شیاما

بھارتی فلمی اداکارہ

شیاما (خورشید اختر؛ ولادت: 7 جون 1935ء، لاہور - وفات: 14 نومبر 2017ء) ایک بھارتی فلمی اداکارہ تھیں۔ شیاما 1950ء اور 1960ء کی دہائی کی مشہور ترین ہندوستانی اداکارہ تھیں۔ شیاما نے متعدد فلموں میں اپنی اداکاری کے سبب شہرت پائی جن میں آر پار، برسات کی رات، ترانہ (1951ء) شامل ہیں۔ اِس کے علاوہ شیاما نے ساون بھادوں، دل دیا درد لیا، ملن، شاردا میں بہترین ایوارڈ حاصل کیے۔ شیاما اُس عہد میں ہدایتکاروں اور فلمسازوں کے لیے اور نئی موسیقی کی آمد کے لیے بہترین انتخاب تھیں۔ شیاما جب 14 سال کی تھیں تب انھوں نے فلمی دنیا میں قدم رکھا اور وہ بہت مشہور ہوئیں۔ شیاما کا اصلی نام خورشید اخترتها ۔ 1953ء میں ہدایت کار وجے بھٹ نے خورشید اختر کو شیاما کا فلمی نام دیا تھا۔

شیاما
(ہندی میں: श्यामा ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش 7 جون 1935ء
لاہور، صوبہ پنجاب، برطانوی ہند، موجود پنجاب، پاکستان
وفات 14 نومبر 2017ء (82 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ممبئی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات متعدی امراض   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (–15 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)
بھارت (26 جنوری 1950–)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات فلی مستری (1953ء - 1979ء)
عملی زندگی
پیشہ ادکارہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان ہندی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
IMDB پر صفحہ  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

1960ء میں وہ لاہور آئی تھیں جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ اس کے بعد شیاما 1990ء کی دہائی میں ایک بار پھر لاہور آئیں تھیں اور انھوں نے میڈم نور جہاں کے گھر قیام کیا۔

1958 میں فلم شاردا کے لیے ان کو فلم فیئر اعزاز برائے بہترین معاون اداکارہ سے نوازا گیا تھا۔

ابتدائی حالات

ترمیم

باغبانپورہ لاہور سے تعلق رکھنے والی شیاما کا اصل نام خورشید اختر ہے۔ ان کا تعلق لاہور کے متمول ارائیں خاندان سے ہے۔ شیاما 7 جون 1935ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ 1945ء میں چھوٹی عمر میں ہی وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ممبئی منتقل ہوگئیں۔

پیشہ وارانہ زندگی

ترمیم

1945ء میں سید شوکت حسین رضوی اپنی فلم ’’زینت‘‘ کی شوٹنگ کر رہے تھے۔ اس شوٹنگ کو دیکھنے کے لیے شیاما اپنے اسکول کی دیگر طالبات کے ساتھ سٹوڈیو آئیں۔ وہاں ایک قوالی فلمائی جا رہی تھی۔ شوکت حسین رضوی نے انھیں بھی اس قوالی میں شامل کر لیا۔ یہ قوالی بعد میں بہت مقبول ہوئی۔ اس کے بول تھے ’’آہیں نہ بھریں، شکوہ نہ کیا‘‘۔ یہ وہی مشہور زمانہ قوالی تھی جس میں پہلی بار ششی کلا بھی جلواگر ہوئیں۔ انھیں میڈم نورجہاں کی سفارش پر شوکت رضوی نے اس قوالی کی ٹیم میں شامل کیا۔’زینت‘‘ نے پورے ہندوستان میں زبردست کامیابی حاصل کی اور پھر شیاما کا فلمی سفر شروع ہو گیا۔ ہدایت کار وجے بھٹ نے خورشید اختر کو 1953ء میں شیاما کا فلمی نام دیا تھا۔ شیاما بڑی خوش شکل تھیں۔ پرکشش نین نقش کی حامل اس اداکارہ نے بہت جلد لاکھوں فلم بینوں کے دل جیت لیے۔ وہ بلا کی ذہین تھیں اور کیمرے کا سامنا انتہائی اعتماد سے کرتی تھیں۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ کیمرے سے نہیں بلکہ کیمرا ان کا سامنا کرنے سے گھبراتا تھا۔ اسے کہتے ہیں بلا کی ذہانت اور ناقابل یقین اعتماد۔ ان کی خیرہ کن صلاحیتوں نے ہر ہدایت کار کو متاثر کیا جن میں اے آرکاردار اور گورودت جیسے مہان ہدایتکار بھی شامل تھے۔ گورودت نے انھیں اپنی فلم ’’آرپار‘‘ میں کاسٹ کیا جس نے شیاما کوشہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ اس فلم کے نغمات بھی بڑے خوبصورت تھے۔ ’’آرپار‘‘ 1954 میں ریلیز ہوئی۔ گیتادت کے گائے ہوئے شاہکار گیت شیاما پر پکچرائز ہوئے تو فلم بین مسحور ہو کے رہ گئے۔ شیاما کی ایک بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ گانا فلم بند کرانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں۔ ’’برسات کی رات‘‘ کو بھی ان کی بہترین فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ مدھوبالا اور بھارت بھوشن کی موجودگی میں شیاما نے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے علاوہ جس فلم نے شیاما کو نئی فنی عظمتوں سے سرفراز کیا وہ ضیاسرحدی کی فلم ’’ہم لوگ‘‘ تھی۔ ’’ہم لوگ‘‘ کا ذکر کیے بغیر شیاما پر کچھ لکھنا بیکار ہے۔ اس فلم میں انھوں نے ایسا شاندار کام کیا جو ایک لمبے عرصے تک لوگوں کو یاد رہا۔ خاص طور پر ان پر پکچرائز کیا گیا یہ گیت ’’چھن چھن چھن باجے پائل موری‘‘ بہت سراہا گیا۔ اس گیت کو جس مہارت اور لگن سے شیاما نے پکچرائز کرایا وہ یقینا ناقابل فراموش ہے۔ اس فلم کی موسیقی روشن نے ترتیب دی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ روشن نے اس فلم کی موسیقی کے لیے اپنا خون جگر تک دے دیا ہے… ان کی فلم ’’بھائی بھائی‘‘ بھی بہت مشہور ہوئی۔ اس میں ان پر عکس بند کیا گیا یہ گانا آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے جس کے بول تھے: ’’اے دل مجھے بتا دے، تو کس پر آ گیا ہے‘‘ اس گیت کی پکچرائزیشن بھی لاجواب تھی۔ شیاما نے 200 سے زائد فلموں میں کام کیا۔ ان کی مشہور فلموں میں’’ہم لوگ، برسات کی رات، ترانہ، ساون بھادوں، دل دیادرد لیا، ملن،پائل کی جھنکار، شاردا، کھیل کھیل میں، اجنبی، نیادن نئی رات، جی چاہتا ہے، تقدیر، بھابی، دل ناداں، پتنگا، شبنم، شرط، شری متی جی‘‘ اور دیگر کئی فلمیں شامل ہیں۔ ’’شاردا‘‘ میں انھیں بہترین معاون اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ ملا…’’دل دیا درد لیا‘‘ اے آر کاردار کی فلم تھی جس میں دلیپ کمار، وحید رحمان، رحمان اورپران جیسے اداکار تھے لیکن اس فلم میں شیاما نے بھی اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ بلاشبہ وہ 50ء اور60ء کی دہائی کی اہم اداکارہ تھیں۔1953ء میں انھوں نے ایک سینماٹوگرافر سے شادی کرلی تھی۔ ان کے دوبیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ 1979ء میں ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا۔1960ء میں وہ لاہور آئی تھیں جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ اس کے بعد وہ 90ء کی دہائی میں بھی ایک بار لاہور آئی تھیں اور میڈم نور جہاں کے گھر قیام کیا۔ شیاما کے ان گنت مداحین آج بھی بھارت اور پاکستان میں ہیں اور وہ آج بھی شیاما کے فن کی تحسین کرتے ہیں۔ یہاں ہم شیاما کی ایک اہم فلم ’’پتنگا‘‘ کا ذکر ضرور کریں گے۔’’پتنگا‘‘ اپنے زمانے کی مشہور ترین فلموں میں سے ایک تھی۔ اس میں شیام (ساحر ہ کاظمی کے والد)، نگار سلطانہ (کے آصف کی اہلیہ) پورنیما، یعقوب اور گوپ جیسے منجھے ہوئے فنکاروں کے ساتھ شیاما نے بڑے اعتماد سے کام کیا اور بے شمار فلم میکرز کو متاثر کیا۔ یہ تقدیر کے کھیل ہیں۔ ذرا سوچئے کہ اگر 1945ء میں خورشید اختر ’’زینت‘‘ کے سیٹ پر نہ آتیں اور شوکت رضوی انھیں اپنی قوالی میں شامل نہ کرتے تو آج وہ ایک عام ضعیف العمر عورت کی طرح زندگی گزار رہی ہوتیں۔ شیاما کی عمر اس وقت 80 برس ہو چکی ہے۔ اور وہ ممبئی میں رہائش پزیر ہیں۔ وہ اپنے فلمی کیریئر سے مطمئن ہیں اور نئی نسل کے فنکاروں کی بھی بھرپور حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ انھوں نے اپنے دور میں جتنا کام کیا اس کی ہر صورت توصیف کرنی چاہیے۔[2]

بحیثیتِ اداکارہ

ترمیم

شیاما کو ہدایت کار اور فلمساز شوکت حسین رضوی نے زینت (1945ء) سے فلموں کے پردہ پر متعارف کروایا، اِس فلم میں نور جہاں (گلوکارہ) بطور اداکارہ کام کر رہی تھیں۔ شیاما کو فلم زینت (1945ء) میں 10 روپے معاوضہ ملا تھا۔[3] 1954ء کی فلم آر پار سے اُن کی شہرت میں مزید چار چاند لگ گئے۔ علاوہ ازیں برسات کی رات (1960ءشاردا (1957ءترانہ (1951ء) میں بھی وہ بحیثیتِ اداکارہ شہرت کی بلندیوں کو پہنچیں۔ اُن کی شہرت دنیا بھر میں فلم بھابھی 1957ء سے ہوئی جبکہ تمام ہندوستان میں اُن کی شہرت آر پار 1954ء سے ہوئی تھی۔1954ء میں فلم آر پار میں شیاما کی جوڑی گرو دت کے ساتھ بہت پسند کی گئی۔ علاوہ ازیں شیاما جانی واکر، اداکار کے ساتھ بھی بحیثیت اداکارہ نظر آئیں۔ 1957ء میں شیاما کے ساتھ راج کپور کی جوڑی بہت پسند کی گئی۔1950ء اور 1960ء کی دہائی میں مشہور و مقبول رہنے والی اِس اداکارہ نے کل 200 فلموں میں کام کیا۔

اُن پر فلمائے گئے متعدد گیت مشہور ہوئے، جن میں سے چند یہ ہیں:

ازدواجی زندگی

ترمیم

1953ء میں شیاما کی شادی فلی مستری سے ہوئی۔ یہ شادی 1979ء تک قائم رہی۔ 1979ء میں فلی مستری کے انتقال کے بعد شیاما ممبئی میں اپنی وفات تک رہائش پزیر تھیں۔[4]

وفات

ترمیم

شیاما 14 نومبر 2017ء کو 82 برس کی عمر میں پھیپھڑوں کے انفیکشن کی وجہ سے انتقال کر گئیں۔[5] ان کو ممبئی کے بڑا قبرستان میں دفن کیا گیا۔[6][7][8][9] ان کے دو بیٹے تھے اور ایک بیٹی تھی۔[10]

فلمیں

ترمیم
فلم سال کردار تبصرہ
زینت 1945 - بطور چائلڈ آرٹسٹ
پروانہ 1947 - بنام: بے بی خورشید
جلسہ 1948 - -
گرہستی 1948 - -
شاعر 1949 شمع دلاری -
شبنم 1949 - -
روپ لیکھا 1949 - -
پتنگا 1949 - -
ناچ 1949 - -
جان پہچان 1950 - -
سبق 1950 - -
نشانہ 1950 - -
نیلی 1950 - -
ڈولتی نیا 1950 - -
سزا 1951 کامنی -
ترانہ 1951 شیلا -
ہم لوگ 1951 شیفالی -
شریمتی جی 1952 اندرا/چترا -
نشان ڈنکا 1952 - -
مدر 1952 مینا -
بدنام 1952 - -
آسمان 1952 - -
ٹھوکر 1953 - -
سہاگ سیندور 1953 - -
شیاما 1953 - -
لہریں 1953 - -
کوڑے شاہ 1953 - -
گلِ صنوبر 1953 - -
دلِ ناداں 1953 آشا -
چار چاند 1953 - -
لاڈلا 1954 - -
تلسی داس 1954 رتنا والی ڈی پاٹھک -
شرط 1954 کامنی / بینو -
ساودھان 1954 - -
سلطنت 1954 پی پی -
پیاسے نین 1954 - -
پیپلی صاحب 1954 - -
پنشنر 1954 - -
لاڈلا 1954 - -
مجبوری 1954 - -
خوشبو 1954 - -
ہار جیت 1954 - -
دھوپ چھاؤں 1954 - -
دروازہ 1954 - -
آر پار 1954 نکی -
تیس مار خان 1955 - -
تاتر کا چور 1955 - -
بھگوت مہیما 1955 - -
شاہی مہمان 1955 - -
مسافر خانہ 1955 مالا -
خاندان 1955 - -
حسینہ 1955 - -
ہی ہا ہی ہی ہو ہو 1955 - -
گھر گھر میں دیوالی 1955 کنچن -
گھمنڈ 1955 - -
دو دولہے 1955 - -
چار پیسے 1955 سیما بخشی -
شیخ چلی 1956 - -
مکھی چوس 1956 لکشمی -
انقلاب 1956 - -
چھومنتر 1956 سانولی -
بھائی بھائی 1956 سنگیتا -
جانی واکر 1957 چندرا کرپلانی -
تاج پوشی 1957 - -
سنورنا سندری 1957 - -
شاردا 1957 چنچل -
مرزا صاحباں 1957 صاحباں -
مائی باپ 1957 - -
جنت 1957 - -
ہل اسٹیشن 1957 - -
دنیا رنگ رنگیلی 1957 نرملا -
بھابھی 1957 تارا -
بندی 1957 شنکر کی بیوی -
تقدیر 1958 - -
مسٹر کارٹون ایم اے 1958 - -
لالہ رخ 1958 شہزادی -
امر سمادھی 1958 - -
تیسری گلی 1958 - -
پنچائت 1958 سُشیلا -
کھوٹا پیسہ 1958 رُوپا -
خزانچی 1958 اُوشا -
گوپی چند 1958 - -
چندن 1958 - -
مسٹر جان 1959 - -
جعل ساز 1959 - -
دو بہنیں 1959 وسنت ماتھر/ مالتی ماتھر -
چھوٹی بہن 1959 شوبھا -
بس کنڈکٹر 1959 - -
باپ بیٹے 1959 - -
ٹرنک کال 1960 - -
پولیس ڈیٹیکٹیو 1960 - -
اپنا گھر 1960 - -
نئی ماں 1960 - -
کالا آدمی 1960 - -
دنیا جھکتی ہے 1960 لکشمی -
برسات کی رات 1960 شمع -
ولائت پاس 1961 - -
سارا جہاں ہمارا 1961 - -
زبک 1961 زینب -
راز کی بات 1962 رنجنا -
اسی کا نام دنیا ہے 1962 کملا -
کمرشل پلاٹ آفیسر 1963 - -
گھر بسا کے دیکھو 1963 مونا مہرا -
بہو رانی 1963 چندا -
جی چاہتا ہے 1963 - -
جانور 1965 سیما شری واستو -
لال بنگلا 1966 بیلا -
دل دیا درد لیا 1966 مالا -
ملن 1967 گوری کی سوتیلی ماں -
ملن کی رات 1967 گووند کی بیوی -
میرا بھائی میرا دشمن 1967 - -
مہرباں 1967 منگلا رام سواروپ -
آگ 1967 - -
ایک رات 1968 بیلا -
بیٹی 1969 کملا ورما -
بالک 1969 تارا داس -
مستانہ 1970 چمپا کلی/ مسز دھنراج -
ساون بھادوں 1970 سلوچنا دیوی -
کنگن 1971 چمپا کلی -
رت رنگیلی آئی 1972 برج بالا -
گومتی کے کنارے 1972 مسز شیاما داس -
زندگی زندگی 1972 مسز شرما -
شادی کے بعد 1972 بسنتی کی ماں -
پربھات 1973 چمپا بائی -
خون خون 1973 - -
سورج اور چندا 1973 ملکہ -
ہنی مون 1973 لکشمی چودھری -
نیا دن نئی رات 1974 کوٹھے والی -
اجنبی 1974 شمع -
مدہوش 1974 پدما بائی -
سیوک 1975 - -
چیتالی 1975 ہیرا بائی -
کھیل کھیل میں 1975 - -
کھیل کھلاڑی کا 1977 مسز خیراتی لال -
پائل کی جھنکار 1980 - -
ماسٹر جی 1985 شانتی -
میرا کرم میرا دھرم 1987 نیلا کی ماں -
چنتا منی سورداس 1988 - -
ہتھیار 1989 - -

ماخوذ از، انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس [11]

متعلقہ روابط

ترمیم
  • بھارتی فلمی اداکارا ؤں کی فہرست
  • بھارتی سنیما

    بیرونی روابط

    ترمیم

    حوالہ جات

    ترمیم
    1. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہhttps://data.bnf.fr/ark:/12148/cb162770594 — اخذ شدہ بتاریخ: 31 دسمبر 2019 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
    2. "اے دل مجھے بتا دے تو کس پہ آ گیا ہے"۔ روزنامہ دنیا۔ 19 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 اپریل 2017 
    3. Sonal Pandya۔ "Shyama, star of Guru Dutt's Aar-Paar, dies at 82"۔ Cinestaan.com۔ 15 نومبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اپریل 2019 
    4. "Shyama's Interview"۔ Cineplot۔ 2010۔ 15 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اپریل 2013 
    5. India com Entertainment Desk (14 November 2017)۔ "Veteran Actress Shyama Passes Away At The Age Of 82"۔ India.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اپریل 2019 
    6. "Shyama, heroine of Guru Dutt's Aar Paar, passes away"۔ timesofindia 
    7. "'I believe that a star is born': Hindi film actress Shyama (1935-2017)" 
    8. "Shyama, the Impish Girl in the Dungarees, Is No More" 
    9. "My mother lived life on her own terms: Shyama's daughter" 
    10. "Remembering Shyama's eternal legacy" 
    11. "Shayama on IMDB"۔ IMDB۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 اپریل 2017