شہزاد نیر
شہزاد نیر یا میجر شہزاد نیر (پیدائش: 29 مئی 1973ء) اردو زبان کے جدید شعرا میں مشہور و ممتاز شاعر ہیں۔علاوہ ازیں وہ پاک فوج میں بھی بطور میجر اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ 2006ء سے تا حال اُن کے چار شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں جو اُن کی وجہ شہرت ہیں۔ شہزاد نیر کی شاعری میں جدید موضوعات اور نئے رجحانات ملتے ہیں جو قدیمی اصناف سے ہٹ کر ہیں۔ شہزاد نیر بطور محقق اور نقاد کے بھی اپنی حیثیت میں منفرد ہیں۔ وہ پاکستان کے اُن کم شعرا میں سے ایک ہیں جو بیک وقت محقق اور نقاد بھی ہیں۔
شہزاد نیر | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 29 مئی 1973ء (51 سال) گوندلانوالہ ، گوجرانوالہ |
شہریت | پاکستان |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ پنجاب لاہور |
تعلیمی اسناد | ایم اے اردو ، ماسٹر آف سائنس ، ڈپلومہ فارسی (ادب) |
پیشہ | فوجی افسر ، شاعر ، محقق ، نقاد |
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی ، اردو ، فارسی ، عربی |
کارہائے نمایاں | برفاب ، چاک سے اترے وجود ، خوابشار ، گرہ کھلنے تک |
عسکری خدمات | |
عہدہ | میجر |
درستی - ترمیم |
نام و پیدائش
ترمیمشہزاد نیر کا پیدائشی نام محمد شہزاد ہے۔ وہ 29 مئی 1973ء کو ضلع گوجرانوالہ کے ایک گاؤں گوندلانوالہ میں پیدا ہوئے۔
تعلیم
ترمیمابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں سے میٹرک کیا ۔ پھر ایف سی کالج لاہور سے ایف ایس سی کرنے کے بعد عسکری ملازمت اختیار کر لی اور مختلف مقامات پر تعینات رہے۔ آپ نے ایم اے اردو فرسٹ ڈویژن میں کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی، فارسی زبان ِادب میں ڈپلوما حاصل کیا آپ کو عربی زبان سے بھی واقفیت ہے۔ اب ایم فل ابلاغ عامہ کر رہے ہیں۔[1]
شاعری
ترمیمساتویں میں پڑھتے تھے کہ شعر کہنے لگ گئے۔ ابتدا میں علامہ سید ماجد الباقری سے اصلاح لی۔ ان کی وفات کے بعد جان کاشمیری سے مشورہ سخن کیا۔ نصاب میں شامل منظومات سے متاثر ہوکر شاعری کی جانب آ گئے۔ پہلا شعر یہ ہے۔
جو نخوت سے میری گلی میں وہ آیا | ||
تو زخموں کا جنگل ہرا ہو گیا ہے |
آتش، فانی بدایونی، فیض، ندیم، منیر نیازی، راشد، مجید امجد سے متاثر ہیں۔ متعدد ادبی جرائد مثلاً فنون، اوراق، معاصر وغیرہ میں آپ کا کلام شائع ہوتا رھا،آپ نے ملکی و غیر ملکی ادب کے پُر شوق قاری ہیں،برطانیہ، فرانس، سعودی عریبیہ اور متحدہ عرب امارات کے یاد گار بین الاقوامی مشاعروں میں شرکت کی۔ ادبی تنقید اور لسانیات میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں،ادبی تنقید پر آپ کے متعدد مقالے شائع ہو چکے ہیں ۔
تصنیفات
ترمیم3 شعری تصانیف ہیں۔
- "برفاب" جسے ’’پین انٹرنیشنل ایوارڈ " انگلینڈ سے مل چکا ہے۔ شاہکار نظموں پر مشتمل پہلا مجموعہ کلام "برفاب" 2006ء میں شائع ہوا جس نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے چھ سالوں میں "برفاب" کے 3 ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اور اس شاندار مجموعہ کلام پر درجنوں مقالے لکھے جا چکے ہیں۔
- "چاک سے اترے وجود" جسے "پروین شاکر ایوارڈ" مل چکا ہے۔ آپ کا دوسرا مجموعہ کلام 2009ء میں منظر ِعام پر آیا جو نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے۔
- ’’گرہ کھلنے تک‘‘ کو اسلام آباد کی ایک ادبی تنظیم نے ایوارڈ دیا۔
اعزازات
ترمیم- 1 : PEN International Award
- 2 : صوفی غلام مصطفٰی تبسم ایوارڈ
- 3 : فیض امن ایوارڈ
- 4 : ایوان ِ اقبال ایوارڈ دُبئی
- 5 : پروین شاکر عکس خوشبو ایوارڈ 2009
- اس کے علاوہ بہت ساری ادبی تنظیموں کی طرف سے لاتعداد اعزازی شیلڈز اور ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے۔[2]
نمونہ کلام
ترمیمﺁﭖ ﺩﻝ ﺟﻮﺋﯽ ﮐﯽ ﺯﺣﻤﺖ ﻧﮧ ﺍﭨﮭﺎﺋﯿﮟ ، ﺟﺎﺋﯿﮟ | ﺭﻭ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﮞ ﻧﮧ ﺍﺏﺍﻭﺭ ﺭُﻻﺋﯿﮟ ، ﺟﺎﺋﯿﮟ | |
مجھ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﻣﻠﻨﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﮞ | ﺁﭖ ﺁ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ مجھ ﺳﮯ ﻣﻼﺋﯿﮟ ، ﺟﺎﺋﯿﮟ | |
ﺣﺠﺮہء ﭼﺸﻢ ﺗﻮ ﺍﻭﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮱ ﺑﻨﺪ ﮐﯿﺎ | ﺁﭖ ﺗﻮ ﻣﺎﻟﮏ ﻭ ﻣﺨﺘﺎﺭ ﮨﯿﮟﺁﺋﯿﮟ ﺟﺎﺋﯿﮟ | |
ﺍﺗﻨﺎ ﺳﺎﻧﺴﻮﮞ ﺳﮯ ﺧﻔﺎ ﮨﻮﮞﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﻮﮞ ﮔﺎ | ﻟﻮﮒ ﺭﻭ ﺭﻭ ﮐﮯ ﻧﮧ ﺍﺏ مجھﮐﻮ ﻣﻨﺎﺋﯿﮟ ﺟﺎﺋﯿﮟ | |
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺗﻮ ﻧﮯ ﺩﮐﺎﮞ ﮐﮭﻮﻝﮐﮯ لکھ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ | ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﻧﺞﺍﭨﮭﺎﺋﯿﮟ ﺟﺎﺋﯿﮟ | |
آپ پھر لے کے چلے آئے ہیں دین و دنیا | اب مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے،جائیں جائیں | |
ﮨﺮ ﻃﺮﻑ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﭼﮭﯿﻨﭩﮯﮨﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ | ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﻭﺭﺩ ﮐﺮﺍﺋﯿﮟ ﮐﮧﺑﻼﺋﯿﮟ ﺟﺎﺋﯿﮟ | |
ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺩﺭﻣﺎﻥ _ﻣﺤﺒﺖ ﻟﮯ ﮐﺮ | ﺁﭖ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﯿﮟ، کوئی ﺯﺧﻢ ﻟﮕﺎﺋﯿﮟ، ﺟﺎﺋﯿﮟ | |
ﺁﻣﺪ ﻭ ﺭﻓﺖ ﮐﻮ ﺩﻧﯿﺎئیں ﭘﮍﯼ ہیں ﻧﯿﺮ | ﺩﻝ ﮐﯽ ﺑﺴﺘﯽ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺑﺎﺯﺍﺭﺑﻨﺎﺋﯿﮟ،ﺟﺎﺋﯿﮟ۔ |
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ""گرہ کھلنے تک" کے شاعر شہزاد نیر کا انٹرویو - تفکر ڈاٹ کام"۔ 25 اپریل 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2017
- ↑ ShahzadNayyar.Com