شہرت بخاری
شہرت بخاری (پیدائش: 2 دسمبر، 1925ء - وفات: 11 اکتوبر، 2001ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر اور ماہرِ تعلیم تھے۔
شہرت بخاری | |
---|---|
پیدائش | سید محمد انور 2 دسمبر 1925 ء لاہور، برطانوی ہندوستان (موجودہ پاکستان) |
وفات | 11 اکتوبر 2001 ء لاہور، پاکستان |
آخری آرام گاہ | میانی صاحب قبرستان، لاہور |
قلمی نام | شہرت بخاری |
پیشہ | شاعر، ماہرِ تعلیم |
زبان | اردو |
نسل | پنجابی |
شہریت | پاکستانی |
تعلیم | ایم اے (اردو)،ایم اے (فارسی) |
اصناف | شاعری، آپ بیتی |
ادبی تحریک | حلقہ ارباب ذوق |
نمایاں کام | طاق ابرو دیوار گریہ کھوئے ہوؤں کی جستجو |
پیدائش
ترمیمشہرت بخاری 2 دسمبر 1925ء کو لاہور برطانوی ہندوستان (موجودہ پاکستان) میں پیدا ہوئے[1][2][3]۔ ان کا اصل نام سید محمد انور تھا۔
تعلیم
ترمیمانھوں نے نمایاں طور پر اردو اور فارسی میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔
عملی زندگی
ترمیمحصول تعلیم سے فارغ ہوکر کچھ عرصے مجلس زبان دفتری میں ملازم رہے۔ بعد ازاں درس وتدریس کو ذریعۂ معاش بنایا۔ اسلامیہ کالج لاہور میں شعبۂ اردو وفارسی کے صدر رہے۔[3]
شہرت بخاری کی پاکستان پیپلز پارٹی سیاسی وابستگی رہی اور سیاسی جدوجہد میں عملی حصہ لینے کی پاداش میں انھیں کچھ عرصے تک جلا وطنی بھی جھیلنی پڑی۔ وہ اقبال اکیڈمی پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
شعر و ادب
ترمیمانھوں نے ایک طویل عرصہ حلقہ ارباب ذوق سے وابستگی میں گزارا۔ احسان دانش سے انھیں تلمذ حاصل تھا۔ ان کے شعری مجموعے طاق ابرو، دیوارِ گریہ، شب آئینہ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں جبکہ ان کی خود نوشت سوانح عمری کھوئے ہوؤں کی جستجو کے نام سے اشاعت پزیر ہو چکی ہے۔[2]
تصانیف
ترمیمشاعری
ترمیم- طاق ابرو
- دیوارِ گریہ
- شبِ آئینہ
- کلیاتِ شہرت بخاری
آپ بیتی
ترمیم- کھوئے ہوؤں کی جستجو
نمونۂ کلام
ترمیمغزل
ہر چند سہارا ہے ترے پیار کا دل کو | رہتا ہے مگر ایک عجب خوف سا دل کو | |
وہ خواب کہ دیکھا نہ کبھی لے اڑا نیندیں | وہ درد کہ اٹھا نہ کبھی کھا گیا دل کو | |
یا سانس کا لینا بھی گزر جانا ہے جی سے | یا معرکۂ عشق بھی اک کھیل تھا دل کو | |
وہ آئیں تو حیران وہ جائیں تو پریشان | یارب کوئی سمجھائے یہ کیا ہو گیا دل کو | |
سونے نہ دیا شورش ہستی نے گھڑی بھر | میں لاکھ ترا ذکر سناتا رہا دل کو | |
روداد محبت نہ رہی اس کے سوا یاد | اک اجنبی آیا تھا اُڑا لے گیا دل کو | |
جز گرد خموشی نہیں شہرت یہاں کچھ بھی | کس منزل آباد میں پہنچا لیا دل کو[4] |
غزل
دل اس سے لگا جس سے روٹھا بھی نہیں جاتا | کام اس سے پڑا جس کو چھوڑا بھی نہیں جاتا | |
دن رات تڑپتا ہوں اب جس کی جدائی میں | وہ سامنے آئے تو دیکھا بھی نہیں جاتا | |
منزل پہ پہنچنے کی امید بندھے کیسے | پاؤں بھی نہیں اٹھتے رستہ بھی نہیں جاتا | |
یہ کون سی بستی ہے یہ کون سا موسم ہے | سوچا بھی نہیں جاتا بولا بھی نہیں جاتا | |
انگاروں کی منزل میں زنجیر بپا ہیں ہم | ٹھہرا بھی نہیں جاتا بھاگا بھی نہیں جاتا | |
ہر حال میں اتنے بھی بے بس نہ ہوئے تھے ہم | دلدل بھی نہیں لیکن نکلا بھی نہیں جاتا | |
کافر ہوں جو حسرت ہو جینے کی مگر شہرت | اس حال میں یاروں کو چھوڑا بھی نہیں جاتا[5] |
غزل
جانے کس کس کی توجہ کا تماشا دیکھا | توڑ کر آئینہ جب اپنا ہی چہرا دیکھا | |
آ لگے گور کنارے تو ملا مژدۂ وصل | رات ڈوبی تو ابھرتا ہوا تارا دیکھا | |
ایک آنسو میں ہوئے غرق دو عالم کے ستم | یہ سمندر تو تیرے غم سے بھی گہرا دیکھا | |
عشق کے داغ ہوئے محو اس آشوب میں سب | ٹمٹماتا سا چراغ رخ زیبا دیکھا | |
کوئی اس خواب کی تعبیر بدل دے یارب | گھر میں بہتا ہوا اک خون کا دریا دیکھا | |
کھو گئے بھیڑ میں دنیا کی پر اب تک شہرت | سنسنا اٹھا ہے جی جب کوئی ان سا دیکھا |
وفات
ترمیمشہرت بخاری 11 اکتوبر، 2001ء کو لاہور، پاکستان وفات پا گئے اور لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔[1][2][3]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب شہرت بخاری، سوانح و تصانیف ویب، پاکستان
- ^ ا ب پ ص 883، پاکستان کرونیکل، عقیل عباس جعفری، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء
- ^ ا ب پ شہرت بخاری، ریختہ ویب بھارت
- ↑ ہر چند سہارا ہے تیرے پیا کا (غزل)، شہرت بخاری، ریختہ ویب بھارت
- ↑ دل اس سے لگا جس سے روٹھا بھی نہیں جاتا (غزل)، شہرت بخاری، ریختہ ویب بھارت