو چکی ہے۔ اس کی جو انسانی قیمت ہم ادا کر رہے ہیں وہ ہمیشہ کے لیے داغ چھوڑے گی۔" اس کے بعد اس کے اگلے ہی دن جو 2021ء کے عید الفطر کا دن تھا، یعنی 14 مئی کو انھوں نے انساکوگ کے شائنسی مشاورتی گروپ سے اپنا استعفا پیش کر دیا۔[1]
ڈاکٹر شاہد جمیل نے چند روز قبل ہی کہا تھا کہ ہندوستان میں عالمی وبا کورونا وائرس (Covid-19) کی دوسری لہر میں انتہا درجہ کی شدت ہوگی اور اس میں لوگوں کو زیادہ متاثر کرنے کی صلاحیت ہے۔ لیکن اس دوران ان کی ان باتوں کو نظر انداز کیا گیا۔[2] اس کے علاوہ ان کے ملک کی بر سر اقتدار حکومت سے بھی بہت اختلاف ہو چکا تھا۔ ان کی رائے میں مودی حکومت کو ملک کے سائنسدانوں کی بات سننی چاہیے اور پالیسی سازی میں ضد کا رویہ چھوڑنا چاہیے۔ انھوں نے کہا تھا کہ :'میں پریشان ہوں کہ پالیسی چلانے کے لیے سائنس کو نظر انداز کیا گیا۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ میرا دائرہ اختیار کتنا ہے'۔[3]