شاہ سعید احمد رائپوری
شاہ سعید احمد رائپوری (جنوری 1926 – 26 ستمبر 2012[1][2][3]) ایک معروف پاکستانی عالمِ دین، صوفی، اور اسلامی نظریہ دان تھے جنہوں نے اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کی ترویج اور معاشرتی اصلاح کے لیے وقف کیا۔ وہ خانقاہِ رائپور کے مسند نشین اور معروف مفکر شاہ ولی اللہ دہلوی کے نظریات کے اہم نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ اسلامی نظریات کی توضیح، اصلاحی اور تربیتی سرگرمیوں میں گزرا، اور انہوں نے پاکستان اور بھارت میں متعدد تعلیمی و دینی ادارے قائم کیے۔
اسلامی علوم میں نمایاں خدمات شاہ سعید احمد رائپوری | |
---|---|
پیدائش | جنوری 1926 رائے پور، بھارت |
وفات | 26 ستمبر 2012 لاہور، پاکستان | (عمر 86 سال)
مدفن | لاہور، پاکستان |
شعبۂ زندگی | جنوبی ایشیا |
پیشہ | عالم دین، صوفی شیخ، مصنف، فلاسفر |
مذہب | اسلام |
فقہ | حنفی |
مکتب فکر | سنی |
شعبۂ عمل | شاہ ولی اللہ کے نظریات |
اہم نظریات | سماجی تبدیلی، وحدت انسانیت |
سلسلۂ تصوف | نقشبندی |
پیر/شیخ | عبدالقادر رائپوری، محمد الیاس کاندھلوی، محمد زکریا کاندھلوی |
شاہ سعید احمد رائپوری نے اپنی علمی اور روحانی تربیت میں شاہ عبد القادر رائپوری، مولانا محمد الیاس کاندھلوی اور مولانا محمد زکریا کاندھلوی جیسے جلیل القدر اساتذہ سے فیض پایا۔ ان کی رہنمائی میں آپ نے شاہ ولی اللہ کی فکر کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ جدید تناظر میں اس کو نوجوان نسل میں مقبول بنایا۔ وہ معتدل اسلامی فکر کے داعی تھے اور سیاسی معاملات میں عدم تشدد کی پالیسی پر عمل پیرا رہے۔ شاہ صاحب کی کوششوں کے نتیجے میں 2001ء میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ کا قیام عمل میں آیا، جو آج بھی پاکستان بھر میں اسلامی و اصلاحی تعلیمات کے فروغ میں مصروف عمل ہے۔
پس منظر
ترمیمشاہ سعید احمد رائپوری، شاہ عبد الرحیم رائپوری (1853ء-1919ء) کے بعد نقشبندی سلسلے کے چوتھے شیخ تھے۔ شاہ عبد الرحیم نے خانقاہ عالیہ رحیمیہ کو رائپور میں قائم کیا، جو بعد میں دیوبندی مسلک کا اہم مرکز بن گیا۔[4] شاہ عبد الرحیم کے بعد اس خانقاہ کی مسند پر شاہ سعید احمد رائپوری فائز ہوئے اور 2001ء میں لاہور میں ادارۂ رحیمیہ علومِ قرآنیہ کے نام سے اس خانقاہ کو منظم کیا، جس سے وابستہ نظام المدارس الرحیمیہ کا جال بھی کافی وسیع ہے، پاکستان بھر سے کئی مدارس اس کے ساتھ منسلک ہیں۔[4][5]
تعلیم و تربیت
ترمیمپانچ سال کی عمر میں والدہ کی وفات کے بعد آپ اپنے والد کے ہمراہ خانقاہِ عالیہ رحیمیہ رائے پور منتقل ہوئے۔ حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری نے آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت کی اور قرآنِ حکیم حفظ کروایا۔ آپ نے درسِ نظامی کی ابتدائی کتب اپنے والد اور دیگر معروف علما سے حاصل کیں، جن میں حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی اور مولانا منظور احمد شامل تھے۔[6] مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور میں اعلیٰ تعلیم کے دوران آپ نے شیخ الحدیث محمد زکریا کاندھلوی سے بخاری شریف، اور دیگر اساتذہ سے مختلف کتب حدیث پڑھیں۔[7]
خانقاہی و اصلاحی خدمات
ترمیمشاہ سعید احمد رائپوری نے اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کی ترویج اور خانقاہی سلسلے کی خدمت میں وقف کیا۔ رمضان المبارک 1367ھ (1947ء) میں حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری نے انہیں خانقاہ عالیہ رحیمیہ، رائے پور کا امامِ نماز مقرر کیا۔ اس کے بعد انہوں نے خانقاہی روایات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا اور اپنی رہنمائی میں نوجوانوں کو دینی شعور فراہم کرنے کے لیے سرگرم عمل رہے۔[8]
پاکستان بننے کے بعد، 1950ء میں شاہ سعید احمد رائپوری نے ہجرت کر کے سرگودھا میں قیام کیا اور یہاں سے اصلاحی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ انہوں نے اپنے مریدین اور طلبہ کو دینی و روحانی تربیت فراہم کرنے پر توجہ دی اور خاص طور پر نوجوانوں کو اسلام کی تعلیمات اور روحانی تربیت کی طرف مائل کیا۔ ان کے مطابق نوجوان نسل ہی معاشرتی تبدیلی کا بنیادی ستون ہے، اور ان کی اسلامی تعلیمات میں رہنمائی بہت ضروری ہے۔[9]
جمعیت طلبۂ اسلام کا قیام
ترمیم1967ء میں شاہ صاحب نے سرگودھا میں جمعیت طلبۂ اسلام کی بنیاد رکھی۔ اس جماعت کا مقصد نوجوانوں میں اسلامی تعلیمات کے فروغ کے ساتھ ساتھ دینی و اخلاقی تربیت دینا تھا۔ جمعیت طلبۂ اسلام نے نوجوانوں کے اندر اسلامی بیداری پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور انہیں دینداری، اخلاقیات، اور روحانی تربیت کی طرف راغب کیا۔ اس جماعت کے ذریعے شاہ سعید احمد رائپوری نے نوجوانوں کو اسلامی عقائد و نظریات کی تعلیم دی اور انہیں سماجی و سیاسی معاملات میں اسلامی اصولوں پر مبنی رہنمائی فراہم کی۔[10]
نوجوانوں کی تربیت اور دینی شعور
ترمیمشاہ سعید احمد رائپوری نے ہمیشہ نوجوانوں کو اپنی ترجیحات میں رکھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ نوجوان معاشرے کا اثاثہ ہیں، اور ان کی دینی و اخلاقی تربیت سے ہی مستقبل کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے نوجوانوں کو اسلامی تعلیمات اور خانقاہی تربیت کے ذریعے انسانیت کی خدمت کرنے کا درس دیا اور انہیں اسلامی اخلاقیات کا پابند بنانے کی کوشش کی۔ ان کی محافل میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی، جہاں انہیں تصوف، شریعت، اور اسلامی اصولوں کی تربیت دی جاتی۔[11]
خانقاہ عالیہ رحیمیہ کا احیاء
ترمیمشاہ صاحب نے خانقاہ عالیہ رحیمیہ، رائے پور کے احیاء میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے اس خانقاہ کو ایک روحانی و تعلیمی مرکز کے طور پر فعال کیا اور یہاں آنے والے مریدین اور طلبہ کی دینی و اخلاقی تربیت کو فروغ دیا۔ انہوں نے خانقاہ میں قیام کرنے والے افراد کو نہ صرف نماز، روزہ اور دیگر عبادات کی تربیت دی بلکہ انہیں اسلامی اخلاقیات، حقوق العباد، اور انسانیت کی خدمت کا شعور بھی دیا۔ ان کی زندگی بھر کی کوششوں کا مقصد انسانیت کے لیے بھلائی اور اسلامی معاشرت کی تعمیر تھا۔[12]
شاہ سعید احمد رائپوری کی یہ خدمات نہ صرف ان کی خانقاہی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ ان کی اسلامی تحریکات میں بھرپور کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کے دینی و اصلاحی نظریات آج بھی ان کے پیروکاروں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں اور ان کے قائم کردہ ادارے اور تحریکیں ان کے نظریات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔[13]
ادارۂ رحیمیہ علومِ قرآنیہ
ترمیم14 ستمبر 2001ء کو لاہور میں ادارۂ رحیمیہ علومِ قرآنیہ قائم کیا، جس کا مقصد نوجوانوں میں قرآنی علوم کے فہم و شعور کو بیدار کرنا تھا۔[14] اس کے بعد ادارے کے مختلف کیمپس کراچی، سکھر، ملتان اور راولپنڈی میں بھی قائم کیے گئے۔ ادارے کے تحت نظام المدارس الرحیمیہ پاکستان بھر میں کئی مدارس کے ساتھ منسلک ہے اور طلبہ کو دینی و عصری علوم کی تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔[15]
سیاسی اور سماجی خدمات
ترمیم1977ء میں جمعیت علمائے اسلام کے جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کے بعد، شاہ سعید احمد رائپوری نے جمعیت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ ان کے لیے یہ فیصلہ اس وقت مزید اہم ہو گیا جب پاکستان میں وہابی جہادی آئیڈیالوجی پروان چڑھ رہی تھی اور متعدد جہادی جماعتیں اسلامی تعلیمات کی آڑ میں پرائیویٹ جہاد کو فروغ دے رہی تھیں۔ شاہ سعید احمد رائپوری کا ماننا تھا کہ اسلام امن، عدل اور اجتماعی بہتری کی تعلیم دیتا ہے، اور کسی بھی نجی گروہ یا جماعت کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے جہاد کا اعلان کرے۔ ان کے نزدیک، جہاد کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے، اور کوئی بھی غیر ریاستی گروہ "پرائیویٹ جہاد" کے نام پر اسلام کی تعلیمات کا استحصال نہیں کر سکتا۔[16]
افغان جنگ کے دوران پاکستان میں وہابی جہادی آئیڈیالوجی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، اور کئی جہادی جماعتیں پیدا ہوئیں جو غیر ریاستی عسکریت پسندی کو اسلام کے نام پر جائز قرار دینے لگیں۔ شاہ سعید احمد رائپوری نے ان جماعتوں کے نظریات کو سختی سے مسترد کیا۔ ان کے نزدیک یہ گروہ دین کے نام پر نوجوانوں کو عسکریت پسندی میں ملوث کر رہے تھے، جو اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی تھی۔ ان کے مطابق، یہ "پرائیویٹ جہاد" کی تعریف اسلام کے حقیقی اصولوں کے خلاف تھی اور دین کے نام پر سیاسی مقاصد کے حصول کا ایک ذریعہ تھی۔[17]
کشمیر میں عسکریت پسندی کی مخالفت
ترمیمکشمیر اور افغانستان میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کے حوالے سے شاہ صاحب کی پوزیشن بالکل واضح تھی۔ انہوں نے کہا: "پاکستان مذاکرات سے حاصل کیا اور کشمیر کو جنگ سے آزاد کرانا چاہتے ہو، کچھ خدا کا خوف کرو!"[18] ان کے نزدیک کشمیر کے مسئلے کا حل عسکریت پسندی میں نہیں بلکہ مذاکرات اور سفارت کاری میں تھا۔ شاہ سعید احمد رائپوری کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ جہادی جماعتیں اسلام کو غلط رنگ میں پیش کر رہی ہیں، اور یہ نجی عسکریت پسندی اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔
عدم تشدد اور اصلاحی تعلیمات
ترمیمشاہ صاحب نے ہمیشہ اپنی تعلیمات میں عدم تشدد اور معاشرتی اصلاح پر زور دیا۔ وہ یہ باور کراتے رہے کہ اسلام کا اصل پیغام امن و سلامتی ہے، اور کسی بھی قسم کی عسکریت پسندی کو اس سے جوڑنا اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔ ان کے مطابق، نجی عسکریت اور جہادی جماعتوں کے ذریعے پرائیویٹ جہاد کا فروغ نہ صرف اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ معاشرتی امن و امان کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ ہے۔[19]
شاہ سعید احمد رائپوری کے یہ خیالات ان کو اس وہابی جہادی آئیڈیالوجی اور عسکریت پسند حلقوں سے دور رکھتے تھے۔ ان کی عدم تشدد اور اصلاحی تعلیمات آج بھی ان کے پیروکاروں کے لیے مشعل راہ ہیں، اور ان کے نظریات نے کئی افراد کو عسکریت پسندی سے دور رہنے کی ترغیب دی۔ ان کی تعلیمات اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ اسلام میں جہاد ریاست کی نگرانی میں ہونا چاہیے اور اس کا مقصد صرف امن اور انسانیت کی فلاح ہونا چاہیے، نہ کہ سیاسی مفادات یا تشدد کا فروغ۔[20]
اقوال
ترمیمشاہ سعید احمد رائپوری ایک صوفی، عالم اور مفکر تھے جو اپنے ترقی پسند اور انقلابی نظریات کے لیے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سماجی انصاف، انسانی حقوق اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی تعلیم دی۔ ان کے چند مشہور اقوال اور ان کے افکار کے زیلی عنوانات درج ذیل ہیں:[21]
ظلم کے خلاف جدوجہد
ترمیم"اگر حکمران نااہل ہوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہو، تو انقلاب کے لیے جدوجہد کرو۔" شاہ سعید احمد رائپوری کا ماننا تھا کہ اگر حکمران اپنی ذمہ داریوں میں ناکام ہوں اور عوام پر ظلم ڈھا رہے ہوں، تو عوام پر یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ان کے خلاف آواز اٹھائیں اور معاشرتی انصاف کے قیام کے لیے کوشاں رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حقیقی اسلامی تعلیمات میں ظلم کو برداشت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
مظلوم کی حمایت اور سماجی انصاف
ترمیم"اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکم دیا کہ مظلوم عوام کی مدد کرنے کے لیے معاشرے سے ظلم کا خاتمہ کرو۔" رائپوری صاحب نے اسلامی تعلیمات کے مطابق لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ معاشرے میں ظلم و ستم کے خاتمے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کی پیروی کی جائے۔ ان کا مؤقف تھا کہ اسلامی معاشرت کا بنیادی مقصد مظلوموں کو انصاف فراہم کرنا اور ظالموں کو ان کے ظلم سے روکنا ہے۔
قرآن کی روح اور مقصد
ترمیم"قرآن مجید کا مقصد اور نظریہ اللہ کی عبادت کرنا اور اس معاشرے سے ظلم و ستم کا خاتمہ کرنا ہے۔"
شاہ صاحب کے نزدیک قرآن مجید کی تعلیمات محض عبادات تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس کا اصل مقصد ایک منصفانہ اور پُرامن معاشرے کا قیام ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ قرآن کے احکامات صرف روحانی ترقی نہیں بلکہ معاشرتی بہتری کے لیے بھی ہیں، جس میں غربت کا خاتمہ، عدل و انصاف کا قیام اور انسانی حقوق کا تحفظ شامل ہے۔[22]
حقوق العباد اور انسانیت کا پیغام
ترمیم"اللہ کا کہنا ہے کہ نماز میرا حق ہے اور میں اپنے حقوق معاف کر سکتا ہوں؛ مگر انسانی حقوق کو پامال کرنا ناقابلِ معافی ہے۔"
یہ قول شاہ سعید احمد رائپوری کے اس مؤقف کی عکاسی کرتا ہے کہ انسانی حقوق کی ادائیگی اسلام کا بنیادی حصہ ہے۔ ان کے نزدیک نماز اور عبادات اللہ کے حقوق ہیں، لیکن انسانی حقوق کی خلاف ورزی ناقابل معافی ہے کیونکہ اسلام انسانوں کے حقوق کی پاسداری پر زور دیتا ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اسلام کا حقیقی پیغام انسانیت اور اخوت ہے۔
معاشرتی تبدیلی اور اسلامی انقلاب
ترمیمشاہ سعید احمد رائپوری کا ایک اور اہم پیغام یہ تھا کہ معاشرتی تبدیلی اسلام کا بنیادی حصہ ہے۔ وہ لوگوں کو یہ باور کراتے تھے کہ اسلامی تعلیمات کا مقصد معاشرت میں ایک مثبت تبدیلی لانا ہے جس کے ذریعے ایک عادلانہ اور پُرامن معاشرہ قائم کیا جائے۔ ان کے نزدیک اسلامی انقلاب کا مطلب نظام میں ایسی اصلاحات لانا ہے جن سے عدل و انصاف، مساوات اور اخوت کا فروغ ہو۔
ان کے اقوال اور نظریات آج بھی ان کے پیروکاروں کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں اور ان کی تعلیمات کے ذریعے معاشرتی بہتری اور اسلامی اصولوں پر مبنی سماجی اصلاحات کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔
جانشین و خلفاء
ترمیمنمبر | نام | تاریخ پیدائش/وفات | ملک | کیفیت |
---|---|---|---|---|
1 | مولانا منظور حسن | 1930 - 2010 | پاکستان | ساہیوال، پاکستان میں معروف عالم دین اور شاہ سعید احمد رائپوری کے قریبی ساتھی۔[23] |
2 | مولانا حسین احمد علوی | 1932 - 2009 | پاکستان | چشتیاں، پاکستان میں دین کی خدمت میں نمایاں کردار۔[24] |
3 | راؤ عبد الرؤف خان | 1935 - 2008 | پاکستان | ہارون آباد، پاکستان میں دینی اور اصلاحی سرگرمیوں میں متحرک۔[25] |
4 | مفتی محمد طیّب | 1940 - 2007 | پاکستان | پاکستان میں دینی خدمات اور تدریسی میدان میں نمایاں حیثیت۔[26] |
5 | مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری | 1952 - موجودہ | پاکستان | لاہور، پاکستان میں مقیم۔ ادارۂ رحیمیہ علومِ قرآنیہ کے ڈائریکٹر اور خانقاہی سلسلے کے مسند نشین۔[27] |
6 | مفتی سعید الرحمن | 1960 - موجودہ | پاکستان | ملتان میں مقیم، دینی تعلیمات کی ترویج میں فعال۔[28] |
7 | مفتی عبد المتین نعمانی | 1965 - موجودہ | پاکستان | بورے والا میں مقیم، اصلاح و تربیت کی سرگرمیوں میں مشغول۔[29] |
8 | مفتی عبد الغنی قاسمی | 1958 - موجودہ | پاکستان | لاہور میں خدمات انجام دے رہے ہیں، نوجوانوں میں دینی شعور کے فروغ میں کوشاں۔[30] |
9 | مفتی عبد القدیر | 1955 - موجودہ | پاکستان | چشتیاں میں دینی تعلیمات اور خانقاہی روایات کے فروغ میں مصروف۔[31] |
10 | مفتی محمد مختار حسن | 1962 - موجودہ | پاکستان | نوشہرہ میں مقیم، نوجوانوں میں دینی و روحانی تربیت فراہم کرتے ہیں۔[32] |
11 | مولانا محمد الیاس میواتی | 1960 - موجودہ | بھارت | میوات، بھارت میں دینی خدمات اور تربیتی امور میں مصروف۔[33] |
12 | مفتی عبد السلام | 1968 - موجودہ | بھارت | مرادآباد، بھارت میں اسلامی تعلیمات کی تبلیغ میں مشغول۔[34] |
13 | مولانا محمد اختر | 1959 - موجودہ | بھارت | سہارنپور، بھارت میں خانقاہی سلسلے کو فروغ دے رہے ہیں۔[35] |
14 | مولانا محمد افضل | 1961 - موجودہ | سعودی عرب | سعودی عرب میں اسلامی تعلیمات اور روحانی تربیت کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔[36] |
15 | مولانا محمد اشرف عاطف | 1965 - موجودہ | سعودی عرب | سعودی عرب میں مقیم، دینی و روحانی تربیت کے کاموں میں مشغول۔[37] |
16 | مولانا صاحبزادہ سید رشید احمد | 1958 - موجودہ | پاکستان | ڈیرہ اسماعیل خان میں خانقاہی روایات کے فروغ میں متحرک۔[38] |
17 | سید مطلوب علی زیدی | 1963 - موجودہ | پاکستان | راولپنڈی میں نوجوانوں کی دینی تربیت میں مصروف عمل۔[39] |
18 | ڈاکٹر لیاقت علی شاہ | 1965 - موجودہ | پاکستان | سکھر میں قرآنی علوم کی تعلیم اور نوجوانوں کی تربیت میں سرگرم۔[40] |
19 | مولانا قاضی محمد یوسف | 1960 - موجودہ | پاکستان | حسن ابدال میں دینی تعلیمات اور اصلاحی کاموں میں فعال۔[41] |
20 | ڈاکٹر مولانا تاج افسر | 1967 - موجودہ | پاکستان | اسلام آباد میں دینی علوم اور تربیتی پروگرامز میں سرگرم۔[42] |
21 | مولانا محمد ناصر عبد العزیز | 1970 - موجودہ | پاکستان | جھنگ میں دینی تعلیمات کے فروغ میں فعال۔[43] |
22 | مولانا عبد اللہ عابد سندھی | 1962 - موجودہ | پاکستان | شکارپور میں اسلامی تعلیمات اور روحانی تربیت فراہم کر رہے ہیں۔[44] |
23 | صاحبزادہ عبد القادر دینپوری | 1965 - موجودہ | پاکستان | بہاولنگر میں دینی و اصلاحی خدمات انجام دے رہے ہیں۔[45] |
24 | مولانا محمد اشرف انّڑ | 1969 - موجودہ | پاکستان | حیدرآباد میں دینی و روحانی تربیت میں سرگرم۔[46] |
25 | حاجی محمد بلال بلوچ | 1972 - موجودہ | پاکستان | قاضی احمد میں خانقاہی روایات اور اصلاحی کاموں میں مصروف۔[47] |
26 | مفتی محمد انور شاہ | 1970 - موجودہ | پاکستان | کوئٹہ میں اسلامی تعلیمات اور روحانی تربیت کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔[48] |
27 | حافظ ظفر حیات | 1971 - موجودہ | پاکستان | مری میں دینی خدمات اور خانقاہی تربیت کے فروغ میں سرگرم۔[49] |
28 | حاجی محمد سرور جمیل | 1968 - موجودہ | پاکستان | لاہور میں نوجوانوں کی دینی تربیت اور روحانی رہنمائی میں فعال۔[50] |
29 | حاجی محمد یوسف جاوید | 1964 - موجودہ | پاکستان | عارف والا میں دینی تعلیمات کی ترویج اور اصلاحی کاموں میں مصروف۔[51] |
30 | حاجی یعقوب علی | 1966 - موجودہ | پاکستان | ہارون آباد میں اسلامی تعلیمات اور روحانی رہنمائی کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔[52] |
حوالہ جات
ترمیم- ↑ اعلانِ غم
- ↑ اعلانِ غم
- ↑ "شاہ سعید احمد رائپوری اس دنیا سے رخصت کر گئے"۔ دنیا نیوز۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2012
- ^ ا ب طاہر کامران (2006)۔ "پنجاب میں 'دیوبندی' اسلام کا ارتقاء اور اثرات" (PDF)۔ مؤرخ: ایک تحقیقی مجلہ۔ 3: 28–50۔ 17 نومبر 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2012
- ↑ مفتی عبدالخالق آزاد (2006)۔ مشائخِ رائپور: خانقاہ عالیہ رحیمیہ اور مشائخِ رائپور کا تعارف۔ لاہور: دارالتحقیق والاشاعت۔ صفحہ: 198–199
- ↑ ماہنامہ رحیمیہ لاہور ستمبر اکتوبر 2016
- ↑ مفتی عبدالخالق آزاد (2006)۔ مشائخِ رائپور: خانقاہ عالیہ رحیمیہ اور مشائخِ رائپور کا تعارف۔ لاہور: دارالتحقیق والاشاعت۔ صفحہ: 198–199
- ↑ طاہر کامران (2006)۔ "پنجاب میں 'دیوبندی' اسلام کا ارتقاء اور اثرات" (PDF)۔ مؤرخ: ایک تحقیقی مجلہ۔ 3: 28–50۔ 17 نومبر 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2012
- ↑ مفتی عبدالخالق آزاد (2006)۔ مشائخِ رائپور: خانقاہ عالیہ رحیمیہ اور مشائخِ رائپور کا تعارف۔ لاہور: دارالتحقیق والاشاعت۔ صفحہ: 198–199
- ↑ "شاہ سعید احمد رائپوری کی خدمات"۔ دنیا نیوز۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2012
- ↑ "شاہ سعید احمد رائپوری اور نوجوانوں کی تربیت"۔ 30 اکتوبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اکتوبر 2012
- ↑ مفتی عبدالخالق آزاد (2006)۔ مشائخِ رائپور: خانقاہ عالیہ رحیمیہ اور مشائخِ رائپور کا تعارف۔ لاہور: دارالتحقیق والاشاعت۔ صفحہ: 198–199
- ↑ "شاہ سعید احمد رائپوری کی دینی و اصلاحی خدمات"۔ ڈان نیوز۔ 27 جون 2005۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2012
- ↑ "شاہ ولی اللہ کے خیالات پر سیمینار"۔ ڈان نیوز۔ 27 جون 2005۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2012
- ↑ ماہنامہ رحیمیہ لاہور
- ↑ طاہر کامران (2006)۔ "پنجاب میں 'دیوبندی' اسلام کا ارتقاء اور اثرات" (PDF)۔ مؤرخ: ایک تحقیقی مجلہ۔ 3: 28–50۔ 17 نومبر 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2012
- ↑ "شاہ سعید احمد رائے پوری کی خدمات"۔ دنیا نیوز۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2012
- ↑ "شاہ سعید احمد رائے پوری اس دنیا سے رخصت"۔ 20 اپریل 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 دسمبر 2012
- ↑ مفتی عبدالخالق آزاد (2006)۔ "مشائخِ رائپور: خانقاہ عالیہ رحیمیہ اور مشائخِ رائپور کا تعارف"۔ لاہور: دارالتحقیق والاشاعت: 198–199
- ↑ مفتی عبدالخالق آزاد (2006)۔ مشائخِ رائپور: خانقاہ عالیہ رحیمیہ اور مشائخِ رائپور کا تعارف۔ لاہور: دارالتحقیق والاشاعت۔ صفحہ: 198–199
- ↑ "شاہ سعید احمد رائے پوری اس دنیا سے رخصت"۔ 20 اپریل 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 دسمبر 2012
- ↑ "شاہ سعید احمد رائے پوری کے مشہور اقوال"۔ 20 اپریل 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 دسمبر 2012
- ↑ ماہنامہ رحیمیہ لاہور
- ↑ ڈان نیوز
- ↑ ماہنامہ رحیمیہ لاہور
- ↑ criticalppp.com
- ↑ ماہنامہ رحیمیہ لاہور ستمبر اکتوبر 2016
- ↑ اعلانِ غم
- ↑ "پنجاب میں 'دیوبندی' اسلام کا ارتقاء اور اثرات" (PDF)۔ 17 نومبر 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2012
- ↑ دنیا نیوز
- ↑ criticalppp.com
- ↑ ماہنامہ رحیمیہ لاہور
- ↑ اعلانِ غم
- ↑ ڈان نیوز
- ↑ ماہنامہ رحیمیہ لاہور
- ↑ criticalppp.com
- ↑ ماہنامہ رحیمیہ لاہور
- ↑ ماہنامہ رحیمیہ لاہور ستمبر اکتوبر 2016
- ↑ ڈان نیوز
- ↑ "پنجاب میں 'دیوبندی' اسلام کا ارتقاء اور اثرات" (PDF)۔ 17 نومبر 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2012
- ↑ دنیا نیوز
- ↑ ماہنامہ رحیمیہ لاہور
- ↑ criticalppp.com
- ↑ ڈان نیوز
- ↑ ماہنامہ رحیمیہ لاہور
- ↑ اعلانِ غم
- ↑ criticalppp.com
- ↑ ماہنامہ رحیمیہ لاہور
- ↑ دنیا نیوز
- ↑ ڈان نیوز
- ↑ ماہنامہ رحیمیہ لاہور
- ↑ criticalppp.com