صادق الخیری

اردو زبان کے افسانہ نگار، ڈراما نویس اور مترجم

صادق الخیری (پیدائش: 11 مئی، 1915ء- وفات: 26 جنوری، 1989ء) اردو زبان کے ممتاز افسانہ نگار، ڈراما نویس اور مترجم تھے۔ وہ اردو کے معروف ادیب علامہ راشد الخیری کے فرزند اور رازق الخیری کے چھوٹے بھائی تھے۔

صادق الخیری

معلومات شخصیت
پیدائش 11 مئی 1915ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 26 جنوری 1989ء (74 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن سخی حسن   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد علامہ راشد الخیری   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی ذاکر حسین دہلی کالج
سینٹ اسٹیفن کالج، دہلی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد ایم اے   ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ افسانہ نگار ،  ناول نگار ،  مترجم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

پیدائش ترمیم

صادق الخیری 11 مئی 1915ء کو صبح نو بجے محلہ کوچہ چیلاں دہلی میں پیدا ہوئے۔ وہ دہلی کے علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد علامہ راشد الخیری ہندوستان کے ایک ممتاز عالم اور ادیب تھے۔ صادق الخیری کے دادا مولوی عبد القادر کا شمار دہلی کے ممتاز علما میں ہوتا تھا۔ اردو کے مشہور ادیب ڈپٹی نذیر احمد انھیں مولوی عبد القادر کے داماد تھے۔[1]

تعلیم ترمیم

صادق الخیری کی ابتدائی تربیت ان کی والدہ کی زیر نگرانی ہوئی۔ یہ تربیت مذہبی تھی۔ ابتدائی تعلیم اینگلو عربک اسکول کوچہ چیلاں میں ہوئی۔ آٹھوین جماعت تک صادق الخیری نے اسی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد یہ اسکول اینگلو عربک ہائی اسکول کے نام سے دریا گنج کے ایک گرجے میں منتقل کر دیا گیا۔ ہائی اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ انگلو عربک کالج اجمیری گیٹ (جو قدیم زمانے میں دہلی کالج کہلاتا تھا) میں داخلہ لیا۔ یہ وہی انگلو عربک کالج ہے جہاں بڑی بڑی نامور ہستیوں نے تعلیم حاصل کی اور نام پیدا کیا۔[2]

شادی ترمیم

علامہ راشد الخیری کی بیگم نے اپنے بیٹے صادق الخیری کا عنفوانِ شباب ہی میں رشتہ طے کر دیا تھا۔ اس زمانے کے لوگوں کو اس طرح کے کاموں کی انجام دہی سے بہت خوشی ہوتی تھی۔ 21 نومبر، 1931ء کو خواجہ فضل احمد خان شیدا دہلوی کی بھتیجی اور محمد احمد خاں کی دختر نفیس فاطمہ بیگم سلمہا سے صادق الخیری کا نکاح ہوا۔ رخصتی اس وقت تک کے لیے ملتوی کر دی گئی جب نفیس بیگم تعلیم سے فارغ ہو جائیں اور صادق الخیری بھی اپنی تعلیم مکمل کر کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں، یہ وقت سات سال بعدمئی 1938ء میں آیا۔[3]

انگلو عربک کالج کی سرگرمیاں ترمیم

صادق الخیری کا جس وقت نکاح ہوا تو وہ فرسٹ ایئر کے طالبعلم تھے۔سیکنڈ ایئر میں پہچتے پہنچتے کالج لائف کی سرگرمیاں تیز ہونے لگیں تھیں اور وہ کئی انجمنوں کے سیکریٹری منتخب ہوئے۔ انھوں نے ادبی مجلس اورینٹل سوسائٹی کے معتمد کی حیثیت سے بھی کئی نئے کام کیے جن میں ایک نمایاں کام باہر کے ادیبوں اور صحافیوں کو مدعو کرنا بھی شامل تھا[4] اس کے لیے انھوں نے بہت سے ایسے ادیبوں اور صحافیوں کو دعوت دی جو اپنے شعبے میں شہرت رکھتے تھے۔ وہ کالج کی یونین کے سیکریٹری بھی منتخب ہوئے۔ لیکن انھیں اردو کی وجہ سے اورینٹل سوسائٹی زیادہ عزیز تھی۔ اسی اثنا میں اینگلو عربک کالج کو بی اے تک کی تعلیم کے لیے یونیورسٹی کی طرف سے مجاز قرر دے دیا گیا۔ ڈگری کالج بن جانے کی وجہ سے صادق الخیری نے بی اے بھی یہیں سے مکمل کیا۔ بی اے میں ان کے عربی کے استاد خطیب اعظم مولانا سید محمد دہلوی، فلسفہ کے پروفیسر سوندھی اور مرزا محود بیگ تھے۔انگریزی مسٹر واکر اور مسٹر لاریمر نے، اردو پروفیسر منظور حسین موسوی نے پڑھائی۔ فورتھ ایئر میں پہچتے پہنچتے صادق الخیری کئی انجمنوں کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ اس کے علاوہ کالج میگزین کے ایڈیٹر بھی بنائے گئے اور کالج ڈے کے موقع پر متعدد مضامین میں اول انعامات حاصل کر کے ایک نیا ریکارڈ بھی قائم کیا۔ صادق الخیری نے عربک کالج میگزین کی ادارت سنبھال کر بہت لگن کے ساتھ اسے انجام دیا۔ انھوں نے طلبہ سے مضامین لکھوائے۔ نئے نئے عنوان تجویز کیے اور کئی مضامین خود لکھ کر دوستوں کے نام سے چھپوائے۔ حسنِ طباعت میں جدت پیدا کی۔ اس کا ایک نمبر ٹائپ میں بھی چھاپا گیا جو اس زمانے میں نئی بات تھی۔[5]

1935ء میں صادق الخیری نے بی اے کی تعلیم مکمل کی۔ کالج کی سالانہ تقریب میں انھوں نے متعدد اول انعامات حاصل کیے۔ صادق الخیری ایم اے کی غرض سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جانا چاہتے تھے لیکن ان کے والد نے اس کی اجازت نہ دی، چانچہ انھوں نے سینٹ اسٹیفنز کالج، دہلی میں ایم اے (فلسفہ) کے لیے داخلہ لیا۔[6] سینٹ اسٹیفنز کالج کا شمار ہندوستان کے بہترین درسگاہوں میں ہوتا تھا۔ انھوں نے یہاں پروفیسر راجو، دیورنڈ، ڈیونپورٹ، پروفیسر سین، پروفیسر ناگ، پروفیسر بیگ، پروفیسر سیول اسپیٹر اور ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی سے تعلیم حاصل کی۔ انھیں سب ہی اساتذہ عزیز رکھتے تھے کیونکہ وہ ایک ذہین طالبِ علم اور ایک معزز خاندان کے چشم و چراغ تھا۔[7]

راشد الخیری کا انتقال ترمیم

صادق الخیری ایم اے سال اول میں تھے کہ ان کے والد علامہ راشد الخیری کو پھیپھڑون کا کینسر ہو گیا اور وہ صاحبِ فراش ہو گئے۔3 فروری 1936ء کو علامہ راشد الخیری کا انتقال ہو گیا۔ صادق الخیری کی سرپرستی ان کے بڑے بھائی رازق الخیری کے سپرد ہوئی۔ رازق الخیری نے اپنے چھوٹے بھائی کو باپ جیسا پیار دیا۔ والد کی موت کا صادق الخیری پر گہرا اثر ہوا اور کچھ وقت کے لیے ان کا رجحان پڑھائی کی طرف سے ہٹ کر روحانیت کی طرف ہو گیا، وہ ہر وقت روحوں سے ملاقات کے منصوبے بناتے رہتے۔ اس خاص زمانے میں ہندوازم کا بھی اثر تھا جس کا ذکر انھوں نے اپنی کتاب آسمان کیسے کیسے میں یوں کیا ہے:

1936-37 کا دور مجھ پر کربناک گزرا ہے۔ اس کے باب میں فلسفہ کا مطالعہ بھی شامل ہے۔میرے سب اساتذہ غیر مسلم تھے اور اگرچہ بالآخر مجھے ہدایت کا اشارہ ایک لادین پروفیسر کی طرف سے ملا، اس وقت میرے خیالات میں بڑی الجھن پیدا ہو گئی تھی۔ اصلِ زندگی اور مقصودِ زندگی کیا ہے؟ آدابِ خودی اور رموزِ خود آگاہی کسے کہتے ہیں؟ حیات بعد الموت میں کتنی صداقت ہے؟ نیز وجود و شہود، زمان و مکان، قضا قدر ایسے مسائل تھے جن کے متعلق بے شمار افکار و نظریات سے واسطہ پڑا۔

لیکن پروفیسر راجو نے جب ان کے ایم اے سال اول کے پرچے خلافِ توقع پائے تو وہ سمجھ گئے اور انھوں نے روح کی ابدیت اور بعد الموت اس دنیا سے قطع تعلق پر طویل لیکچر دیے اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ ان کی توجہ کالج کی سرگرمیوں کی جانب مبذول کرائی۔ انھیں دنوں صادق الخیری کالج کی فلوسوفیکل سوسائٹی کے صدر منتخب ہوئے اور پھر آل انڈیا فلوسوفیکل تقریری مقابلہ میں شرکت کرنے کے لیے جامعہ آگرہ گئے[8] اور وہاں اول انعام حاصل کر کے اپنے کالج کا نام روشن کیا۔ اکیس سال کی عمر یعنی 1937ء میں صادق الخیری نے ایم فلسفہ کی تعلیم مکمل کی۔[9]

نئی راہ کی تلاش ترمیم

صادق الخیری کو بظاہر معاش کی فکر نہیں تھی کیونکہ ان کے بڑے بھائی رازق الخیری گھر کی ضروریات پوری کرتے تھے۔ اس لیے انھیں مستقبل کے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہ تھی۔ چنانچہ انھوں نے عصمت اور ووسرے رسائل کی ادارت کی، پبلشنگ اور کتابوں کے کاروبار میں رازق الخیری کا ہاتھ بٹایا۔ عصمت بکڈپو کی کتابوں کی فروخت کے لیے نئے نئے ذرائع نکالے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے مستقبل کے بارے میں سوچا اور انھیں علاحدہ اور خود مختار ہونے کا خیال آیا، جس کا ذکر انھوں نے نایاب ہیں ہم میں بھی کیا ہے:

میرا عصمت کا ساتھ مختصر رہا۔ شاید یہ 1940ء کی بات ہے کہ جب مولانا (رازق) مجھے اپنا قوت بازو سمجھنے لگے تو میرا جی صحافت سے اچاٹ ہو گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب خاندان بٹنے شروع ہو گئے تھے اور میں محسوس کرتا تھا کہ مولانا کے اخلاص اور شفقت کے باوجود میرا ان کا ساتھ نہیں ہو سکے گا۔ وہ قدامت کے رسیا اور مشرقی راہوں پر چلے والے تھے، میں نئے زمانے سے آشنا اور مغرب کی خوبیوں کا معترف تھا۔ ویسے بھی میرے اور ان کے خیالات اور سوچ میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ وہ وضعداریوں کے پاسدار تھے، میں مغربی تعلیم سے متاثر۔ یہ بات ذہن میں آئی کہ ساتھ چلنا چاہیے، مجھے یقین تھا کہ ایسا ممکن نہیں، غرض میں نے سوچا کہ بھلائی اسی میں ہے کہ ہم اپنی راہیں الگ الگ بنائیں۔ وہ بڑی مشکل سے اس پر رضامند ہوئے اور جب میں نے اپنی علاحدہ راہ متعین کرنے کے لیے ایک گھر بسایا تو مولانا نے اس کو صدقِ دل سے قبول کر لیا۔[10]

ملازمت ترمیم

صادق الخیری کو جب علاحدہ روزگار کا خیال آیا تو ان کا ذہن ریلوے کی ملازمت کی طرف منتقل ہوا۔ معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ کالج کے سرٹیفکیٹ اور بڑے آدمیوں کی سفارش کی ضرورت ہے۔ اس لیے 1941ء میں کئی افسران کی سفارش لے کر پہلی بار بمبئی ملازمت کے سلسلے میں سفر کیا۔درخواست پیش کرنے اور سب افسران میں گھومنے کے بعد یہی جواب ملا کہ جب جگہ ہو گی تو مطلع کر دیا جائے گا اور اس طرح دل میں ایک حسرت لیے ہوئے دہلی واپس آ گئے۔ کچھ روز بعد انٹرویو کا دعوت نامہ، ایک فرسٹ کلاس ٹکٹ اور دو نوکریوں کے سرونٹ پاس موصول ہوئے۔امید کی کرن نظر آئی، لیکن بار بھی کامیابی کی کوئی صورت نہ بنی۔ ایک دوسرے امیدوار کو منتخب کر لیا گیا۔ صادق الخیری دفتر کے باہر افسردہ ہو کر بیٹھ گئے حالاں کہ سارے امیدوار رخصت ہو چکے تھے۔ اسی اثنا میں انٹرویو بورڈ میں بیٹھے ہوئے افسران آ گئے اور ان میں سے ایک نے انھیں دوسرے دن بلایا اور انھیں اسسٹنٹ آفیسر کی آسامی کی پیشکش کی گئی۔ اس موقع پر انھوں نے افسران سے سوال کیا کہ کیا میں دلی آتا جاتا رہوں گا؟ کیا مجھے سیلون میں سفر کی اجازت ہوگی؟ ظاہر ہے یہ شرطیں نہیں کیا جاستی تھیں۔ اس لیے صادق الخیری کو اس مرتبہ بھی بمبئی سے ناکام لوٹنا پڑا۔[11]

وہ دہلی واپس آ کر پھر صحافت میں لگ گئے لیکن دل اب بھی ملازمت میں اٹکا ہوا تھا اور اس خیال کے پیشِ نظر کہ ایک بار ملازمت لگ جائے تو پھر تبادلہ کرا کے پسند کے دفتر میں جا سکتے ہیں۔ یوں حکومت ہند کے محکمہ سپلائی کے دفتر میں ملازمت اختیار کی۔ یہ دفتر شاہجہاں روڈ دہلی میں واقع تھا۔ حالاں کہ انھیں یہ محکمہ بالکل پسند نہیں تھا لیکن اس کا ایک خوش آئند پہلو یہ تھا کہ انھوں نے ملازمت کے دوران بہت سے نوجوانوں کو روزگار دلوایا۔ دوسری جنگ عظیم جب شدت اختیار کرنے لگی تو محکمہ سپلائی کا بڑا حصہ بمبئی منتقل ہو گیا۔صادق الخیری بھی اسی منتقل ہونے والے عملے میں شامل تھے۔ وہ وہاں اکیلے ہی گئے اور ماہم میں سمندر کے کنارے ایک خوبصورت فلیٹ کرائے پر لیا لیکن کچھ ہی عرصے بعد ان کا دل گھبرانے لگا اور دلی کی یاد ستانے لگی۔ انھیں اپنے گھر والے بہن، بھائی، بیوی اور بیٹا فائق کی ہر وقت یاد ستانے لگتی تھی۔ اس لیے انھوں نے اپنے افسران بالا سے بیماری کا بہانہ کر کے دہلی ٹرانسفر کرا لیا۔ دہلی آکر کر محکمہ سپلائی میں دوبارہ جوائن نہیں کیا اور دوسری ملازمت کی تلاش میں لگ گئے۔ اسی زمانہ زندگی کا ایک اندوہناک واقعہ یہ ہے کہ ان کی والدہ مرض الموت میں مبتلا ہوئیں اور 19 مارچ 1944ء انتقال کر گئیں۔[12]

1944ء کے آس پاس دہلی میں راشننگ کا محکمہ قائم ہوا اور صادق الخیری نے یہ چاہا کہ وہ اس محکمہ میں ملازمت اختیار کریں۔ اس میں انھیں کامیابی ہوئی اور وہ محکمہ راشننگ میں افسر مقرر ہو گئے۔ ان کا آفس دلی چھاؤنی میں تھا، بعد ازاں ان کا تبادلہ پرانی دہلی کے زینت محل والے دفتر میں ہو گیا۔ 1946ء میں انھیں ترقی دے کر راشننگ اور سول سپلائی کے محکموں صدر دفتر لڈلو کاسل میں بھیج دیا گیا۔ ان کے ذمہ تمام دفاتر کا معائنہ اور ان کے درمیان ربط قائم رکھنا تھا۔ یہاں انھیں یہ بھی فریضہ انجام دینا ہوتا تھا کہ وہ اپنے محکمے کے متعلق لوگوں کے بارے میں خفیہ رپورٹیں بھی مرتب کریں۔ اس کے بعد افسرِ تعلقات عامہ کی جگہ ان کا تقرر عمل میں آیا۔ لیکن دوران ایک آئی سی ایس افسر نے اس محکمہ کے افسرِ اعلیٰ مقرر ہوئے۔ محکمہ میں کچھ ایسی فرقہ وارانہ کش مکش اور تعصب کی فضا موجود تھی جس کی وجہ سے نئے عہدے پر ان کا تقرر نہ ہو سکا اور ان کی جگہ پر کسی دوسرے شخص کو مقرر کر دیا گیا۔[13]

ادبی خدمات ترمیم

صادق الخیری نے جس ماحول یں آنکھ کھولی وہ خالص ادبی موحول تھا۔ ان کے والد علامہ راشد الخیری اردو کے معروف مصنف تھے۔ انھوں نے خواتین کی بھلائی کے لیے بہت سے ناول، افسانے اور مضامین لکھے اور یکے بعد دیگرے بہت سے رسالے نکالے جس میں رسالہ عصمت خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ اس کے علاوہ صادق الخیری کے محلے میں بہت سے مشاہیر، ادیب و اور شاعر رہتے تھے جس کا ذکر صادق الخیری نے نقوش کے سالنامہ نمبر میں کیا ہے:[14]

دلی کا ایک مصور ورق کوچہ چیلاں تھا۔ الٰہی یہ کس کا نام یاد آیا کہ نطق نے بوسے میری زبان کے لیے۔ کوچہ چیلاں، جہاں آزادی کے علمبردار مولانا محمد علی کا قیام تھا۔ جہاں تحریر و تقریر کے بادشاہ خواجہ حسن نظامی داخل ہوتے ہی مگن ہو جاتے تھے۔ جی ہاں، یہ وہی محلہ تھا جہاں بڑےبڑے شاعر اور ادیب، سیاس اور رہنما دلی کی شان دوبالا کرتے تھے۔ جہان اردو نشو و نما پاتی تھی۔جہاں قدیم معاشرت اور تمدن پروان چڑھتا تھا۔[15]

تصایف ترمیم

  • نشیمن (ناول)
  • دھنک (افسانے)، ساقی بک ڈپو دہلی، 1943ء
  • اے عشق کہیں لے چل (ترجمہ)، اُردو نشرگاہ دہلی، 1946ء
  • مچلتے آنسو (ترجمہ)
  • بلقیس (20 منتخب افسانے اور ڈرامے)،خاتون کتاب گھر دہلی، بار اول 1933ء، بار دوم 1945ء
  • آسماں کیسے کیسے، کراچی، شہناز بُک کلب، 1981ء
  • شمع انجمن (افسانے)، کتب خانہ علم و ادب دہلی، ستمبر 1942ء
  • سفینے
  • بنت قمر
  • بہترین افسانے (افسانے)، شہناز بُک کلب کراچی،1984ء
  • لب پہ آ سکتا نہیں (افسانے)، شہناز بُک کلب کراچی، طبع دوم 1985ء
  • حشر بداماں (لورا کلیفورڈ بارنے کے ڈرامے کا ترجمہ)، شہناز بُک کلب کراچی، اپریل 1986ء
  • شمع فروزاں (ترجمہ)
  • دوشیزاہ صحرا (ترجمہ)
  • انکشافِ حقیقت (ناولٹ)، شاہجہان بُک ایجنسی دہلی
  • جاپان میں رومان (ساقی جنوری 1936ء کے جاپان نمبر میں شائع شدہ)

وفات ترمیم

صادق الخیری نے 26 جنوری، 1989ء بروز جمعرات کو دل کے دورے کے سبب کراچی میں وفات پائی۔[16][17] ان کی نماز جنازہ کراچی کے ممتاز عالمِ دین مولانا محمد اکبر درس نے مسجدِ اشرفیہ نارتھ ناظم آباد میں پڑھائی اور بعد نمازِ عصر سخی حسن کے قبرستان میں سپردِِ خاک کیا گیا۔[18]

حوالہ جات ترمیم

  1. ڈاکٹر ظل ہما، صادق الخیری حیات و خدمات، شاہد پبلی کیشنز نئی دہلی، اشاعت دوم 1999ء، ص 25
  2. ایضاً، ص 33
  3. ایضاً، ص 34-35
  4. ایضاً، ص 35
  5. ایضاً، ص 36
  6. ایضاً، ص 37
  7. ایضاً، ص 38
  8. ایضاً، ص 39-40
  9. ایضاً، ص 41
  10. ایضاً، ص 41
  11. ایضاً، ص 42
  12. ایضاً، ص 43
  13. ایضاً، ص 44
  14. ایضاً، ص 71
  15. نقوش سالنامہ 1944، مدیر: محمد طفیل، ادارہ فروغِ اردو لاہور، ص 199
  16. پروفیسر محمد اسلم، خفتگانِ کراچی، ادارہ تحقیقات پاکستان، دانشگاہ پنجاب لاہور، نومبر 1991، ص 310
  17. ڈاکٹر ظل ہما، صادق الخیری حیات و خدمات، شاہد پبلی کیشنز نئی دہلی، اشاعت دوم 1999ء، ص 48
  18. ایضاً، ص 49