بھارت میں کووڈ 19 کی وبا کے دوران مسلمانوں کی سماجی خدمات
بھارت میں کووڈ 19 کی وبا کے دوران مسلمانوں کی سماجی خدمات ان خدمات میں سے ایک ہے جو 2020ء اور 2021ء میں بھارت میں کووڈ 19 کی عالمی وباکے دوران کی گئی۔ اس کے بعد قومی اور ریاستی سطح کے لاک داؤنوں، صنعتی تنزل، بے روزگاری اور عام طور سے شہریوں کی آمدنیوں میں بھاری کمی کے حالات کی وجہ سے ملک کے اپنے ہی شہریوں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ بھی دیکھنے میں آیا۔ کئی شہریوں نے انفرادی طور پر یا تنظیمی طور پر اہل وطن کی بلا لحاظ مذہب مدد کی کوشش کی۔ ان میں قابل ذکر سکھ فرقے کے افراد رہے، جنھوں نے جگہ جگہ لنگر اور دیگر طور طریقوں سے مدد کرنے کی کوشش کی۔ اس موقع پر بھارت کے مسلمان مذہب نے بھی انفرادی اور تنظیمی طور پر نمایاں امدادی کردار ادا کیا۔بھارتی مسلمان سائنس دانوں اور طبی نگہداشت کے عملے یا اس شعبے سے منسلک دیگر مسلمان شخصیات نے جان پر کھیل کر علاج کی سہولیات فراہم کیں۔ کئی مسلمان ڈاکٹر جذبہ خدمت خلق کے تحت کورونا سے جنگ لڑتے لڑتے جان کی بازی ہار گئے ۔ لاک ڈاؤن اور کورونا سے ماحول اور معیشت میں بدحالی کے وقت عام مسلمانوں اور تنظیموں نے بھی خدمات فراہم کیں۔معلومات کے انقلاب کے دور میں بھی لوگ پڑوس میں طبی خدمات اور سہولتوں سے کئی عدم واقف ہوتے ہیں یا ان تک رسائی نہیں کر پاتے۔ اس خلاء کو پر کرنے میں مسلمان طبقے نے فعال کردار ادا کیا۔ایک جامعہ کے فتوے کے بعد لوگ جانور کی قربانی کی بجائے اسی رقم سے اہل ضرورت کی مدد کے لیے آگے آئے۔ مسلمانوں نے ہر مذہب کے متوفین کی آخری رسومات میں انسانی جذبے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اس دوران مسلمانوں نے اپنی زکواۃ کو قومی خدمات پر صرف کیا اور اس سلسلے میں ایک ریاستی وزیر اعلٰی سے داد تحسین بھی پائی۔ آکسیجن اور ایمبولنس وغیرہ کی فراہمی میں مسلمان بڑھ چڑھ کر پیش پیش رہے۔ٹیکا کاری یا کورونا ویکسین کے فروغ میں مساجد نے بھی نمایاں کردار ادا کیا۔یا گیا ہے اور ہر نکتے کا باحوالہ ذکر موجود ہے۔
پس منظر
ترمیمبھارت میں کورونا وائرس یا کووڈ 19 کی وبا کی دستک 2020ء کے اوائل میں شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ عالمی وبا ملک کے کونے کونے میں تیزی سے پھیل گئی۔ ملک کی کوئی ریاست اس بیماری سے اچھوتی نہیں رہی۔ 2020ء میں اس مرض کے زیادہ تر معاملے شہری علاقوں تک محدود رہے۔ وہیں اوائل 2020ء سے ملک میں کووڈ 19 کے معاملات دیکھنے میں آئے اور اس کے ساتھ ہی حکومت پر فوری حرکت میں آنے کا زور بڑھا۔ اس کی وجہ سے حکومت نے 24 مارچ 2020ء کو ملک کی تاریخ میں پہلی بار قومی لاک ڈاؤن لگایا جو مئی تک جاری رہا۔ جنوری سے جون 2020ء تک 400,000 انفیکشن کے 400,000 معاملات سامنے آئے۔ اس دوران کاروبار ٹھپ ہو گئے۔ تعلیم پہلی بار ملک بھر میں آف لائن سے آن لائن ہو گئی۔ روز گار کی پریشانی کی وجہ سے کئی مزدور بڑے شہروں سے لاک ڈاؤن کی سختیوں کی پروا کیے بغیر اپنے گاؤں روانہ ہو گئے۔ کئی کاروباری سرگرمیاں اور عام زندگی مفلوج ہو گئی۔[3] اس کے بعد اُس سال جون سے زندگی عام پٹری پر آ ہی رہی تھی، تاہم 2021ء کے اوائل میں کووڈ 19 کی دوسری لہر شروع ہوئی۔ اس میں قومی سطح کے لاک ڈاؤن کی بجائے ریاستی لاک ڈاؤں اور نقل حرکت پر رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھی۔ یہ مرض چھوٹے چھوٹے گاؤں تک میں پھیلنے لگا۔[4] یہ صورت حال کی وجہ سے ملک بھر میں معیشت بری طرح تباہ ہو گئی۔ 2.27 کروڑ لوگ بے روز گار ہو گئے[5] اور 97 فی صد گھرانوں کی آمدنی گھٹ گئی۔[6] وہیں جب اس مرض کی دوسری لہر کے 2021ء میں شروع ہونے تک یہ مرض شہری علاقوں سے نکل کر سے اس کی رسائی نہ صرف کئی دور دراز کے چھوٹے شہروں، گاؤں تک پہنچی، بلکہ یہ قہر اس قدر عام ہوئی کہ کچھ قبائلی علاقوں تک میں اس کا پھیلاؤ دیکھنے میں آیا۔[7] اس صورت حال کا یہ نتیجہ ہوا کہ جگہ جگہ ہسپتالوں میں دستیاب بستر کم پڑنے لگے، آکسیجن سلنڈروں کا مطالبہ بڑھنے لگا، مگر ان کی موجودگی میں بھاری کمی دیکھی گئی۔[8][9] [10] [11] یہ بھی دیکھا گیا ہے ملک بھر میں لگنے والے لاک ڈاؤن اور اس وبا کی وجہ سے عائد تحدیدات کی وجہ سے معاشی ذرائع پر منفی اثر کی وجہ سے اور لوگوں معاشی بد حالی کے علاوہ اور اسباب و وسائل کی مشکلات اور کئی نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئے۔[12] [13] ملک کی شمشان بھومیوں اور برقی بھٹیوں میں کووڈ کے مرض کی وجہ سے ملک کے کئی حصوں میں لاشیں بے روک ٹوک سپرد آتش ہونے لگی تھیں۔[14] اس وبا سے نجات کا راستہ ماہرین نے کووڈ 19 کے ویکسینوں کو قرار دیا تھا، مگر ملک کی کثیر آبادی کو ویکسین لگوانا بھی ایک بے دشوار امر ثابت ہونے لگا۔[15] اس کے علاوہ علاج کے لیے در کار دوائیں اور ڈرگ جیسے کہ ریمڈیسیویر اور فاوی پیراویر کی بھاری کمی دیکھی گئی۔[16] [17] اس وبا کی وجہ سے بھارت کو عالمی برادری سے مدد کے لیے دیکھنا پڑا تھا۔ 2005ء سے ملک کا تسلیم شدہ اصول تھا کہ وہ اپنی سبھی قدرتی آفتوں کو خود ہی دیکھ رہا تھا اور کسی قسم کی مدد نہیں لے رہا تھا، حالاں کہ وہ بہ وقت ضرورت دوسرے ملکوں کی مدد کرتا رہا تھا۔ تاہم کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر ملک اس قدر مجبور ہوا کہ اسے دوسرے ملکوں کی مدد لینا پڑا۔[18] کم از کم 28 بیرونی ممالک بھارت کی مدد کے لیے آگے آئے[19] جیسے کہ فرانس، ریاستہائے متحدہ امریکا، سعودی عرب، برطانیہ، قطر اور یہاں تک کہ پڑوسی ملک جیسے کہ بنگلہ دیش نے بھارت کی مدد کی۔
نامور مسلمان صنعت کاروں اور مشاہیر کے عطیے
ترمیم- 29 اپریل 2021ء کو موصولہ اطلاع کے مطابق وپرو کمپنی کے صدر نشین عظیم پریم جی نے اپنی کمپنی اور اس سے منسلک رفاہی فاؤنڈیشن کی طرف سے کورونا مرض کے عام ہونے کے بعد سے ہر روز ₹22 کروڑ کا عطیہ دیا۔ نوٹ کردہ تاریخ تک انھوں نے ₹7,904 کا عطیہ دیا تھا، جو ہر کزرتے دن کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے۔[20] مشہور عالمی جریدے فوربز کے مطابق وہ کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے دنیا کے تیسرے سب سے بڑے عطیہ کنندے بن کر ابھرے ہیں اور عالمی سطح پر سب سے زیادہ دس عطیہ کنندوں میں نام پانے والے واحد بھارتی شخصیت ہیں۔ [21]
- دوا ساز کمپنی سپلا کے صدر نشین یوسف خواجہ حمید ہیں۔ کمپنی نے حکومت ہند کو 25 کروڑ روپے کا عطیہ دیا جس میں اس کے ملازمین کی طرف سے 3 کروڑ شامل ہیں۔[22]
- فلمی ادا کار سلمان خان انسانی خدمات اور سماج میں رفاہی کاموں کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ان کا ادارہ بیئنگ ہیومن فاؤنڈیشن موجود ہے جو کئی قدرتی آفات کے متاثرین اور سماج کے مفلوک الحال افراد کے لیے اقدامات اٹھا چکا ہے۔ انھوں نے کورونا وائرس کی پہلی لہر یعنی مارچ اپریل 2020ء کے دوران فلمی صنعت میں روزانہ کی آمدنی پر گذر بسر کرنے والے پچیس ہزار افراد کو مالی امداد کا منصوبہ بنایا اور اپنی آنے والی فلم رادھے یوئر موسٹ وانڈیڈ بھائی کی ٹیم کے عملے کے بینک کھاتوں میں راست طور پر امدادی رقم منتقل کی۔[23]
- اسی طرح سے شاہ رخ خان نے اپنی کرکٹ ٹیم کولکاتا نائٹ رائڈرز اور ایک غیر سرکاری ادارے میر فاؤنڈیشن کی مدد سے اپریل 2020ء میں مہاراشٹر اور مغربی بنگال کی حکومتوں کو طبی نگہداشت سے جڑے لوگوں کی مدد کے لیے 50,000 آلات شخصی تحفظ فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا جنہیں شاہ رخ خان نے کووڈ 19 کے خلاف جنگ کے "حقیقی ہیرو" قرار دیا۔ میر فاؤنڈیشن نے ایک ساتھ دی ارتھ سے مل کر ممبئی کے 5500 خاندانوں کے کم از کم ایک مہینے کی کھانے ضرورتوں کو پورا کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ شاہ رخ خان نے 2000 تازہ پکے کھانوں کے گھر گھر اور اسپتالوں میں ان افراد تک امداد پہنچانے کا فیصلہ کیا جن کی ضرورتیں سر دست مکمل نہیں ہو رہی ہیں۔ انھوں نے پی ایم کیئرز فنڈ اور مہاراشٹر کے وزیر اعلٰی کے اسی طرح کے چندے میں اپنے تعاون کا اعلان کیا۔[24]
- عامر خان نے بھی پی ایم کیئرز فنڈ اور مہاراشٹر کے وزیر اعلٰی کے اسی طرح کے چندے میں اپنا تعاون دیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے ٹرک بھر کر گیہوں کے تھیلے لوگوں میں تقسیم کیے۔ ایک تاثر اور خبر ذرائع ابلاغ میں عام ہوئی کہ انھوں نے ہر تھیلے میں پندرہ ہزار روپے بھی چھپا کر لوگوں کو دیا۔ تاہم ادا کار نے یہ واضح کر دیا کہ اس خفیہ امداد کی خبر غلط ہے۔[25]
اسی طرح کئی مسلمان شخصیتوں نے کورونا وائرس سے مقابلہ کرنے کے لیے مالی عطایا فراہم کیا ہے جن میں سے کچھ کا ذکر خبروں کے ذرائع میں شائع ہو چکا ہے اور کچھ کا ذکر منظر عام پر نہیں آیا، جن میں گمنام عطایا بھی شامل ہے۔ کئی متوسط طبقے کے لوگوں نے بھی ضرورت مندوں کی مدد کی ہے، جو عطیہ کنندوں کی غیر معروفیت اور رقم کی مقدار مشاہیر اور رئیس افراد کے مقابلے میں کم ہونے کی وجہ سے ذرائع ابلاغ کی خبروں میں اپنی جگہ نہیں بنا سکی۔
یہاں یہ غور طلب ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم مشاہیر نے بھی رقمی امداد کے ذریعے اہل وطن کی مدد کی کوشش کی۔ اس کی ایک مثال بالی وڈ ادا کار اکشے کمار ہیں جنھوں نے پی ایم کیئرز فنڈ میں 25 کروڑ روپے جمع کیے، جب کہ ایک اور مثال پنجابی گلو کار گرو رندھاوا ہیں جنھوں نے 25 لاکھ روپے اسی طرح جمع کیے۔ بالی وڈ کے اداکار سونو سود نے نقل مقام مزدوروں اور تالا بندیوں سے پریشان عوام کی کافی مدد کی۔ ان کا ٹویٹر کھاتہ لوگوں کی مدد کی درخواستوں کے حصول کا اہم مرکز بن گیا تھا۔ ان درخواست دہندوں میں سے کئی کی امداد کا سونو سود نے راست بند و بست کیا۔ اس وجہ سے کئی لوگ ان سے عملی سیاست میں داخل ہونے پر اصرار کرنے لگے تھے۔ ان کی ہم پیشہ ادا کارہ ہما قریشی نے اسی وجہ سے انھیں بھارت کے مستقبل کے وزیر اعظم کے طور پر دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا اور یہ کہا کہ اگر وہ انتخابی میدان میں کھڑے ہوں تو سب انھیں ہی ووٹ دیں گے۔[26]
اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اس کورونا وبا کے ملک گیر سطح پر پھیلنے اور معاشی تنگی پھیلانے کی مشکل گھڑی میں دیگر اہل وطن کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے بھی بڑھ چڑھ کر سماجی اور عوامی خدمت میں حصہ لیا تھا اور اپنی ایک الگ چھاپ چھوڑی جسے انکار کرنا بعید از حقیقت ہے۔
مشہور ریڈیو جاکی پاشا جو یوٹیوب پر آر جے پاشا آفیشیل کے نام سے ایک چینل چلاتے ہیں، ایک ویڈیو اپلوڈ کر کے بالی وڈ کے ایک مسلمان ادا کار اعجاز خان کی سماجی خدمات کو منظر عام پر لانے کا کام کیا۔ کورونا وائرس دور کے وسیع پیمانے پر پھیلنے کے دور میں اس ادا کار نے کافی مالی اماداد کے ذریعے مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کی اور یہ سب اس نے راہ الٰہی میں کیا۔ اس نے اپنے بیٹے کے بینک کے میعادی کھانے تک تُڑوا دیے اور یہاں تک اپنی قیمتی موٹر سائیکل کو بیچ کر 20 لاکھ روپیے جمع کیے جو اس نے اللہ کے بندے کے نام رفاہی تنظیم کو دیے۔ پاشا کے مطابق مسلمان نام رکھنے والی فلمی شخصیات جیسے کہ عامر خان، سلمان خان اور شاہ رخ خان نے سڑکوں پر اتر کر لوگوں کی مدد کی اور یہ جذبہ عمومًا انھی کا خاصہ تھا جب کہ اکشے کمار جیسے لوگوں عوام کے آگے نہیں ملنے جلنے اور ان کے کام آنے کی کوشش نہیں کی۔ غیر مسلم سماجی خدمت گزار فلمی شخصیات کے طور پر سونو سود ہی ایک مستثنٰی شخصیت رہے جنھوں نے سڑکوں اور غریب عوام میں راست مدد کی کوشش کی۔ اس کے باوجود پاشا نے تاسف کا اظہار کیا کہ اترپردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کے خلاف اعجاز خان کے جارحانہ رویے کی وجہ سے عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار اعجاز خان کو کو فرضی مقدمے میں قید کر دیا گیا ہے۔[27] اسپاٹ نیوز کی اطلاع کے مطابق اعجاز خان کو 31 مارچ 2021ء کو ممنوعہ ڈرگس رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، جب کہ اس کے پاس سے محض 4 سلیپنگ پِلز بر آمد ہوئے تھے۔[28] اسی طرح غریبوں کی کورونا وائرس وبا کے دور میں کافی مدد کرنے والے شاہ خان کے بیٹے آرین خان کو بھی ڈرگس کی روک تھام کے ادارے نیشنل نارکوٹکس بورڈ نے کئی دنوں کے لیے 2021ء میں گرفتار کیا تھا، جس کے بارے میں ایک عینی شاہد وجئے پگارے نے بتایا کہ یہ سب ایک اعلٰی سطحی منصوبہ بندی کے تحت پھنسانے کی کوشش تھی۔[29] اس طرح رفاہی کاموں سے منسلک مسلم مشاہیر کسی سرکاری اعزاز کی بجائے مشکل دور سے گذر چکے ہیں۔ اس کے بر عکس حکومت ہند نے کنگنا رناوت کو پدم شری اعزاز سے نواز چکی ہے جو مختلف سماجی گروہوں، اپنے ہم پیشہ اداکاروں اور کئی سماجی شخصیات کے خلاف زیبا بیانات جاری کر چکی ہیں۔ حد یہ کہ کنگنا نے اپنے اعزاز کے اعلان کے ساتھ ہی ونایک دامودر ساورکر کے کالا پانی جیل کی مخصوص اکائی میں پہنچ کر اس کو خراج عقیدت پیش کیا[30] اور ساتھ اس اعزاز کے حصول کے وقت بھی خالصتانیوں اور جہادیوں کے نام پر بالواسطہ سکھوں اور مسلمانوں کے خلاف اپنی تقریر میں زہر اُگلا تھا۔ [31] یہ غور طلب ہے کورونا وائرس کے دور میں کنگنا کے متنازع بیانات سماجی میڈیا اور عوامی میڈیا چھائے ہوئے تھے مگر کسی سماجی خدمت یا مالی امداد کے معاملے میں کنگنا رناوت کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے۔ اس طرح مبصرین کا یہ بھی تاثر ہے جدید بھارت میں حقیقی خدمت گزاروں کو سزا کی کارروائی سے گذرنا پڑا ہے جب کہ نفرت اور ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو قومی اعزاز سے نوازا گیا ہے۔
کورونا جنگ جوؤں کے طور پر خدمات
ترمیمبھارت کی حکومت نے انڈین سارس سی او وی 2 جینومکس کنسارٹیا (انساکوگ) (Indian SARS-COV-2 Genomics Consortia (Insacog)) کے نام سے ایک مشاورتی گروپ تشکیل دیا جس کے اولین صدر مشہور وائرسیات کے ماہر ڈاکٹر شاہد جمیل بنے۔ وہ اشوکا یونیورسٹی کے تریویدی اسکول آف بایو لائف سائنسیز کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ انساکوگ ملک کی دس لیباریٹریوں کا ایک گروپ ہے جس کا مقصد ملک میں کووڈ 19 کی ابھرتی اقسام (ویرینٹ / اسٹرین) کا مطالعہ ہے۔ شاہد جمیل کی شہرت کا سبب ان کا سائنسی کیریئر، وائرسوں پر ان کا ادراک اور ہیپاٹائٹس ای ان کی تحقیق ہے۔ وہ شانتی سوروپ بھٹناگر اعزاز برائے سائنس و ٹیکنالوجی سے بھی نوازے گئے ہیں۔ انھوں نے کئی انٹرویو اور مذاکروں کے ذریعے ملک کے لوگوں کے بیچ کووڈ 19 کے تعلق سے سوالات کے تفصیلی جوابات دیے اور انساکوگ کے صدر کے طور پر بھی کافی کام کیا۔
تاہم وہ کووڈ 19 کو دور کرنے حکومت ہند کے اقدامات سے ناخوش تھے۔ 13 مئی 2021ء کو انھوں نے نیو یارک ٹائمز میں اپنی تجزیاتی اور تفصیلی رائے لکھی۔انھوں نے بھارت کے متعدد لہروں کے لیے رد عمل اور غیر متوازن ویکسین پروگرام پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا: "سائنس دان ثبوت پر مبنی پالیسی سازی کے معاملے میں کافی اڑیل اور رکاوٹی رویہ جھیل رہے ہیں۔ 30 اپریل کو 800 بھارتی سائنس دانوں نے وزیر اعظم سے اپیل کی اور ڈیٹا کا مطالبہ کیا جس سے کہ انھیں اس وائرس کے مزید مطالعے، پیش قیاسی اور روکنے میں مدد ملے۔ اس ڈیٹا پر فیصلہ سازی بھی متاثر ہو رہی ہے کیونکہ عالمی وبا بھارت میں قابو سے باہر ہو چکی ہے۔ اس کی جو انسانی قیمت ہم ادا کر رہے ہیں وہ ہمیشہ کے لیے داغ چھوڑے گی۔" اس کے بعد اس کے اگلے ہی دن جو 2021ء کے عید الفطر کا دن تھا، یعنی 14 مئی کو انھوں نے انساکوگ کے شائنسی مشاورتی گروپ سے اپنا استعفا پیش کر دیا۔[32]
ڈاکٹر شاہد جمیل کے علاوہ کئی مسلمان ڈاکٹروں اور طبی نگہداشت کے شعبے میں کرنے والی مسلمان شخصیات نے بلا لحاظ مذہب و ملت سبھی کی کورونا وائرس کے دور میں خدمت کرنے کی کوشش کی اور کافی داد تحسین بھی پائی۔ ٹائمز آف انڈیا میں شائع 15 مئی 2020ء کی خبر کے مطابق بھارت کی ریاست پنجاب کے سنگرور ضلع سے 35 سکھ زائرین مہاراشٹر کے ناندیڑ ضلع گئے تھے۔ یہ لوگ واپس لوٹنے پر کووڈ 19 کی جانچ میں مثبت پائے گئے۔ انھیں مالیرکوٹلہ کے سیول ہسپتال میں شریک کروایا گیا۔ پہاں کا عملہ 15-20 مسلمان ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے پر مشتمل ہے۔ ان لوگوں نے ان سکھ زائرین کی جس مخلص انداز میں دیکھ ریکھ کی، اس سے میڈیا اور ان مریضوں میں کافی مثبت رد عمل پایا گیا۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ عملے نے رمضان کے مہینے روزے کی حالت میں اپنے فرائض کافی لگن سے انجام دیے۔ کبھی کبھی وہ افطار کے وقت روزہ کھولنے کے لیے وقت نہیں پاتے تھے، مگر اسے ان لوگوں نے اسے خنداں پیشانی سے اپنی خدمات کے ایک حصے کے طور پر قبول کیا۔[33]
اس کے علاوہ کورونا وائرس وبا سے لڑتے ہوئے طبی شعبے میں کئی مسلمان جاں بہ حق بھی ہوئے۔ اس کی کچھ مثالیں ذیل میں ہیں:
- راجستھان سے تعلق رکھنے والے چالیس سالہ ڈاکٹر عزیز الدین شیخ کئی سال عرب ممالک میں خدمت کرنے کے بعد لکھنؤ میں اَوَنْتی بائی ہاسپٹل اور ڈُوفین ہاسپٹل میں برسر خدمت تھے۔ وہ 2020ء میں کورونا وائرس کے کئی مریضوں کا علاج کرنے کے بعد خود بھی متاثر ہو کر فوت ہو گئے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے ایک مریض آلوک سنگھ نے بتایا کہ جب ڈاکٹر بقید حیات تھے تب ان سے میں نے پوچھا کہ آپ اپنی فیس اتنی کم کیوں لیتے ہیں۔ اس پر ڈاکٹر کا جواب تھا کہ مجھے اللہ کو جواب دینا ہوگا۔[34] ان کی موت پر حیدرآباد سے لوک سبھا کے رکن اسد الدین اویسی نے بھی اپنے ٹویٹر کھاتے سے خراج عقیدت پیش کیا۔[35]
- لگ بھگ اسی جولائی 2020 کے عرصے میں ایک اور ڈاکٹر بیالیس سالہ جاوید علی کئی کورونا مریضوں کے علاج کے بعد دس دن وینٹی لیٹر پر رہ کر کورونا وائرس کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ ان کی اہلیہ حنا کوثر، جو خود ایک ڈاکٹر ہے، این ڈی ٹی وی انڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا: "مجھے میرے شوہر پر فخر ہے۔ وہ آخری لمحے تک کام کرتے رہے اور وہ شہید ہو گئے۔ وہ مارچ سے ایک دن بھی کام سے چھٹی نہیں لیے۔ وہ عید کے دن بھی کام کرتے رہے۔"[36]
- جدید طور پر تقسیم شدہ مرکزی زیر انتظام علاقہ جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد اشرف میر بھی اسی طرح اگست 2020ء میں کورونا وائرس سے لڑتے لڑتے خود اس سے متاثر ہوئے اور انتقال کر گئے۔ ان کا تعلق ضلع پلوامہ سے تھا۔ ان کے انتقال پر لفٹنٹ گورنر منوج سنہا، ریاستی کانگریس صدر جی اے میر اور سابق ریاست کی حکمران جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے تعزیتی پیامات جاری کیے۔[37]
- کورونا وائرس کے زور شور کے دور میں کئی طبی شعبے اور حمل و نقل سے جڑے لوگ بھی اس عالمی وبا کی وجہ سے اپنے خدمت خلق کے جذبے کے تحت اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ ان کی زندگی اس پورے دور میں کافی تکلیف دہ رہی ہے۔ ایک کافی مشہور واقعہ ٹیکسی ڈرائیور عارف خان کا رہا جو شمال مشرقی دہلی کے سیلم پور کے علاقے سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ ایک غیر سرکاری ادارے کے لیے کام کرتا تھا۔ کورونا کے دور میں چھ مہینے تک وہ کورونا کے مریضوں اور اس سے متاثرہ متوفی اشخاص کی منتقلی کا کام رات دن کر رہا تھا۔ اس وجہ سے وہ اپنے گھر کی بجائے ایمبولنس ہی میں سو رہا تھادیگر مذاہب کے متوفی افراد اور اہل خانہ سے بہت کم تعلق رکھ رہا تھا۔ بالآخر 14 اکتوبر 2020ء کو وہ خود کورونا کی وجہ سے فوت ہو گیا۔[38] کئی دیگر ڈرائیور اسی طرح اپنی جان گنوا چکے ہیں جن کے الگ سے اعداد و شمار کسی ادارے نے جاری نہیں کیے گئے ہیں۔ ان میں سے کئی مسلمان طبقے سے بھی تعلق رکھتے تھے۔
ملک میں طبی نگہداشت میں جڑے مسلمان نشانہ ملامت بھی بنائے جا چکے ہیں۔ کرناٹک سے تعلق رکھنے والے بی جے پی قائد اور پارٹی کے نو جوانوں کی شاخ یعنی یووا مورچہ کے قومی صدر تیجسوی سوریا نے ہسپتال میں بستروں کی فراہمی کے بدلے رشوت میں ملوث ہونے کے مقامی اسکام کے خلاف پر زور مہم چلائی۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے مئی 2021ء کو بروہت بنگلورو نگرا پالیکے (بنگلور شہر کی بلدیہ) کے دفتر میں 17 مسلمان طبی عملے کے ارکان کے نام الگ سے سلسلے وار انداز میں بیان کیے اور جاننا چاہا کہ یہ شہری انتظامیہ ان لوگوں کو کس قابلیت اور کس ایجنسی کے ذریعے بھرتی کر چکی ہے۔ ان کے چچا اور مقامی ایم ایل اے روی سبرامنیا نے ایک قدم اور آگے بڑھ کر یہ جاننا چاہا کہ اتنے سارے مسلمان ناموں والے خدمت گذاروں کی فہرست میں کیسے شامل ہیں، کیا یہ کوئی مدرسہ ہے۔[39] اس طرح کی کوشش کی کئی گوشوں سے مذمت کی گئی۔[40] بالآخر معطل مسلمان عملہ چند ہی دنوں میں دوبارہ متعین کیا گیا، حالانکہ ان میں سے پانچ ارکان نے واپس برسر خدمت ہونے سے انکار کر دیا۔[41] جہاں مسلمان عملہ اس قدر صاف شفاف رہا کہ الزمات منسوبہ سے چند ہی دنوں بغیر کسی پیروی یا مقدمے کے رجوع بہ کار ہوئے، وہیں اسی مہینے کے آخر میں کانگریس قائد اور قومی سطح کے ترجمان پون کھیڑا نے ایک صحافتی کانفرنس میں ایک افشا ہونے والے ویڈیو کا حوالہ دیا جس میں ایک نجی ہسپتال کا سوپروائزر کسی آدمی کو سمجھا رہا تھا کہ کووڈ ویکسین کی قیمت 900 روپے سے کم نہیں ہو سکتی کیوں کہ اس رقم میں سے 700 روپے تو بہر حال تیجسوی سوریا کے چچا اے روی سبرامنیا کو دیے جائیں گے۔[42]
لاک ڈاؤن اور اس کے بعد کے دور میں انسانی ہمدردی پر مبنی خدمات
ترمیمبھارت میں کووڈ 19 وبا کی وجہ سے 2020ء میں ملک گیر نافذ تالا بندی سے کئی غریب عوام متاثر ہوئے۔ کئی افراد کا روز گار چھٹ گیا۔ کئی نقل مقام کرنے والے مزدور کے اچانک کام کے چھٹ جانے سے کافی پریشان کا شکار ہو گئے۔ وہ لوگ لمبی مسافتیں طے کرتے ہوئے اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہونے پر مجبور ہو گئے، جس کے لیے انھیں کئی بار سینکڑوں کیلومیٹر کا فاصلہ پیادہ پا چلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، کیونکہ عوامی حمل و نقل کے ذرائع جیسے کہ ریل اور بس کی خدمات عدم دستیاب تھیں۔ دوسری جانب کاروبار اور لوگوں کا روزگار بھی بری طرح سے متاثر ہوا۔ ملک میں کئی لوگ معاشی تنگی اور بد حالی کے شکار ہو گئے۔ یہ منفی صورت حال تالا بندی کے ہٹنے کے بعد بھی جاری رہی۔ ایسے میں کئی متوسط طبقے کے لوگ اپنی حیثیت کے مطابق ملک میں لوگوں کی مدد کے لیے آگے آئے۔ تاہم جو غیر معمولی مدد کرنے والی تنظیمیں تھیں، ان کی چند مثالیں ذیل میں ہیں۔
- ترکی کے مشہور خبر رساں ادارے انادولو ایجنسی کی فراہم کردہ معلومات
ان معلومات کو نادولو ایجنسی کے تفصیلی مضمون میں ان کی خبر نگار شوریہ نیازی نے قلم بند کیا، اس کی کچھ چھلکیاں اس طرح ہیں:
- بھارت میں 2020ء میں کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کے لیے لگے ملک بھر کی تالا بندی کے دوران ہیومن ریلیف سوسائٹی نے کرناٹک لگ بھگ $200,000 لاگت کی غذائی اشیاء کو غریب لوگوں اور نقل مقام کرنے والے مزدوروں میں تقسیم کیا۔ ایک کِٹ $16 (1,200 روپے) کی غذائی اشیاء پر مشتمل تھا۔ سوسائٹی کے جنرل سیکریٹری کا نام محمد مکہ کاڑا بتایا گیا ہے۔[43]
- حیدرآباد، دکن سے تعلق رکھنے والی عمومت سوسائٹی تالا بندی کے دوران روز آنہ دو سو لوگوں کے بیچ پکا ہوا کھانا فراہم کر رہی تھی۔ [43]
- اسی تالا بندی کے دوران روٹی بینک آف بھوپال نامی ایک غیر سرکاری تنظیم بھوپال، مدھیہ پردیش میں 500-700 ضرورت مندوں کو کھانا فراہم کر رہی تھا۔ تنظیم کی بنیاد 2018ء میں محمد یاسر نے رکھی تھی۔ [43]
- لکھنؤ، اتر پردیش میں واحد بریانی 65 سال سے کافی مشہور ہے۔ 2020ء کی تالا بندی کے دوران اس ہوٹل کی جانب سے غریبوں اور بالخصوص نقل مقام کرنے والے مزدوروں میں بریانی مفت مہیا کرنا شروع کیا۔ کچھ لوگوں نے شکایت کی کہ بریانی میں گوشت ہوتا ہے جسے وہ لوگ اپنے سبز خوار ہونے کی وجہ سے کھا نہیں سکتے۔ زی نیوز کی ملکیت والی انڈیا ڈاٹ کام ویب گاہ نے اپنے نامہ نگار زر افشاں شیراز کے حوالے سے شائع ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ہو ٹل انتظامیہ نے اس حساس بات کا خیال کرتے ہوئے واحد بریانی کی اپنی روایتی شناخت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی مفت بریانی فراہمی کی اس رفاہی خدمت کو ویجی ٹیرین یا سبزی والی بریانی کے ساتھ فراہم کرنا شروع کیا۔[45]
- دی وائر کی اطلاعات
- خبر رساں ویب گاہ دی وائر کی خبر کے مطابق جسے ان کے نامہ نگار مصدق تھانگے نے تیار کیا ہے، ممبئی، مہاراشٹر میں ایک برقع پوش خاتون نکہت محمدی نے ایک سماجی خدمت کی کوشش فوڈ – ایک چھوٹی سی آشا کے نام سے شروع کی۔ یہ کوشش کے آغاز کا سبب یہ تھا کہ محمدی ایک دہاڑی مزدور سے ملی تھی جس نے دو روز سے کھانا نہیں کھایا تھا۔ اس سے متاثر ہو کر محمدی نے ایک انفرادی منصوبے کا آغاز کیا جس میں کم از کم 150 بھوکے غریب افراد روزانہ کھا سکیں۔ یہ کوشش کو اور حلقوں سے مدد ملنے لگی اور کورونا وبا کی پہلی لہر تک یہ اس مقام تک پہنچی کہ 15,000 سے 25,000 لوگوں تک روز آنہ کھانا پہنچایا جانے لگا تھا۔[46]
- دی وائر کے اسی مضمون میں ایک اور خبر موجود تھی کہ ہیلپنگ ہینڈز فاؤنڈیشن بھارت میں ایک ملک گیر سطح کی غیر سرکاری تنظیم ہے جو کووڈ 19 بحران کے پیش نظر عوام میں بے داری اور ہنگامی امداد فراہم کرنے کا کام کرتی آئی ہے۔ مضمون کے مطابق اس تنظیم میں 100 رضا کار شامل ہیں جن میں کچھ ایمبولنس ڈرائیور، نرس، نیم طبی پیشہ ور، صلاح کار اور مریضوں کی دیکھ ریکھ کرنے والے شامل ہیں۔ یہ لوگ ضرورت مند لوگوں تک غذا اور طبی امداد فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے سماجی فاصلہ گیری، شخصی صفائی ستھرائی وغیرہ جیسے کئی نئے مگر حالات حاضرہ کے پیش نظر مؤقت موضوعات پر جھگی جھوپڑیوں میں رہنے والے افراد کے بیچ بے داری لانے کی کوشش کی ہے۔ تنظیم کے بانی اور ٹرسٹی مجتبٰی عسکری کے مطابق: "ہم اپنے دیگر ابنائے وطن کی خدمت کے اپنے مشن پر کووڈ 19 سے پہلے بھی گامزن تھے۔ یہ چیلنج کی دور رسی اور اس کی وجہ سے متاثرین کی بد حالی ہمارے عزم کو مزید تقویت پہنچانے کا کام کر چکے ہیں۔" [46]ہیلپنگ ہینڈز فاؤنڈیشن نے بعد اپنے کام کو اور وسعت دیتے ہوئے ٹیکا کاری یا ویکسین کے پروگراموں کو بھی فروغ دیا۔ تنظیم نے اس سلسلے میں حیدرآباد میں جون 2021ء میں ایک وسیع مفت ویکسین پروگرام کا اہتمام بھی کیا جس کے لیے ہیلپنگ ہینڈز فاؤنڈیشن نے ایک اور رفاہی تنظیم فیض عام ٹرسٹ کا تعاون لیا اور میڈی کور ہاسپٹلز سے مشارکت کی۔
مشکل وقتوں میں کشمیری باشندوں کا رویہ
ترمیمروی نائیر ایک مشہور صحافی ہیں جنھوں نے رافیل دفاعی سودے میں مبینہ بے قاعدگیوں سے قوم کو نہ صرف رو شناس کیا بلکہ قومی مذاکروں کا حصہ بھی بنایا تھا[47]، آگے چل کر ٹویٹر پر کئی عوامی معاملات کے موضوعوں پر فعال ہو گئے جن میں سے ایک قابل ذکر مباحثہ ایک نقل مقام بہاری مزدور کا 17 سیکینڈ کی ویڈیو تھی جو انھوں نے 18 اکتوبر 2021ء کو شیئر کیا تھا۔ اس ویڈیو کی رو سے کشمیر کے باشندے اس کے ساتھ گذشتہ تین دہوں سے پرخلوص انداز میں پیش آتے رہے ہیں۔ تاہم وہ اس علاقے کی تیزی سے بدلتی صورت حال سے خوف زدہ ہے اور اس وجہ سے وادی کو چھوڑ رہا ہے۔[48] اسی ویڈیو کا ایک مزید طویل حصہ یوٹیوب چینل مسٹر ری ایکشن نے شیئر کی تھی جس میں اس مزدور نے اعتراف کیا ہے کہ کووڈ کے لاک ڈاؤنوں کے دوران وادی کے لوگوں نے رضا کارانہ طور اسے گھر بیٹھے کھانا کھلایا ہے جو شاید اس کے اس کے ساتھ نہیں ہوتا اگر وہ اپنے وطن آبائی بہار میں ہوتا۔[49]
معلومات فراہمی کی کوششیں
ترمیم- بھارت میں اسلامی شعور پھیلانے اور عوامی بے داری لانے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ کئی عوامی خدمات کے کاموں میں پیش پیش رہنے والی تنظیم جماعت اسلامی ہند کی طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او) نے اواخر اپریل 2021ء میں ایک ہیلپ لائن کا آغاز کیا جس میں کورونا وائرس سے بری طرح متاثر ہونے افراد کو بر وقت طبی سہولتوں اور خون کے عطیے وغیرہ سے متعلق ملک گیر معلومات فراہمی کی سہولت دی گئی ہے۔ یہ سہولت ملک کے کونے کونے میں ایس آئی او کے رضا کاروں (والنٹئروں) کے تعاون سے ہیلپ لائن فون نمبروں اور سماجی میڈیا پر چلائی جا چکی ہے۔ اس کے لیے ٹویٹر پر #SOSSIO (ہیش ٹیگ ایس او ایس آئی او)، مقامی ایس آئی او ہینڈل جیسے کہ @SIOTelangana (ایٹ دی ریٹ ایس آئی او تلنگانہ) تلنگانہ ریاست کے لیے، کچھ مقامی ذمے داروں کے نام کے نام کے ہینڈل وغیرہ بھی بنائے گئے۔ ایس آئی او نے صحافتی کانفرنس میں واضح کیا کہ یہ تمام خدمات مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کے لیے ہیں۔ اس کے علاوہ ایس آئی او نے جگہ جگہ اور بھی اقسام کی رفاہی اور عوام میں بے داری مہموں کی قیادت کی ہے، جس میں نظام آباد ضلع میں ماسک اپ مہم (ماسک چہرے پر ٹھیک سے لگوانے کے لیے عوام میں بے داری لانا) شامل ہے۔[50]
- ملک کے ایک مشہور اور عالمی شہرت یافتہ ادارے دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل علما نے سماجی ذمے داری کی تکمیل کے جذبے کے تحت دہلی میں کووڈ 19 کی صحیح معلومات لوگوں تک پہنچانے کے لیے کووڈ 19 ہیلپ ڈیسک قائم کیا جو لوگوں میں، خاص طور پر اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے بہت سارے مغالطوں کے ازالے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ہیلپ ڈیسک 26 اپریل 2021ء کو قائم کیا گیا۔ اواخر مئی تک ان اصحاب نے 150 لوگوں کو ہسپتال میں بھرتی کروایا تھا اور اس دوران وہ 5,000 فون کالوں پر مختلف لوگوں کے سوالات کے جوابات بھی دیے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ رفاہی کاموں میں ان لوگوں نے اس عرصے میں 8 لاکھ روپے خرچ کرتے ہوئے آکسیجن سلنڈر، آلات شخصی حفاظت، طبی آلات اور کم از کم سو خاندانوں کو مختلف امداد کی فراہمی کر چکے ہیں۔ مختصر عرصے میں یہ خدمات شاملی، مظفر نگر اور سہارن پور علاقہ جات تک توسیع دیے جا چکے ہیں اور اس میں 250 رضا کار (والنٹئر) شامل ہوئے ہیں۔ ایک طبی کالج جامعہ طبیہ اور ایک غیر سرکاری ادارے یونائیٹیڈ فار ہیومینیٹی نے بھی ان خدمات کو یقینی بنانے کے لیے مشارکت کی ہے۔[51]
عید الفطر اور میلاد النبی کے موقع پر خون کا عطیہ
ترمیمخون کا عطیہ کئی مریضوں اور ہسپتال میں شریک افراد کی جان بچانے کا کام کر سکتا ہے۔[52] کورونا وائرس کی عالمی وبا اور وسیع تر لاک ڈاؤنوں کے نفاذ کی وجہ سے کئی فعال خون کے عطیے کی مہمیں عملًا ختم سی ہو گئی تھی۔ اس کی وجہ سے دنیا بھر کے بلڈ بینک جو کسی بھی ہنگامی صورت حال میں خون کی فراہمی کی سہولت رکھتے ہیں، خون کے عطیے کی نئی نئی پہل اور جستجو مہموں میں لگ گئے، کیوں کہ روایتی عطیے کے مراکز جیسے کہ تعلیمی ادارے اور دفاتر بند ہو چکے تھے۔[53] ایسے میں ایک نئی پہل بھارت کی ریاست گجرات کے بروڈا شہر کے مسلمان محلوں میں 2020ء کے عید الفطر کے موقع پر ایک ماہر تعلیم زبیر گوپالانی کی اپیل پر خون کے عطیہ کی مہم کے طور پر شروع کی گئی اور چند ہی گھنٹوں میں مسلمان عطیہ دہندگان نے 300 بوتلوں کے خون کا عطیہ جمع کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ شہر کے ابرہیم باوانی آئی ٹی آئی ہاسٹل کو 198-بستروں کی کووڈ کی دیکھ ریکھ کے مرکز میں تبدیل کیا گیا، جس میں 45 تیسرے اور سنگین مرحلے میں کووڈ کے مریضوں کا علاج بھی کیا گیا اور ایک ریکارڈ دس دنوں کے وقت میں یہ سبھی مریض شفایاب ہو گئے۔ ان مریضوں میں بیشتر متاثرین ہندو تھے، جن میں کئی ڈاکٹر اور نرس شامل تھے۔ ان مریضوں کو دوران علاج موسم کے تازہ ترین پھل، سوکھے میوے، دودھ اور بسکٹ وغیرہ دیے گئے اور اس عارضی شفاخانے میں ایک فریج کی سہولت کا بھی بندوبست کیا گیا تھا۔[54]
بھارت کے مختلف شہروں میں اس سے قبل گذشتہ کئی سالوں سے خاص طور میلاد النبی کے موقع پر مسلمانوں میں خون کے عطیے دینے کا رواج رہا ہے۔[55] [56] یہ سلسلہ بھی 2020ء [57] اور 2021ء کے کووڈ 19 کی مختلف لہروں کے دور میں بھی جاری رہا اور کئی مسلمانوں نے اپنے خون کا عطیہ دیا۔ بالخصوص 2021ء میں ایسے ہی ایک خون کے عطیے کے کیمپ کا اہتمام حیدرآباد، دکن میں سری ماتْرُوتْوا چیری ٹیبل ٹرسٹ (Sri Mathrutva Charitable Trust) کی جانب سے ہوا تھا، جس میں خون کی 1461 اکائیاں جمع ہوئیں۔ بعد میں ان اکائیوں میں بیش تر کا استعمال تھیلیسیمیا سے متاثر بچوں کے لیے کیا گیا تھا، حالاں کہ یہ خون کا عطیہ کووڈ 19 کے وسیع پھیلاؤ کے دور میں ہوا تھا اور دیگر امراض کی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ کووڈ 19 کے مریضوں کی ممکنہ ضرورتوں کی تکمیل کا پہلو بھی اس میں مضمر رہا ہے۔ [58]
عید الاضحٰی کی قربانی کی رقم سے غریبوں کی امداد
ترمیم- 2020ء میں تالا بندی اور کاروبار وغیرہ کی مسدودی کی وجہ سے کئی لوگ عید الاضحی کی قربانی کی ادائیگی میں دشواری محسوس کر رہے تھے۔ اس موقع پر حیدرآباد، تلنگانہ کی ایک اسلامی درس گاہ جامعہ نظامیہ نے ایک فتوٰی جاری کیا جس کے مطابق قربانی کی ادائیگی میں اگر کہیں ممکن نہ ہو تو اس کے بدلے غریب اور نادار مستحقین کی مالی مدد کی جا سکتی ہے۔ ہر سال یہ اندازہ کیا گیا ہے کہ مسلمان ملک میں 100 کروڑ روپے قربانی پر خرچ کرتے ہیں۔ تاہم کووڈ 19 کی وبا اور اس سے نکلنے والے پیچیدہ حالات کی وجہ سے اندازہ کیا گیا ہے کہ کئی مسلمانوں کا ایک معتد بہ حصہ اُس سال جانور کی قربانی کی بجائے غریبوں میں روپے پیسوں کی تقسیم میں لگا رہا تھا۔[59]
دیگر مذاہب کے متوفی افراد اور اہل خانہ کی مدد
ترمیمتالا بندی کے دور میں اور اس کے بعد ایسے کئی واقعات پیش آئے جس میں مسلمانوں نے اپنے پڑوسی ہندو افراد کو بروقت طبی امداد کی فراہمی یا متوفی شخصیات کو سپرد آتش کرنے میں مدد کی۔
- گلف نیوز کی اطلاع کے مطابق تالا بندی کے دور کے ایک واقعے میں اپریل 2020ء میں بنگلور کے آر ٹی نگر علاقے میں ایک بیوہ ہندو خاتون کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ایسے میں 10 مسلمان پڑوسیوں نے آگے آکر آخری رسومات انجام دیے۔ ان اصحاب نے اپنی بیویوں کو بھی متوفی گھرانے کی زنانہ کے پاس پرسہ، تسلی اور غذائی امداد کے لیے بھی بھیجا تھا، جس کی خبر کے عام ہونے پر کئی ٹویٹر کے صارفین نے ان نیک دل اصحاب کے انسانی ہمدردی کے جذبے کی تعریف کی۔[60]
- دی ہندو اخبار کی مئی 2021ء خبر کے مطابق تلنگانہ کے جگتیال ضلع سے تعلق رکھنے والے سات مسلمان افراد بلال پور یوتھ ویلفیر سوسائٹی کے نام سے ایک غیر سرکاری تنظیم بنائے جس نے 210 ہندو کووڈ 19 کی وجہ سے ہندو متوفی اشخاص اور اسی طرح 73 مسلمان متوفی اشخاص کے آخری رسومات انجام دے چکے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب ان وفات پانے والوں کے ارد گرد کے دیگر لوگ کووڈ سے متاثرہ لاشوں کے پاس جانے سے بھی بچ رہے تھے۔[61]
- اسی زمرے میں انڈیا ٹوڈے کی اطلاعات کے مطابق مسلمانوں نے لکھنؤ میں کووڈ 19 سے انتقال کرنے والے ہندوؤں کے رمضان کے مہینے میں حالت روزہ میں 2021ء میں آخری رسومات انجام دیے تھے۔[62]
- اسی خبر کے ذرائع کے مطابق اس طرح کی مدد کے لیے مسلمانوں کے ایک گروپ نے آسام میں بھی پہل کی ہے۔ اس گروپ کا نام رابن ہوڈ آرمی رکھا گیا ہے۔[63]
- ریلیجن اَن پلگڈ ویب گاہ کے مطابق معین مستان کی سرکردگی میں سرگرم 25 مسلمانوں کی ٹیم کے کووڈ 19 سے مرنے والے ہندو افراد کی آخری رسومات کی خدمت پر خاص رپورٹ شائع ہوئی جو یہ لوگ مرکزی مہاراشٹر میں 2021ء کے رمضان میں حالت روزہ میں انجام دے رہے تھے۔[64]
- ریڈیف ویب گاہ نے 14 مئی 2021ء کو ایک خبر ایک ماہر خصوصی کے انٹرویو کو شائع کیا جس کا عنوان یہ تھا کہ "ہم نے اس وائرس کو کم آنکا"۔ اس انٹرویو کے ساتھ ویب گاہ پر دست بہ دعا عنایت علی کی تصویر بھی اس تفصیل کے ساتھ چھاپی گئی ہے کہ جبل پور سے تعلق رکھنے والے عنایت نے کووڈ 19 کے آغاز سے لے کر اب تک تقریبًا 1200 لاشوں کو سپرد آتش کیا ہے، جن میں زیادہ تر کووڈ 19 ہی سے انتقال پانے والے تھے۔[65]
- نیوز 18 کے مطابق اسی مدھیہ پردیش ریاست کے دو مسلمان دانش صدیقی اور صدام قریشی بھوپال بلدیہ کے آتش فرد دستے کے ملازمین ہیں۔ یہ دونوں آدمی اس بات کے لیے شہرت رکھتے ہیں کہ انھوں نے اپنے شہر کے ان ہندو لاشوں کو سپرد آتش کیا جن کے رشتے داروں نے متوفی کے کووڈ سے متاثر ہونے اور خود کے انفیکشن پکڑ لینے کے ڈر کی وجہ سے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ دونوں بلدیہ ملازمین 2021ء کے رمضان میں 60 ایسے ہندوؤں کی آخری رسومات انجام دے چکے ہیں۔ متوفی کے رشتے دار اس قدر گھبرائے ہوئے تھے کہ کچھ نے تو گذرے ہوئے لوگوں کے آخری دیدار بھی ان دو لوگوں کی ویڈیو کالوں کے ذریعے ہی کیا۔[66]
- مشہور خاتون صحافی برکھا دت نے اپنی ایک ویڈیو میں یہ اعتراف کیا ہے سورت شہر میں وفات پانے والے ہندوؤں کی آخری رسومات میں مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔[67]
- ٹریبیون انڈیا کی ایک خبر کے مطابق مہاراشٹر کے کولہاپور شہر میں ایک مسلمان عورت عائشہ راوت نے ایک ہندو متوفی شخص کی آخری رسومات کا انتظام کیا جس کے رشتے دار کووڈ 19 سے مثبت پائے جانے کی وجہ سے یہ فریضہ انجام نہیں دے سکے۔[68]
- متوفی افراد اور بالخصوص لاوارث لاشوں کی بے لوث خدمت میں ایک بے مثال شخصیت ایودھیا سے تعلق رکھنے والے سائیکل میکانک 83 سالہ محمد شریف ہیں۔ انھوں نے 1992ء سے یہ کار خیر کا آغاز کیا تھا، جس کے لیے وہ شریف چاچا کے طور پر مشہور بھی ہوئے تھے۔ اس قسم کی پہل کا بنیادی سبب یہ تھا کہ سال 1992ء میں کارسیوکوں کی جانب سے بابری مسجد کے مکمل ڈھانچے کو گرائے جانے کے بعد ملک گیر پیمانے پر پھوٹ پڑنے والے فسادات میں وہ اپنے ایک جواں سال بچے کو کھو دیے جو پیشے سے دوا ساز تھا۔ اس فرزند کی لاش ریل کی پٹریوں پر یوں ہی کافی عرصے تک پڑی رہی تھی۔ تب سے محمد شریف نے ہر فرقے کی لاوارث لاشوں کی آخری رسومات کی انجام دہی سے خود کو جوڑ دیا۔ قریب تین دہوں کے عرصے میں انھوں نے 25000 لاشوں کی آخری رسومات کی انجام دہی کی، جن میں ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی، سبھی شامل تھے۔ یہ کارنامہ 2020ء اور 2021ء کے سالوں میں بھی جاری رہا جب لوگ کووڈ 19 میں کثیر تعداد میں فوت ہوئے تھے۔ 8 نومبر 2021ء کو محمد شریف کو ملک کے باوقار اعزاز پدم شری سے نوازا گیا۔[69]
زکٰوۃ اور صدقات سے سماجی خدمت کی کوشش
ترمیماسلام نے ہر ذی ثروت مسلمان پر زکٰوۃ فرض کی ہے اور صدقات کی مذہب میں کافی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ یہ بھی ایک تسلیم شدہ بات ہے کہ ہر سال لوگ اپنے مالوں سے زکٰوۃ کا باضابطہ نصاب الگ کر کے غریبوں اور ضرورت مندوں میں بانٹتے ہیں۔ یہ الگ حصہ انفرادی طور پر یا کسی سماجی بھلائی کے کام کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ذیل میں اسی زکٰوۃ سے ہونے والے رفاہ عامہ کی کچھ نمایاں تعمیری کاموں کا ذکر بیان کیا گیا ہے جو ملک میں کووڈ 19 کے پھیلاؤ کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔
- کورونا وائرس کے آغاز کے سال، یعنی 2020ء ہی میں مہاراشٹر کے ایچل کرنجی علاقے میں مسلمانوں نے زکٰوۃ کے طور پر 36 لاکھ روپے کا عطیہ جمع کر کے مقامی اندرا گاندھی میموریل ہسپتال کے حوالے کیا تاکہ اس ہسپتال میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے انٹینسیو کیئر یونٹ قائم ہو۔ اس چھوٹے سے شہر کی آبادی 2.88 لاکھ ہے، جس میں کہ 78.32 فی صد ہندو ہیں، جب کہ مسلمان محض 5.98 فی صد ہیں، جیسا کہ 2011ء کی مردم شماری سے پتہ چلتا ہے۔ مسلمانوں کے اس تعمیری اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے مہاراشٹر کے وزیر اعلٰی ادھو ٹھاکرے نے کہاٰ:
” | ایچل کرنجی کے مسلمانوں نے ملک میں ہر شخص کے لیے راستہ دکھایا ہے۔اب تک ہم نے کورونا وائرس کو بہادری اور صبر سے قابو میں رکھا ہے۔ آگے سے اس میں عوامی شراکت بھی ضروری ہے۔ مسلمانوں نے ایک مثال قائم کی ہے کہ تہوار کیسے منائی جاتی ہے۔[70] | “ |
- مہاراشٹر کے ناگپور شہر سے تعلق رکھنے والے پیارے خان نے کورونا وائرس کے دور میں زکٰوۃ اور خدمت خلق کے جذبے سے ممکنہ سماجی بھلائی کی اپنی مثال قائم کی، حالاں کہ وہ خود ماضی میں ایک غریب خاندان سے آتے رہے ہیں اور 1995ء میں وہ ناگپور ریلوے اسٹیشن پر سنترے بیچا کرتے تھے۔ انھوں نے پڑھائی اور شخصی محنت سے 400 کروڑ روپے کی ایک عظیم حمل و نقل کی کمپنی قائم کی۔ اپریل 2021ء میں وہ مشکل سے ایک ہفتے کے عرصے میں 45 لاکھ روپے خرچ کیے تاکہ 400 میٹرک ٹن سیال آکسیجن ناگپور شہر اور اس کے اطراف و اکناف کے سرکاری ہسپتالوں میں پہنچے۔ حالاں کہ انتظامیہ نے پیارے خان کو یہ تیقن دیا کہ ان کے جملہ اخراجات جلد ادا ہوں گے، تاہم انھوں نے کچھ بھی مال و دولت لینے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے اس خرچ اپنے سالانہ فریضۂ زکٰوۃ کی ادائیگی سے جوڑ دیا اور مالی مطالبے سے دستبرداری اختیار کی۔ ان کی اس پہل میں 116 آکسیجن کانسینٹریٹر شامل ہیں جن کی جملہ لاگت 50 لاکھ روپے ہے۔ یہی پیارے خان آل انڈیا انسٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، گورنمنٹ میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل، چنڈی گڑھ اور اندرا گاندھی گورنمنٹ میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل، ناگپور کو بہ طور عطیہ دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ وہ بنگلور سے کرایوجینک ٹینکر کو کرایہ پر ہنگامی طور حاصل کرنے کے لیے تین گنا بڑھ اخراجات بھی اٹھا چکے ہیں۔[71] روزنامہ انقلاب کی 29 اپریل 2021ء کو شائع خبر کے مطابق پیارے خان نے اس وقت تک 400 ٹن آکسیجن کا عطیہ کر چکے ہیں۔[72]
آکسیجن، ایمبولنس وغیرہ میں مدد اور قرنطینہ مراکز کا قیام
ترمیمکووڈ کے ملک گیر پھیلاؤ کے دوران ایسی کئی مثالیں سامنے آئی ہیں جن میں مسلمانوں ملک میں عام و خاص کی آکسیجن، ایمبولنس اور دیگر طبی نگہداشت کے معاملوں مدد کرنے کی کوشش ہے:
- انڈین ایکسپریس کی اطلاع کے مطابق لکھنؤ کے لال باغ علاقے کی جامع مسجد میں کووڈ 19 کے مریضوں کو مئی 2021ء سے آکسیجن سلنڈر اور کانسنٹریٹر مفت میں مہیا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان آلات میں سے آدھی کی تعداد غیر مسلموں کے لیے مختص کی گئی ہے۔[73]
- ٹائمز آف انڈیا نے 12 مئی 2021ء کو اطلاع دی ہے کہ اسی شہر کی اندرا نگر کی مسجد نے اس اخبار کی خبر چھپنے تک ایک مہینے کے عرصے میں تقریبًا 300 لوگوں کو مفت آکسیجن فراہم کیا۔ اسی طرح شہر کی کپور تھلا علاقے کی جامع مسجد کووڈ 19 کے مریضوں اور اس سے متوفی اشخاص کے آخری رسومات کے لیے مفت ایمبولنس کی سہولت فراہم کی ہے۔ اس مسجد والوں نے نامہ نگاروں کو یہ بھی بتایا کہ شہر کے لوگوں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں نے کچھ دور دراز کے ضرورت مندوں کی بھی مدد کی ہے، جن میں ایک ایودھیا کے ایک ضرورت مند خاندان تک آکسیجن سلنڈر فراہم کرنا شامل ہے۔[74]
- انڈین ایکسپریس کی اور اطلاع کے مطابق بھوپال کے ایک آٹو ڈرائیور جاوید خان اور ان کی اہلیہ ٹی وی پر بھارت میں کووڈ 19 کے بڑھتے معاملات، ایمبولنس کی عدم دست یابی، ہسپتال پہنچتے پہنچتے انتقال کے واقعات اور بھاری قیمتوں میں ایمبولنس کے ملنے سے کافی پریشان ہوئے۔ محدود وسائل کے باوجود جاوید نے اپنی بیوی کے زیور بیچ کر آٹو کو کووڈ مریضوں کے لیے 2021ء میں ایک مفت ایمبولنس میں تبدیل کر دیا۔[75]
- نیوز 18 کی خبر کے مطابق ممبئی کے علاقہ ملاڈ سے تعلق رکھنے والے 31 سالہ شاہنواز شیخ 2020ء اور 2021ء میں ایک مخلص کورونا جنگ جو کے طور پر ابھرے اور کئی ضرورت مندوں کی مدد کرتے آئے ہیں۔ ان کے اس جذبے کا سبب 2020ء میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ایک آٹو میں ان کی بیوی کا انتقال کر جانا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے 22 لاکھ روپے کی اپنی فورڈ اینڈیور کار کو فروخت کر دیا تاکہ وہ آکسیجن سلنڈر خرید سکیں۔ انھوں نے کم از کم 160 سلنڈر خریدے اور انھیں ضرورت مندوں میں بانٹنا شروع کیا۔ اس نے اس سلسلے میں ایک ہیلپ لائن کا بھی آغاز کیا۔[76]
- الجزیرہ کی خبر کے مطابق ریڈ کریسنٹ سوسائٹی آف انڈیا نامی ایک غیر سرکاری تنظیم مہاراشٹر میں بیس مساجد کو آکسیجن سلنڈروں کی تیاری اور ختم ہونے والے سلنڈروں کے ریفل کرنے کے کام کے لیے استعمال کر رہی ہے۔[77]
- انادولو ایجنسی کی ایک خبر کے مطابق دہلی میں قائم آل انڈیا امام آرگنائزیشن کے صدر امام مولانا عمر احمد الیاسی کے مطابق کووڈ 19 سے مقابلہ کرنے کے لیے ہر شخص کو آگے آنا چاہیے۔ مسلمانوں کے زیر انتظام مدارس، اسکولوں اور تقریب گاہوں کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔[78]
- اسی جذبے سے ملک کے کئی ہسپتالوں میں بستروں اور جگہ کی کمی کی وجہ سے مذہبی مقامات کو عارضی طور پر ہی سہی ہسپتال یا کووڈ کی دیکھ ریکھ کے مراکز میں تبدیل کیا گیا جا چکا ہے۔ ڈھاکہ ٹریبیون کی تفصیلی خبر کے مطابق ان میں بروڈا شہر میں مفتی عارف فلاحی کا مدرسہ جس میں 142 آکسیجن کی سپورٹ والے مریضوں کی گنجائش موجود ہے، جب کہ اسی شہر کا ایک اور دینی مرکز جہانگیر پورہ مسجد رہا ہے جس میں پچاس کووڈ مریضوں کے بستروں کی گنجائش ہے۔ اس ضمن میں دہلی کا اوکھلا علاقہ بھی شامل ہے جہاں 20 مسجدوں میں کووڈ دیکھ ریکھ کی سہولت فراہم کی گئی ہے اور اسی طرح سے کرناٹک میں مسلم ایس او ایس نامی غیر سرکاری تنظیم ایک مسجد کو کووڈ مرکز میں تبدیل کر چکی ہے۔ یہ مراکز مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے کووڈ 19 مریضوں کے لیے کھلے ہیں۔ [77] دہلی کے اس مقصد کے لیے استعمال مساجد میں گرین پارک مسجد بھی شامل ہے۔[79] انڈیا ٹوڈے کی تحقیق کے مطابق مہاراشٹر کے پونے شہر کے اعظم کیمپس ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ کی مسجد بھی کو کووڈ متاثرہ افراد کے لیے اپریل 2020ء میں عارضی قرنطینہ مرکز میں تبدیل کیا گیا تھا۔[80]
- 2020ء کا آخری سہ ماہی عرصہ اور 2021ء کے شروع کے تین مہینے ملک میں متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف منظم احتجاجی مظاہروں میں گذرا تھا۔ یہ احتجاج عام طور سے ان علاقہ جات سے جانا تھا جہاں کہ وہ منظم کیا گیا، جیسے کہ جامعہ ملیہ احتجاج، اسلم چوک مدھوبنی احتجاج وغیرہ، جو بنیادی طور پر شہریت ترمیمی قانون، 2020ء کے رو بہ عمل لائے جانے کے خلاف اس کی واپسی کے مطالبے پر مرکوز تھا۔ تاہم ان سب علاقائی احتجاجوں میں سب سے نمایا احتجاج شاہین باغ احتجاج تھا جو دار الحکومت دہلی کے شاہین باغ علاقے میں منعقد ہوا۔ یہ 2020ء کے دہلی انتخابات میں سب موضوع بھی بنا تھا جس کا سبب یہ تھا کہ کئی سرکردہ بی جے پی قائدین نے انتخابی ریالیوں میں اس کا تذکرہ بھی کیا تھا اور اسے قومی مفاد کے خلاف قرار دیا تھا۔ اس احتجاج کے لیے ریاست دہلی کے بر سر اقتدار وزیر اعلٰی اروند کیجریوال کو اس موضوع پر ہدف تنقید بھی بنایا، اگر چیکہ ان کا اس احتجاج سے راست یا بالواسطہ کچھ بھی تعلق نہیں تھا۔ ان قائدین میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ بھی تھے۔[81] شاہ نے ایک انتخابی ریالی میں کہا تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر بٹن اتنے غصے کے ساتھ دبانا کہ بٹن یہاں بابر پور میں دبے، کرنٹ شاہین باغ کے اندر لگے۔[82] 24 مارچ 2020ء کو شاہین باغ احتجاجیوں کو اپنے مقام سے جبرًا ہٹا دیا گیا تھا، حالاں کہ کورونا وبا کے پیش نظر چند ہی احتجاجی رہ گئے تھے اور یہ لوگ بھی احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا تھے ۔ پولیس نے اس قدام کی وجہ ملک گیر لاک ڈاؤن بتائی تھی۔[83] 2021ء میں جب دہلی کووڈ 19 کے عالمی وبا کی دوسری لہر کا مشاہدہ کر رہا تھا اور دار الحکومت کے اسپتال آکسیجن کی قلت کا شکوہ کر رہے تھے، تب شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کے اس گڑھ سمجھے جانے والے علاقے میں ایک نئی تعمیری تبدیلی دیکھی گئی۔ واٹ شاٹ ڈاٹ اِن ویب گاہ کے مطابق یہاں کی ویلڈنگ کی دکانیں مفت آکسیجن تقسیم اور ریفل مراکز میں تبدیل ہوئے۔[84]
مساجد کا ویکسین مراکز کے طور پر استعمال
ترمیمجس طرح کے مملکت متحدہ[85] [86]، ریاستہائے متحدہ[87] اور دنیا کے کئی اور ممالک میں مساجد کو کووڈ 19 کے ویکسین مراکز میں عارضی طور پر تبدیل کیا جا چکا ہے، اسی طرح بھارت کی بھی کچھ مساجد کو ویکسین مراکز میں تبدیل کیا گیا ہے، جس کی کچھ مثالیں ذیل میں درج ہیں۔ ان مراکز میں مسلمان اور غیر مسلموں، دونوں کے استفادہ کی گنجائش رکھی گئی ہے، اگر چیکہ یہ مراکز مساجد میں موجود ہیں۔[87]۔:
- 20 مئی 2021ء کو لکھنؤ کی عید گاہ میں کووڈ 19 کے ویکسین مرکز کا افتتاح ہوا۔ یہ وہاں کے امام مولانا خالد رشید فرنگی محلی کی درخواست پر شروع ہوا۔ شروع میں دو ویکسین کے بوتھ قائم کیے گئے۔ ایک جو 18 سے 44 سال کی عمر کے زمرے کے لوگوں کے لیے ہے اور دوسرا 45 سال کے اوپر کے لوگوں کے لیے۔ اس مرکز میں یہ صلاحیت ہے کہ ایک دن 400 لوگوں کو ویکسین دیا جا سکتا ہے۔ [88]
- 28 مئی 2021ء بمبئی ٹرسٹ کی جمعہ مسجد نے جنوبی ممبئی میں زمین اور اس پر قائم دو منزلہ عمارت کو ممبئی بلدیہ کے ویکسین پروگرام کے حوالے کرنے کے لیے پیش کش کی۔ ٹرسٹ کے صدر نشین شعیب خطیب کے مطابق یہ احاطہ طبی مقاصد کے لیے موزوں ہے تو اس وجہ سے عارضی سطح پر ویکسین مرکز قائم کرنے سے بہتر کچھ نہیں ہو سکتا[89]
- 31 مئی 2021ء کو ممبئی کے محمد علی روڈ پر واقع داؤدی بوہرہ فرقے کی مسجد میں ایک کورونا ویکسین مرکز کا قیام عمل میں آیا۔ اس کا افتتاح جنوبی ممبئی سے شیو سینا کے رکن پارلیمان اروند ساونت، بارامتی سے رکن پارلیمان اور راشٹروادی کانگریس پارٹی کی خاتون قائد سپریا سولے اور مبئی کانگریس کے صدر بھائی جگتاپ نے کیا۔ اس مرکز میں بہ یک وقت 300 لوگوں کی موجودگی کی گنجائش ہے اور اس مرکز کا مقصد 45 سال سے بڑھ کر عمر والے افراد کو کووڈ ویکسین فراہم کرنا ہے، جو ملک کے دیگر کئی مراکز کی طرح صرف آن لائن اپائنٹ مینٹ کے ذریعے ہی ممکن کی گئی ہے۔[90]
مستقل سماجی خدمات اور اعزازیافتگی
ترمیمحیدرآباد، دکن سے تعلق رکھنے والے سماجی فعالیت پسند سید عثمان اظہر مخصوصی کو جولائی 2021ء میں کامن ویلتھ پوائنٹس آف لائٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ اپنے شہر 2011ء سے ایک مہم لگاتار چلا رہے ہیں جیسے انگریزی زبان میں ‘Hunger Has No Religion’ یا جسے اردو میں بھوک کا کوئی مذہب نہیں ہے، چلا رہے ہیں۔ اس مہم کے تحت ہر روز 1500 ضرورت مندوں کو روز آنہ بغیر کسی مذہبی تفریق کے کھانا کھلایا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ انعام کے اعلان سے دس سال پہلے سے چلا آ رہا ہے، جس میں کووڈ 19 کے پھیلاؤ اور لاک ڈاؤن کے دور بھی شامل ہیں۔[91] اس سے قبل مخصوصی کو 2018ء میں اپنے ہی ملک میں یُدھ ویر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔[92]
بیرون ملک بھارتی مسلمانوں کی جانب سے غیر مسلموں کی مدد
ترمیم2020ء اور 2021ء میں جب کورونا وائرس کی وبا اپنے پورے شباب پر تھی، تب بھی بھارت کے مسلمانوں نے اپنے ہم وطن مصبیبت زدہ غیر مسلموں کی نہ صرف ملک میں بلکہ بیرون ملک مدد کی۔ اس کی کچھ مثالیں اس طرح ہیں:
- دی ہندو اخبار کی طلاع کے مطابق کیرالا ریاست سے تعلق رکھنے والا ایک 45 سالہ شخص بیکس کرشنن (Becks Krishnan) 2012ء سے ابوظبی کے مرکزی قید خانے میں بند تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے سوڈان کے ایک شہری کو نادانستہ طور پر ایک کار حادثے میں زخمی کر دیا تھا، جس کی وجہ سے وہ جاں بر نہ رہ سکا اور بالآخر ہلاک ہو گیا تھا۔ اس کی رہائی کی ایک صورت یہی تھی کہ 5 لاکھ درہم (جو ایک کروڑ بھارتی روپے کے مساوی بتائے جاتے ہیں) بہ طور معاضہ ادا کیے جائیں۔ 2021ء میں کورونا وائرس وبا کے دور میں جس میں کہ کئی کاروبار ٹھپ ہو گئے تھے یا کافی نقصان جھیل رہے تھے، اس شخص کی رہائی کے لیے ایک مسلمان ملیالی صنعت کار ایم اے یوسف علی آگے آئے اور انھوں نے اپنی جیب سے یہ کثیر رقم ادا کی۔ یہ بھی غور طلب ہے کہ علی کی کرشنن سے پہلے سے کوئی جان پہچان نہیں تھی اور یہ مدد انھوں نے کرشنن کی بیوی سے شخصی ملاقات اور مدد کی درخواست پر کی تھی۔[93]
- یوٹیوب پر خبروں کے ایک مشہور ہندی / اردو چینل ہند وائس (Hind Voice) نے 17 جولائی 2021ء کو ایک خبر کئی تصاویر کے ساتھ اپلوڈ کی کہ کس طرح کورونا وائرس کی وبا میں انڈین کلچر سینٹر نامی ایک مسلمان تنظیم سے منسلک مسلمانوں نے متحدہ عرب امارات میں ایک مصیبت زدہ مسیحی لڑکی کی مدد کی۔ متعلقہ خبر کی ویڈیو کے مطابق تمل ناڈو سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ماریہ جارج اپنی بیٹی سے ملنے اس عرب ملک کے دورے پر آئی۔ تاہم اچانک اس کا انتقال ہو جاتا ہے اور اس صورت حال میں بیٹی بے یار مدد گار ہو چکی تھی۔ کورونا وبا کی وجہ سے وہ کسی سے کچھ مدد بھی حاصل نہیں کر پا رہی تھی۔ ایسے میں اس کی مدد کے لیے انڈین کلچر سینٹر سے منسلک مسلمان لوگ سامنے آئے۔ انھوں نے اس عرب ملک کے دار الحکومت میں موجود ایک گرجا گھر کا پتہ لگایا اور اس کے صحن میں واقع مسیحی قبرستان میں تدفین کی کار روائی انجام دی۔ یہ افراد اس کام کے دوران روایتی طور اسلامی سمجھے جانے والے لباس کُرتا اور پاجامہ کے ساتھ ساتھ سر پر ٹوپی پہنے ہوئے تھے۔ اس کار خیر کے لیے گرجا گھر کے ذمے داروں کی جانب سے تنظیم کے کارندوں کی کافی ستائش بھی کی گئی تھی۔ [94]
بیرونی ممالک سے امداد اور ان میں مسلم ممالک کا تعاون
ترمیمبھارت میں تیزی سے بڑھنے والی کووڈ 19 کی دوسری لہر کے پیش نظر دنیا کے کئی ممالک جیسے کہ فرانس، برطانیہ، سعودی عرب، قطر اور بنگلہ دیش نے مختلف زمرے میں مدد کی۔ ان میں جو مسلم ممالک نے مدد کی وہ اس طرح ہے:
- سعودی عرب ان اولین ممالک میں شامل ہے جنھوں نے 80 میٹرک ٹن آکسیجن بھارت کو فراہم کیا چونکہ تیزی سے بڑھتے کورونا معاملوں کے پیش نظر ملک میں آکسیجن کی شدید قلت ابھر کر سامنے آئی۔[95] مشہور تاجر اور وزیر اعظم نریندر مودی کے قریبی سمجھے جانے والے مشہور صنعت کار اور بھارت میں دوسرے سب سے بڑے مال دار تاجر گوتم اڈانی نے اس 80 ٹن سیال آکسیجن اور اعلٰی صلاحیت والے کرایوجینک ٹینکوں کا خیر مقدم کیا۔ تاہم ٹویٹر پر کچھ دائیں محاذ کی سوچ کے حامل صارفین نے اس اقدام کی تعبیر ‘آکسیجن جہاد’ کے طور پر کی اور اس بارے میں منفی تبصرے کیے۔[96]
- سعودی عرب نے بھارت کو آکسیجن ایک ایسے وقت پر فراہم کیا جب دسنا، غازی آباد، اترپردیش سے تعلق رکھنے والے ایک ہندو پنڈت یتی نرسنگھانند سرسوتی نے بہت سے نازیبا تبصرے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر کیے اور انتہا یہ کر دی کہ اپنی باتوں کا خلاصہ یوں پیش کر دیا کہ اگر مسلمان اپنے پیغمبر کی حقیقت جان لیں تو وہ خود کو مسلمان کہلانے میں شرمندگی محسوس کریں گے۔[97] جب کہ بھارت کے ذرائع ابلاغ نے، خاص طور پر خبروں کی ویب گاہ دی وائر نے تعجب کا اظہار کیا کہ جب یہ مذموم شخص مسلمانوں کے قتل عام اور نسل کشی کا مطالبہ کرنے کے بعد کس طرح سے آزاد گھوم رہا ہے۔[98] یہی نرسنگھانند کے مندر کے ذمے داروں نے اس مندر کا پانی پینے کے جرم میں ماخوذ ایک مسلمان لڑکے سے اس کا اور اس کے کے باپ کا نام پوچھ کر انھیں ان کی مذہبی شناخت کی بِنا پر بری طرح سے پیٹ چکے ہیں۔[99] اس کے علاوہ نرشنگھانند کے نزدیکی سمجھے جانے والے ایک شخص شیوم شیراوت نے مشہور رامن میگ سیسے اعزاز یافتہ صحافی رویش کمار کو ان کی بے باک اور بے لاگ صحافت اور خبروں کے تجزیے کی وجہ سے مار ڈالنے کی دھمکی دی جس کی کہ ہندوتوا کی قد آور رہنما شخسیتوں نے خیر مقدم بھی کیا۔[100] اس منظر و پس منظر میں کئی مسلمان یوٹیوب چینل جیسے کہ سیکیولر میاں بھائی اور مسٹر ریئیکشن والا [101] [102] اور اس کے ساتھ ساتھ سماجی میڈیا کے صارفین نے اس بات کا تذکرہ اور اس واضح تضاد کا ذکر کیا کہ کیسے جہاں ملک میں ایک مذہبی رہنما باآواز بلند پیغمبر اسلام کو برا بھلا کہ رہا ہے، اپنے بیانوں اور اپنے پیرو کاروں کے ذریعے قتل و خون اور مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ کر رہا ہے جب کہ مصیبت کے وقت بھارت کو راحت اور زندگی کا سامان سب سے پہلے پیغمبر اسلام ہی کے ملک سعودی عرب سے ہی وافر مقدار میں حاصل ہوئے ہیں۔
- متحدہ عرب امارات نے بھارت کے ساتھ اظہار یگانگت کے طور اپنی سبھی علامتی عمارتوں پر 25 اپریل 2021ء کو بھارت کے ترنگے پرچم کی روشنی لگوائی۔ اس کے علاوہ بھارتی فضائیہ سی 17 طیارے نے 29 اپریل 2021ء تک دوبئی سے 18 کرایوجینک آکسیجن کنٹینروں حاصل کر کے پانا گڑھ فضائی اڈے پر منتقل کیا ہے۔[103]
- قطر کی جانب سے اس کی فضائی خدمات قطر ائیرویز نے 300 ٹن طبی اشیاء دنیا کے مختلف فراہم کنندوں کے پاس سے لے کر بھارت کو مفت میں فراہم کرنے پر اپنی رضا مندی ظاہر کی۔[104]
- بنگلادیش نے 10,000 ریمڈیسیویر کی خوراکیں بھارت منتقل کی۔[105] کسی بحرانی کیفیت کے وقت بنگلہ دیش کی جانب سے بھارت کو دی جانے والی پہلی اور اب تک سب سے بڑی امدادی پیش کش ہے۔
- ترکیہ نے انقرہ سے 630 آکسیجن ٹیوب، پانچ آکسیجن جنریٹر 50 ویٹی لیٹر اور اس کے ساتھ ساتھ ترکی کے ہلال احمر اور وہاں کی وزارت صحت کی تیار کردہ دواؤں کے 50,000 صندوق روانہ کیے۔ ان امدادی صندوقوں پر تیرہویں صدی کے مسلمان عالم جلال الدین رومی کا مقولہ درج تھا: "مایوسی کے بعد امید ہے اور اندھیرے کے بعد کئی سورج آئیں گے۔" اس کے ساتھ حکومت کا بھی ایک پیام درج تھا:" بھارت کے لوگوں کے لیے ترکی سے محبت کے ساتھ۔"[106]
- پاکستان بھارت کے پڑوسی ملک پاکستان میں بھارت میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کا سماجی میڈیا پر کافی گہرا اثر دیکھا گیا۔ سماجی میڈیا کے صارفین کی کثیر تعداد نے سیاسی اختلافات کو در کنار کرتے ہوئے اپنے وزیر اعظم سے بھارت کو آکسیجن اور دیگر ہنگامی ضروریات کے سامان روانہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ #IndiaNeedsOxygen جس کا ترجمہ #بھارت_کو_آکسیجن_کی_ضرورت_ہے اور #PakistanstandswithIndia جس کا ترجمہ #پاکستان_بھارت_کے_ساتھ_کھڑا_ہے کافی دیکھنے میں آئے جس کے ساتھ بھارتیوں کے لیے ہمدردانہ رویہ اور ان کے لیے مدد کا مطالبہ دیکھا گیا۔[107] [108]وزیر اعظم عمران خان نے وینٹی لیٹروں، بی آئی پی اے پی، ڈیچیٹل ایکس رے مشین، شخصی حفاظتی آلات اور اسی زمرے کی اشیا کی بھارت کی امکانی مدد کی پیش کش کی تھی۔[109] اس کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن نے پچاس ایمبولنس کے ذریعے مدد کی پیش کش کی۔[110] اس بارے میں ایدھی فاؤنڈیشن نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط بھی لکھا تھا۔[108]
تاہم اس معاملے پیش رفت نہیں ہوئی اور یہ پیش کشیں یوں ہی رہ گئیں[111]۔ اس کی وجہ غالبًا 2019ء کے پُلوامہ حملے اور اُسی سال رد عمل کے طور پر کیے گئے بالاکوٹ فضائی حملے کے بعد بھارت کے سیاسی حلقوں میں پاکستانی انتظامیہ سے پائی جانے والی حد سے زیادہ ناچاقی کا ماحول ہے، حالاں کہ اس کے باوجود بھارت نے 45 ملین کووڈ 19 کی ویکسین خوراکوں کو پاکستان روانہ کیا ہے جو وہاں کے کورونا جنگ جوؤں، طبی نگہداشت سے جڑے عملے اور 65 سال سے بڑی عمر کے افراد کے لیے تھے۔[112]
بھارتی اداکارہ کنگنا رناوت نے #PakistanstandswithIndia، جس کا ترجمہ #پاکستان_بھارت_کے_ساتھ_کھڑا_ہے، کے ایک ٹویٹ کو پیش کرتے ہوئے پڑوسی ملک کے بھارت کے ساتھ ہمدردی کے اس جذبے کو سراہا اور اسے دلوں میں گرمجوشی بھرنے والا اور عوام کے محبت آمیز پیامات کو خوش آئند قرار دیا۔ [113] یہ ٹویٹ انھوں نے ٹویٹر کی جانب سے ان کے کھاتے کی مسدودی[114] سے پہلے کی تھی۔
خلاصہ
ترمیممسیحی مبلغین اکثر مرقس کی انجیل میں مرقوم یسوع مسیح کی تعلیم کا حوالہ دیتے ہیں: "تم لوگ اپنے پڑوسی کو اپنی طرح چاہوگے"۔ یہ کئی انسانی بھلائی کی سرگرمیوں کی بنیاد اور بنیادی انسانی ہمدردی کے نقطۂ آغاز کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔[115] ایک مسیحی ویب گاہ جو گلوکل مشن مسیحی تبلیغی گروب سے تعلق رکھتی ہے، نے انسانی فطرت کا نچوڑ یوں پیش کرتی ہے کہ ہمارے لیے یہ آسان ہوتا ہے ہم کسی عالمی مقصد پر مبنی دورے یا کہیں کی مقامی ملاقاتوں کے دوران لوگوں سے الفت سے ملیں۔ کئی بار یہ آسان ہوتا ہے کہ بے گھر آدمیوں کسی زمرہ بندی کے تحت کِھلا پِلا دیں، مگر عجیب بات یہ ہے کہ وہی سخی شخص اپنے باغبان کو گلاس پانی دینے میں بے زارگی کا احساس کرتا ہے۔ لوگ کرسمس کے موقع پر آسانی سے ضرورت مند بچوں کو تحفے تحائف دیتے ہیں، مگر یہ دریا دل لوگ کسی مقامی اسکول پروگرام میں پیسہ لگانے سے جھجکتے ہیں۔ یہ در حقیقت اس بات کی وجہ سے ہے کچھ صورت حال میں لوگوں کی ملاقات اتفاقی اور محض ایک بار کے لیے ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں میں سخاوت کا مظاہرہ کرنا آسان ہوتا ہے، جب کہ قرب و جوار کے لوگوں کی ملاقاتیں بار بار ہوا کرتی ہیں، اس لیے اس میں کنجوسی، بے زارگی اور رحم دلی کے کام کے لیے میلان میں کمی اور اسی طرح کی منفی کیفیت دیکھی جاتی ہے۔[116]
کووڈ 19 کی عالمی وبا کے دوران امداد کی ضرورت لوگوں کے اڑوس پڑوس میں رہی ہے، شہر و قصبہ، ریاست و ملک، یہاں تک کہ عالمی سطح پر بھی رہی ہے۔ لہٰذا جس درجے کی سخاوت کی ضرورت رہی ہے، وہ بھی ہر سطح پر دکھائی دینا ایک لازمی اور اشد درجے کی ضرورت کی تکمیل رہی ہے۔ ایسے میں اگر مسلمانوں کے رویے اور ان کی مذہبی تعلیمات کی بات کی جائے تو سب سے پہلی بات لازمًا یہ دیکھنے میں آتی ہے کہ اسلام نے حقوق اللہ (اللہ کے حقوق) اور حقوق العباد (بندوں کے حقوق) کے بیچ ایک واضح حد فاصل قائم کیا ہے۔[117] مذہبی تعلیم کی رو سے حقوق اللہ میں سوائے شرک کے اللہ ہر قسم کے گناہ کو خود معاف کر سکتا ہے، جب کہ حقوق العباد کی معافی اگر کسی بندوں کو مل سکتی ہے تو وہ صرف متعلقہ بندے سے چاہ سکتا ہے۔[118] یہ حقوق ایک شخص کے اپنے ماں باپ، اپنی بیوی یا شوہر، بھائی بہن، پڑوسی، ملاقات کرنے والوں یہاں تک کہ عام غریب لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ اسلام نے پڑوسیوں کا دائرہ کافی وسیع کیا ہے۔ حدیث میں یہ کہا کہ ایک شخص کے گھر سے چالیس گھر تک اس کے پڑوسی آباد ہیں۔[119] غیر مسلم پڑوسیوں سے بھی ہمدردی سے پیش آنے کا بھی اسلام میں حکم موجود ہے۔[120] جس طرح سے اوپر کے واقعات درج ہیں کہ کس طرح مسلمانوں نے دیگر مذاہب کے مصیبت زدہ، ضرورت مند اور متوفی افراد کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے اہل خانہ کی مدد کی، اس طرز عمل یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ مرور زمانہ میں اگر چیکہ مسلمان سختی سے اسلام پر عمل پیرا بھلے ہی نہ بھی ہوں، تاہم ان کے ایک معتد بہ حصے نے مقدور بھر ہمدردی اور غم گساری کی کوشش کی۔ اس میں وہ چند معروف واقعات مضمون میں درج کیے جا چکے ہیں، جب کہ اس سے کئی گنا واقعات اس متصل ایسے بھی ہیں جو خبر یا سرخیوں میں آنے سے رہ گئے ہیں اور اسی وجہ سے وہ اختصار سے بھی یہاں درج نہیں ہو پائے۔ اسلام میں زکٰوۃ اور صدقات کی بہت اہمیت ہے[121]، جس کی مثالیں مضمون میں درج کر دی گئی ہیں۔ خود ماضی میں ایک غریب خاندان سے آنے والے ناگپور کے شہری پیارے خان، جن کا مضمون میں ذکر موجود ہے، مشکل سے ایک ہفتے کے عرصے میں 45 لاکھ روپے خرچ کیے تاکہ 400 میٹرک ٹن سیال آکسیجن ناگپور شہر اور اس کے اطراف و اکناف کے سرکاری ہسپتالوں میں پہنچے۔ حالاں کہ انتظامیہ نے اس ہم درد اور وقت پر مدد پہنچانے والے شخص کو یہ تیقن دیا کہ ان کے جملہ اخراجات جلد ادا ہوں گے، تاہم انھوں نے کچھ بھی مال و دولت لینے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے اس خرچ کو اپنے سالانہ فریضۂ زکٰوۃ کی ادائیگی سے جوڑ دیا اور مالی مطالبے سے دستبرداری اختیار کی۔ اسی طرح کی کئی دیگر مثالیں درج کی جا چکی ہیں جو مضمون میں درج ہیں، ان میں ایک یہ بھی ہے جو مہاراشٹر ایچل کرنجی کے چھوٹے سے علاقے کے مسلمانوں کے طبقے سے تعلق رکھتی ہے، جس میں مسلمانوں نے زکٰوۃ کے طور پر 36 لاکھ روپے کا عطیہ جمع کر کے مقامی اندرا گاندھی میموریل ہسپتال کے حوالے کیا تاکہ اس ہسپتال میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے انٹینسیو کیئر یونٹ قائم ہو۔ یہ وہ اقدام تھا جس کے لیے مہاراشٹر کے وزیر اعلٰی ادھو ٹھاکرے کی جانب سے زبر دست داد تحسین دی جا چکی ہے۔ سنن ترمذی میں یہ بھی ایک حدیث مرکوز ہے جس کا مفہوم ہے کہ قیامت کے دن ایک مومن کا سایہ اس کا صدقہ ہے۔ اسی طرح کی کئی تعلیمات قرآن میں وارد ہیں۔[122] غیر معمولی خیر خیرات کا جذبہ جو عظیم پریم جی اور یوسف خواجہ حمید کے بے مثال عطایا ، لکھنؤ کی واحد بریانی کے مالکین کا ویجی ٹیرین بریانی نقل مقام مزدوروں کو مفت فراہم کرنے کا جذبہ، اپنی قیمتی کار کو فروخت کر کے آکسیجن فراہم کرنے والے ممبئی کے ایک شخص، اپنے آٹو کو مفت ایمبولنس میں والے آٹو ڈرائیور اور اس قسم کی کئی مثالیں اس مضمون میں درج ہیں، جو اس بات کا اشارہ کرتی ہیں کہ کہیں نہ کہیں اسلام نے خدمت خلق کا جذبہ آج کے اس مذہب ہیزاری اور دہریت پسندی کے دور میں اپنے پیرو کاروں کے دل میں ڈالنے میں کامیاب رہا ہے۔ نیز قوم پرستی اور حب الوطنی کی سب سے واضح علامت تو یہی ہو سکتی ہے کہ اہل وطن کو عند الضرورت ہم وطنوں کی مدد میں پیش پیش رہیں۔ اس بارے کئی مثالیں مضمون میں درج ہیں کہ مسلمانوں نے بغیر کسی مذہبی دیوار کا خیال کیے حسب حیثیت پریشان حال لوگوں کی مدد کی ہے، انفرادی بھی اور تنظیمی سطح پر بھی۔ مصیبت کے وقت مسلم ممالک کا بھی جوشیلے انداز میں بھارت کی مدد کے لیے آگے آنا یہ دکھاتا ہے کہ انسانیت اور انسانی ہمدردی کا جذبہ صرف ملکی مسلمانوں تک محدود نہیں رہا ہے ہلکہ غیر ملکی مسلمان حکومتیں بھی مدد کے اپنے جذبے کے ساتھ آگے آ چکے ہیں۔ حکومتوں کے علاوہ کئی مسلمان اپنے طور پر بھی بھارت کے عام لوگوں کی خیریت کو لے کر بلا لحاظ مذہب فکر مند رہے ہیں اور انھوں نے اپنی حکومت سے مدد کی بھی در خواست کی ہے، جس کے لیے ٹویٹر اور فیس بک جیسے سماجی میڈیا کا سہارا لیا گیا۔
امریکی سماجی تحقیقاتی ادارے پیو ریسرچ سینٹرنے اواخر 2019ء اور اوائل 2020ء میں کووڈ کی وبا سے عین قبل 29,999 بھارتیوں کا ایک بالمشافہ سروے کیا جس میں بھارتی سماج کی مذہبی شناخت، قومیت اور رواداری کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اس سروے میں ملک کے سبھی مذہبی فرقوں سے تعلق لوگوں کے افکار کو شامل کیا گیا تھا۔ [123] اس سروے کی ایک خاص بات یہ دیکھی گئی کہ اس میں حصہ لینے والے تقریبًا سبھی مسلمانوں (95 فی صد) نے بالاتفاق اپنے بھارتی ہونے میں فخر محسوس کیا اور اس کی ثقافت کے لیے لیے اپنی گہری دل چسپی ظاہر کی۔[124] دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی طرح ملک کے مسلمانوں کے ایک معتد بہ حصے نے مذہب سے اپنی گہری وابستگی کا بھی اظہار کیا اور حالاں کہ امن و آشتی میں اپنے یقین کا اظہار کیا، تاہم وہ لوگ اکثریت ہندو فرقے کے افراد ہی کی طرح بین العقیدہ شادی، خصوصًا اپنی عورتوں کی غیر مذہب والوں سے شادی کرنے کے خلاف رخ اختیار کرتے ہوئے پائے گئے۔[125] اس سروے سے، جس کی تشہیر جولائی 2021ء میں کی گئی تھی، یہ واضح ہوتا ہے کہ جذباتی طور بھارت کے مسلمان اپنے وطن سے وابستہ ہیں اور دیگر ابنائے وطن سے امن و آشتی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، حالاں کہ وہ اپنی علاحدہ شناخت بنائے رکھنے کے بھی قائل ہیں اور اپنی مذہبی اقدار پر بھی وہ کسی نہ کسی طرح کار بند ہیں۔ اس طرح سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں مذہبی سخاوت ہی کی تعلیمات مسلمانوں کو دیگر ہم وطنوں کی مدد اور ان کی خبر گیری پر مائل ہونے پر آمادہ کر چکی ہے اور وہ کبھی عیاں طور پر کبھی پوشیدہ طور عام حالتوں اور کووڈ 19 کی جیسی وبائی حالات میں بھی خدمت خلق کے جذبے سے آگے بڑھتے رہے ہیں۔
مزید دیکھیے
ترمیم- بھارت میں کورونا وائرس کی وبا، 2020ء
- بھارت میں اسلام
- محمد یونس (چینائی کا شہری) (چینائی میں 2015ء میں طوفانی بارش کے دوران غیر معمولی عوامی خدمات کی وجہ سے 2016ء میں انّا تمغا برائے بہادری (Anna Medal for Gallantry award) حاصل کرنے والی مسلمان شخصیت)
حوالہ جات
ترمیم- ↑ بائجو رویندرن فوربز کی فہرست میں بھارت کے سب سے کم عمر ارب پتی ہیں
- ↑ سری لنکا میں نئی پہل کر رہے ہیں؟ سلمان خان اور جیکلین فرنانڈیز مہندرا راجپکشے کے لیے سری لنکا میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
- ↑ بھارت کی معیشت کورونا وائرس کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی۔ یہ چارٹ بتاتے ہیں کیسے۔
- ↑ کورونا وائرس کی دوسری لہر - ان ریاستوں کی فہرست جہاں رکاوٹیں، کرفیو اور لاک داؤں نافذ کیے جا چکے ہیں۔
- ↑ سی ایم آئی ای کے مطابق دو کروڑ سے زائد لوگ کورونا کی دوسری لہر وجہ سے روز گار سے محروم ہو چکے ہیں
- ↑ 97% گھرانوں کی آمدنی اس عالمی وبا کی وجہ سے گھٹ گئی ہے: سی ایم آئی ای
- ↑ کووڈ کی دوسری لہر اور دیہی بھارت
- ↑ بستروں، آکسیجن اور شمشان بھومی پر وقت کی کمی دار الحکومت کو تہس نہس کر رہی ہے
- ↑ تجزیہ: تجزیہ: بھارت عرصے سے ہسپتال کے بستروں کی کمی جھیل رہا تھا۔ یہ عالمی وبا اس قلت کو اور شدت دے گیا
- ↑ بھارت میں کووڈ کی دوسری لہر سے کچھ وقت پہلے آئی سی یو کے بستووں میں 46% اور آکسیجن میں 36% کمی دیکھی گئی۔
- ↑ ہسپتال میں بستروں کی قلت
- ↑ کووڈ 19 اور اس کا بھارتی سماج پر اثر
- ↑ کووڈ 19 کا بھارت پر اثر اور ملک کی اس وبا سے ابھرنے کی صلاحیت
- ↑ بے دریغ سپر آتش کار روائیاں بھارت کے کووڈ مریضوں کی گنتی کے دعووں پر شک پیدا کرتے ہیں
- ↑ ایک ماہر خصوصی سمجھاتے ہیں کہ بھارت کو ویکسین دینے میں کیا مسائل ہیں
- ↑ دہلی میں کووڈ 19 کے بڑھتے معاملوں کے بیچ متعلقہ دواؤں کی سربراہی میں کمی
- ↑ بھٹنڈا اور مانسا میں کووڈ کی علاج میں کارگر ڈرگوں کی کمی
- ↑ اہم پالیسی میں تبدیلی: بھارت 16 سال میں پہلی بار کووڈ 19 کے بڑھتے معاملات کی وجہ سے بیرونی امداد قبول کرنے لگا ہے
- ↑ رپورٹ: بھارت کو 57 لاکھ کی بیرونی امداد 4 میسر ملی تک ملی مگر 3 لاکھ ائٹمیں 6 مئی تک نہیں بھیجی گئی
- ↑ کیوں ٹویٹر پر کووڈ کے لیے خاموش تعاون کے لیے عظیم پریم جی کو سراہا جا رہا ہے، نہ کہ آدر پونا والا کو
- ↑ عظیم پریم جی کووڈ 19 سے لڑنے کے مقصد کے لیے دنیا کے تیسرے سب سے بڑے عطیہ کنندے بن چکے ہیں
- ↑ کووڈ 19 کے دور میں لحاظ رکھنا
- ↑ عامر خان پی ایم کیئرز فنڈ کو عطیہ دیتے ہیں۔ وہ مہاراشٹر کے وزیر اعلٰی کے راحت کاری چندے میں عطیہ دیتے ہیں۔ وہ لال سنگھ چڈھا کے دہاڑی کار کزاروں کی بھی مدد کرتے ہیں
- ↑ کووڈ 19: شاہ رخ جان شہریوں کی مدد کے لیے کئی کوششوں کا اعلان کرتے ہیں
- ↑ عامر خان نے اس چھوٹی خبر کو خارج کر دیا کہ وہ لاک ڈاؤن کے دوران غریبوں میں تقسیم کیے جانے والی گیہوں کے ہر تھیلے میں پندرہ ہزار روپے چھپا کر دے چکے ہیں
- ↑ ہماقریشی سونو سود کو بھارت کا وزیر اعظم دیکھنے کی خواہش مند
- ↑ آر جے پاشا اعجاز خان کی تائید میں کھڑے ہوتے ہوئے
- ↑ "اعجاز خان ڈرگس معاملے میں گرفتار ہوا، کہا گیا ہے کہ صرف چار سلیپنگ پِلز بر آمد ہوئے"۔ 11 نومبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2021
- ↑ آرین خان ڈرگس معاملہ: منصوبہ بند چھاپا، شاہ رخ خان کے بیٹے کو پھنسایا گیا، گواہ نے ممبئی پولیس اہلکاروں کی اطلاع دی
- ↑ کنگنا رناوت نے ویر ساورکر سے تیجس کی شوٹنگ کے دوران اپنا اظہار تشکر پیش کیا
- ↑ خالصتانیوں اور جہادیوں سے جنگ کی، کنگنا کا بیان، ٹویٹر کا رد عمل
- ↑ شاہد جمیل جینوم سیکوینسنگ گروپ کے صدر کے عہدے سے مستعفی ہو گئے
- ↑ پنجاب: مسلمان ڈاکٹر، نیم طبی عملہ رمضان کے دوران برسر خدمت ...
- ↑ راجستھان سے تعلق رکھنے والے مسلمان ڈاکٹر کووڈ 19 سے جنگ ہار کر اپنے خاندان کو صدمے میں چھوڑ کر رخصت ہو جاتے ہیں
- ↑ اسد الدین اویسی کا ٹویٹر پیام
- ↑ کورونا جنگ جو ڈاکٹر جاوید علی کورونا وائرس کی وجہ سے ایمس کے ٹروما سینٹر میں گذر جاتے ہیں
- ↑ کشمیر میں مقیم ڈاکٹر جو 4 مہینوں سے زیادہ عرصے سے کووڈ کے مریضوں کا علاج کر رہے تھے، خود اس سے متاثر ہو کر فوت ہو چکے ہیں۔
- ↑ ایمبولنس کا ڈرائیور جس نے دو سو سے زائد کووڈ مریضوں کی لاشوں کی تجہیز کا مارچ سے کام کیا، دہلی میں خود بھی انتقال کر چکا ہے
- ↑ [https://theprint.in/india/tejasvi-surya-communalises-covid-fight-by-accusing-muslim-volunteers-of-beds-allotment-racket/653000/ تیجسوی سوریا نے کووڈ سے جنگ کو فرقہ وارانہ رنگ دیا اور مسلمان والنٹئروں کو بستروں کی فراہمی کے لیے کی مدد == [[فائل:Shamshan Ghat Chinawal.jpg|تصغیر|ریاست مہاراشٹر کی ایک شمشان بھومی۔ کووڈ 19 کی وبا کے دوران بھارت کے کئی مسلمانوں نے اپنے بیمار اہل وطن کی خبر گیری بھی کی اور کئی جگہوں پر متوفی لوگوں کے سپرد آتش کرتے ہوئے غمزدہ پس ماندگان کی ذمے دار قرار دیا]
- ↑ تیجسوی سوریا کو بستروں کی فراہمی کے معاملے کو فرقہ وارنہ رنگ دینے پر کانگریس شرم کرنے کا مشورہ دیتی ہے
- ↑ بی بی ایم پی نے 16 معطل مسلمان خدمت گاروں کو بازمامور کیا، مگر 5 ملازمین نے واپس ہونے سے انکار کیے
- ↑ "کرناٹک ویکسین کمیشن اسکینڈل: کانگریس بی جے پی ایم پی تیجسوی سوریا پر منافع خوری کا الزام عائد کرتی ہے"۔ 09 جون 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جون 2021
- ^ ا ب پ مسلمانوں کی سخاوت کووڈ 19 کی وبا کے دوران بھارت کے ضرورت مندوں کے کام آ رہا ہے
- ↑ ہمارے بارے میں
- ↑ لکھنؤ کی واحد بریانی 65 سال میں پہلی بار ویجی ٹیرین روپ اختیار کر گئی تاکہ نقل مقام کرنے والے مزدوروں کو غذا فراہم کی جا سکے جو اس نوابوں کے شہر سے گذر رہے ہیں۔
- ^ ا ب کس طرح بھارت کے مسلمان کووڈ 19 کے راحت کے کاموں کے ذریعے نفرت کا مقابلہ محبت سے کر رہے ہیں
- ↑ روی نائیر: وہ صحافی جنھوں نے رافیل دفاعی سودے میں مبینہ بے قاعدگیوں سے قوم کو نہ صرف رو شناس کیا بلکہ قومی مذاکروں کا حصہ بھی بنایا
- ↑ ٹویٹر پر روی نائیر کا پیام
- ↑ مسٹر ری ایکشن یوٹیوب چینل کا ایک بولیٹن
- ↑ ایس آئی او نے ملک گیر ہیلپ لائن اور ٹاسک فورس کھڑی کی ہے تاکہ کووڈ 19 کا مقابلہ کیا جا سکے
- ↑ مدرسۂ دیوبند کے فضلا کا گروپ کووڈ 19 اور اس سے متعلقہ مغالطہ کا مقابلہ کر رہا ہے
- ↑ "خون کا عطیہ:زندگی کا تحفہ"۔ 23 جولائی 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولائی 2021
- ↑ کووڈ 19 کی عالمی وبا کے دوران خون کا عطیہ
- ↑ بی جے پی زیر اقتدار گجرات میں دلوں میں خون کی روانی کا جوش رکھنے والے مسلمانوں نے راستہ دکھایا
- ↑ بیدر کے خون کے عطیہ دہندگان
- ↑ سنی یونائٹیڈ فورم آف انڈیا امن کی ریالی اور خون کے عطیے کا اہتمام کر چکی ہے
- ↑ حیدرآباد: اس سال میلاد النبی سادگی سے منائی جائے گی
- ↑ "خون کی کمی والے بچوں کے لیے گیارھواں میلاد خون کے عطیے کا کیمپ"۔ 23 جولائی 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولائی 2021
- ↑ اس سال کی بقر عید کے موقع پر، جو مسلمانوں کا دوسرا بڑا تہوار ہے، ماحول مختلف ہو سکتا ہے کیوں کہ شہر کی ایک سرکردہ جامعہ نے ایک منفرد فتوٰی جاری کیا ہے
- ↑ کورونا وائرس لاک ڈاؤن: کس طرح دس مسلمان پڑوسی آگے آکر بنگلور کے ایک غم زدہ خاندان کی مدد کر چکے ہیں
- ↑ نیک طینت لوگ مذہبی حد بندی سے آگے بڑھ کر کووڈ 19 کے متاثرین کی آخری رسومات انجام دیتے ہیں
- ↑ مذہبی حد بندی سے آگے بڑھ کر اترپردیش میں مسلمان ہندو کووڈ متاثرین کی آخری رسومات انجام دے چکے ہیں
- ↑ مسلمانوں کی رابن ہوڈ آرمی آسام کے ہندو کووڈ متاثرین کی آخری رسومات انجام دے چکی ہے
- ↑ بھارت میں مسلمان ان ہندوؤں کی آخری رسومات انجام دے چکے ہیں جو کووڈ 19 کی وجہ سے فوت ہو چکے ہیں
- ↑ 'ہم نے اس وائرس کو کم آنکا'
- ↑ بھوپال مسلمان بلدیہ کے ملازمین ان 60 ہندو کووڈ سے مرنے والوں کی لاشوں کو سپرد آتش کر چکے ہیں جن کے رشتے داروں نے اس وائرس کے خوف کی وجہ اپنے متوفی ساتھیوں کو چھوڑ دیا تھا
- ↑ سورت کی کووڈ آتش سپردگی گاہ: کئی مسلمان والنٹئر ہندوؤں کے انتم سنسکار میں موجود ہیں
- ↑ کولہا پور میں ایک مسلمان خاتون ہندو آدمی کی آخری رسومات انجام دیتی ہے
- ↑ پدم شری محمد شریف سے ملیے جنھوں نے 25000 لاوارث لاشوں کی آخری رسومات انجام دیں
- ↑ کووڈ کے دور میں عید: مہاراشٹر کے ایک چھوٹے شہر میں زکٰوۃ اور صدقہ نو تعمیر شدہ انٹینسیو کیئر یونٹ کا حصہ بن رہے ہیں
- ↑ ناگپور: ایک جھگی جھوپڑی باشی کروڑ پتی کووڈ ہسپتالوں کے لیے منفرد آکسیجن زکٰوۃ
- ↑ پیارے خان کو پیاری ہے مریضوں کی جان، اب تک400؍ ٹن آکسیجن عطیہ کرچکے ہیں
- ↑ لھنؤ کی جامع مسجد کووڈ مریضوں کو آکسیجن فراہم کر رہی ہے
- ↑ مسجد بحران کے شکار کووڈ مریضوں کی مدد کر رہی ہے
- ↑ بھوپال کے آٹو ڈرائیور نے بیوی کے زیور بیچ کر اپنی گاڑی کو کووڈ مریضوں کے لیے مفت ایمبولنس میں تبدیل کر دیا
- ↑ ممبئی کے ایک آدمی نے اپنی بائیس لاکھ کی ایس یو وی بیچ دی تاکہ وہ کووڈ کے مریضوں کی مدد کر سکے۔ اس نے اب ایک ہیلپ لائن بھی شروع کی ہے
- ^ ا ب بھارت کی کئی مساجد کو وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ کووڈ مراکز میں تبدیل کر دیا گیا ہے
- ↑ بھارت کے مسلمان مسجدوں اور اسکولوں کو کووڈ مراکز میں تبدیل کر چکے ہیں
- ↑ کئی مساجد کو بھارت میں قرنطینہ مراکز میں تبدیل کیا جا چکا ہے
- ↑ حقیقت کی پڑتال: پونے کی مسجد میں قائم کووڈ مرکز دہلی دنگوں سے جڑا ہے
- ↑ دہلی انتخابات 2020ء- فروری 8 کے بعد یہ لوگ شاہین باغ کو جلیان والا باغ میں تبدیل کر سکتے ہیں: اویسی
- ↑ بٹن یہاں دبے اور کرنٹ شاہین باغ میں لگے: امیت شاہ نے ایک بار پھر ٹکڑے ٹکڑے گینگ کو منہ توڑ جواب دیا
- ↑ شاہین باغ احتجاج گاہ کو پولیس کی جانب سے خالی کر دیا گیا کیوں کہ دہلی کورونا وائرس لاک ڈاؤن سے گذر رہا تھا
- ↑ انُج تریہان۔ "شاہین باغ کی ویلڈنگ کی دکانیں مفت آکسیجن سلنڈر کی تقسیم اور ریفل مراکز میں تبدیل ہوئے!"۔ واٹ شاٹ۔ ٹائمز انٹرنیٹ لیمیٹیڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 مئی 2021
- ↑ ممکت متحدہ کی مسجد کووڈ 19 کے ویکسین مرکز میں تبدیل ہو چکی ہے
- ↑ لندن کی مرکزی مسجد میں ویکسین کلینک
- ^ ا ب مساجد میں رواں ویکسین کوششیں مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو پہنچنے میں کامیاب ہیں
- ↑ جمعرات سے لکھنؤ کی عید گاہ میں کووڈ ویکسین کیمپ کا آغاز ہو رہا ہے
- ↑ جمعہ مسجد جنوبی ممبئی میں اپنے احاطے کو بی ایم سی کو ویکسین دینے کے لیے پیش کر چکی ہے
- ↑ ممبئی کا داؤدی بوہرہ فرقہ مسجد کو کووڈ 19 ویکسین مرکز میں تبدیل کر چکا ہے۔
- ↑ حیدرآبادی فعالیت پسند کو برطانوی حکومت اعزاز دے رہی ہے
- ↑ اظہر مخصوصی کو 27واں یُدھ ویر ایوارڈ ہر روز سینکڑوں غریبوں کے کھانا کھلانے کی وجہ سے دیا گیا
- ↑ یو اے ای کی جیل سے رہا کیرالا کا شخص اپنے گھر لوٹ چکا ہے
- ↑ یو اے ای میں بھارتیہ خاتون کی آخری رسومات مسلم نوجوانوں نے انجام دیے -ہند وائس نیوز - گلف نیوز
- ↑ سعودی عرب 80 ٹن آکسیجن بھارت بھیج رہا ہے تاکہ اس ضرورت کے بڑھتے مطالبے کی تکمیل ہو سکے
- ↑ سعودی عرب کے بھارت کو 80 ایم ٹی آکسیجن اعلٰی صلاحیتی کرایوجینک ٹینکوں کے ساتھ فراہم کرنے کے ساتھ آکسیجن جہاد ٹویٹر پر زور پکڑتا ہے؛ ناکام ادا کار اور گودی میڈیا کے ارکان کی فضیحت
- ↑ دسنا مندر کے پنڈت کے پیغمبر پر تبصرے وائرل ہو گئے۔ دہلی پولیس کی ایف آئی ار
- ↑ نرسنکھانند نے قتل اور نسل کشی کا مطالبہ کیا ہے۔ تو وہ سلاخوں کے پیچھے کیوں نہیں ہے؟
- ↑ بھارت کی ایک مندر سے پانی پینے کی وجہ سے مسلمان لڑکی کو زد و کوب کا شکار بنایا گیا
- ↑ رویش کمار کو جان کی دھمکی دینے والے کو ہندوتوا کے قد آوروں کی حمایت حاصل ہے
- ↑ سعودی عرب سے آیا آکسیجن: کیا آکسیجن جہاد ہے؟ نرسنگھانند محمد ﷺ کے شہر سے آیا آکسیجن
- ↑ سعودی عرب نے بھارت کو آکسیجن بھیجا، پی ایم مودی، گودی میڈیا، مسلمان پلازما، سوشل میڈیا کی خبریں، مسٹر ریئیکشن والا
- ↑ یو اے ای بھارت کو طبی امداد فراہم کر رہا ہے
- ↑ قطر ایئرویز 3000 ٹن طبی امداد بھارت کو بغیر کسی مالی خرچ کے لے جانے تیار - دی ایکنامک ٹائمز
- ↑ بنگلہ دیش ریمڈیسیویر کی 10,000 خوراکوں کا تحفہ دے چکا ہے
- ↑ ترکی نے کووڈ 19 کے بوچھ سے نمٹنے کے لیے بھارت کو طبی امداد بھیجی
- ↑ پاکستانی شہریوں نے اپنے ملک کے وزیر اعظم سے ٹویٹر بھارت کو کووڈ بحران سے ابھرنے میں مدد کرنے کا مطالبہ کیا
- ^ ا ب 'پاکستان بھارت کے ساتھ کھڑا ہے': کس طرح پاکستان انٹرنیٹ صارفین ایک ساتھ آکر بھارت کے لیے کووڈ 19 بحران کے دوران دست بہ دعا ہیں
- ↑ پاکستان بھارت کو راحت کے سامان کی پیش کش کر رہا ہے تاکہ کووڈ 19 کا مقابلہ کیا جا سکے
- ↑ پاکستان کا ایدھی فاؤنڈیشن 50 ایمبولنس کے ذریعے بھارت کی مدد کرنے کی پیش کش کر چکا ہے
- ↑ مودی مسلم رفاہی کاموں میں سرگرم شخص کی بھارت کو طبی سربراہی کی پیش کش پر خاموش ہیں[مردہ ربط]
- ↑ پاکستان 45 ملین میڈ ان انڈیا کووڈ 19 ویکسین گاوی ایلائنس کے تحت حاصل کرے گا
- ↑ کنگنا رناوت نے پاکستان کے لوگوں کی بھارت کے لیے حمایتی جذبے کو دلوں کو گرمانے والا قرار دیا: اچھا ہے کہ یہ لوگ محبت آمیز جواب دے رہے ہیں
- ↑ کنگنا رناوت کا ٹویٹر کھاتہ مستقلًا مسدود ہو گیا، ادا کارہ کے بقول میرے پاس کئی اور پلیٹ فارم موجود ہیں
- ↑ سات طریقے جن کی وجہ سے آپ اپنے پڑوسی کو اپنی طرح چاہ سکتے ہیں
- ↑ "کیوں پڑوسی کو چاہنا مشنوں کی دھڑکنوں کو چھوتا ہے"۔ 12 جون 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جون 2021
- ↑ حقوق العباد اور حقوق العباد كے بارے میں
- ↑ سورۃ البقرہ مفتی تقی عثمانی تفسیر آسان قرآن
- ↑ "اسلام میں پڑوسیوں کے حقوق"۔ 12 جون 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جون 2021
- ↑ دس طریقے جن سے آپ اپنے غیر مسلم پڑوسیوں تک پہنچ سکتے ہیں
- ↑ صدقات کی اقسام اور فوائد
- ↑ اسلام میں صدقہ
- ↑ بھارت میں مذہب سے تعلق سے کلیدی معلومات کی دریافت
- ↑ پچانوے فی صد مسلمان ہندوستانی ہونے پر فخر کرتے ہیں
- ↑ [https://thediplomat.com/2021/07/mingled-faiths-separate-peoples-pew-research-centers-new-survey-of-indian-religious-communities/ 95% Muslims in the country proud to be Indian: Pew survey گھل مل جانے والے عقائد، الگ تھلگ لوگ: پیو ریسرچ سینٹر کا نیا بھارتی فرقوں کا سروے]