ڈاکٹر امام اعظم (1960ء_ 2023ء) دربھنگہ کے مشہور ادیب، شاعر، محقق، مؤرخ، اور صحافی تھے، انہوں نے تاریخی، ادبی، تعلیمی اور صحافتی میدان میں بیش بہا خدمات انجام دیں، ان کی ادارت میں نکلنے والے رسالہ تمثیل نو کی ملک و بیرون ملک میں ایک شناخت تھی، انہوں نے دربھنگہ کی تاریخ پر قابل قدر خدمات انجام دیں، یہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کولکاتا کے ریجنل ڈائریکٹر بھی تھے۔

قلمی و ادبی نام ترمیم

ڈاکٹر امام اعظم کا اصل نام سید اعجاز حسن تھا، انہوں نے اپنا قلمی نام امام اعظم منتخب کیا، ان کی ادبی خدمات کی وجہ سے یہ نام اس قدر مقبول اور زبان زد عام وخاص ہوا کہ اصل نام پر دۂ خفا میں چلا گیا

ولادت ترمیم

ان کی ولادت 20 جولائی 1960ء مطابق 28 محرم 1380 ھ کو محلہ گنگوارہ دربھنگہ میں محمد ظفر المنان ظفر فاروقی کے یہاں ہوئی۔

مرحلۂ تعلیم ترمیم

ابتدائی تعلیم سے انٹر تک بتیا کے مختلف عصری تعلیمی اداروں سے 1977ء تک حاصل کیا،اس کے بعد 1979 ء میں ملت کالج دربھنگہ سے بی ایس سی کیا، 1982ء میں وہ سائنس سے زبان وادب کی طرف راغب ہوئے، چنانچہ بی اے کا امتحان آزاد امیدوار کی حیثیت سے دیا اور کامیاب ہوئے، 1984 میں متھلا یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا، اور فرسٹ کلاس سے کامیابی حاصل کی۔[1] اور 1991 میں ایم اے فارسی کا امتحان دے کر کامیابی حاصل کی، حصول علم کے شوق میں انہوں نے لا کالج دربھنگہ سے 1989ء میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی، مظہر امام کی تخلیقات کا تنقیدی مطالعہ پر پی ایچ ڈی اور اردو تنقید ساخت اور ارتقاء کے موضوع پر ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی۔

تدریسی خدمات ترمیم

ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کرنے کے بعد 1991ء میں ایل این متھلا یونیورسٹی، دربھنگہ میں یو جی سی ریسرچ ایسوسی ایٹ مقرر ہوئے، [1] اور 4 نومبر 1996ء تک تحقیقی و تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ [2] پھر نومبر 1996ء میں بہار اسٹیٹ یونیورسٹی سروس کمیشن پٹنہ کے ذریعہ لیکچرار مقرر ہوئے ۔ ایل این متھلا یو نیورسٹی میں ان کے زیر نگرانی 3 اسکالروں کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی جاچکی ہے۔ 4 جولائی 2005ء تا 15 مارچ 2012ء، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ریجنل سینٹر دربھنگہ (شمالی بہار ) کے بانی ریجنل ڈائریکٹر ، 26 مارچ تا 2 اپریل 2012ء پٹنہ کے ریجنل ڈائریکٹر 4 اپریل 2012 ء تا دم وفات کولکاتا ( مغربی بنگال ) کے ریجنل ڈائرکٹر رہے۔ [3]

ادبی خدمات ترمیم

ڈاکٹر امام اعظم نئی نسل کے معروف فنکاروں میں شامل تھ۔ وہ شاعر ، ادیب اور صحافی کی حیثیت سے منفرد شناخت کے حامل تھے۔ مشہور ادبی جریدہ تمثیلِ نو ( دربھنگہ ) کے مدیر اعزازی ڈاکٹر امام اعظم گیسوئے اردو کو سنوارنے میں مصروف ہیں۔ امام اعظم عرصہ تک آکاشوانی دربھنگہ کے پروگرام مشاورتی بورڈ کے مبر ( 1995ء سے 2001 ء ) رہ چکے ہیں۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے لٹریچر پینل کے سابق رکن اور گرانٹ ان ایڈ کے رکن بھی تھے، نیز کئی ادبی ، سماجی اور تعلیمی اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں پر کئی اداروں سے اعزازات و انعامات حاصل کر چکے ہیں۔ ان کی نثری و شعری تخلیقات ادب کے مقتدر و موقر رسائل و جرائد کی زینت بنتی رہتی ہیں وہیں آکاشوانی سے بروڈ کاسٹ اور دور درشن سے ٹیلی کاسٹ ہوتی ہیں نیز وہ قومی و بین الاقوامی سیمیناروں میں بھی شرکت کرتے رہتے ہیں نیز بہار اردو اکیڈمی پٹنہ کے مبصر بھی ہیں۔ سابق مرکزی وزیر لالو پرساد یادو نے 2008ء میں قومی شاعر کی حیثیت سے ریلوے پاس اور 25 ہزار روپئے ریلوے فنڈ سے عنایت کئے ۔

انہیں ادب، تاریخ، تنقید، شاعری اور نثر نگاری جیسے فنون سے گہری وابستگی تھی، ان کے شعری مجموعے قربتوں کی دھوپ (مطبوعہ : 1995) اور نیلم کی آواز ' (مطبوعہ: (2014) ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوئے۔ تنقید و تحقیق کے حوالے سے ان کی کتاب ”مظہر امام کی تخلیقات کا تنقیدی مطالعہ“ بہت اہم ہے، انہوں نے عبد الغفور شہباز پر ساہتیہ اکاڈمی کے لیے مونو گراف لکھا۔ اردو شاعری میں ہندوستانی تہذیب کثرت میں وحدت کا اظہار بھی ان کی فکر انگیز کتاب ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی اہم کتابیں ترتیب دیں، جن میں نصف ملاقات مرحوم مشاہیر ادب کے خطوط مظہر امام کے نام۔ مطبوعہ (1994) ، مولانا عبد العلیم آسی: تعارف اور كلام (مطبوعہ: 2003ء) ، عہد اسلامیہ میں دربھنگہ اور دوسرے مضامین (2009ء)، ہندوستانی فلمیں اور اُردو (2012ء)، اکیسویں صدی میں اردو صحافت (2016ء) اور نقوش علی نگر تبصرے اور تجزیے 2018ء) چند ایسی کتابیں ہیں، جن کے مضامین تاریخی اہمیت کے حامل اور گراں قدر ہیں۔ ان کے مضامین کے تین مجموعے بھی شائع ہوئے، گیسوئے تنقید (2008ء) ، گیسوئے تحریر (2011ء) اور ، گیسوئے اسلوب (2018ء) جو ان کی ادبی شخصیت کی ترجمانی اور استحکام کے لئے کافی ہیں۔ انہوں نے انساب و امصار (2022ء) کے نام سے شمالی بہار کے گیاره خانوادوں کی تفصیلات اور مختلف علاقوں پر مضامین بھی بڑی عرق ریزی سے جمع کر کے شائع کیا

تصانیف ترمیم

  • نصف ملاقات
  • قربتوں کی دھوپ
  • مظہر امام کی تخلیقات کا مطالعہ
  • نئے علاقے میں
  • اقبال انصاری فکشن کا سنگ میل
  • مولانا عبد العلیم آسی
  • گیسوئے تنقید
  • درپن
  • عہد اسلامیہ میں دربھنگہ اور دوسرے مضامین
  • ہندوستانی ادب کے معمار: عبد الغفور شہباز،
  • گیسوئے تحریر،
  • ہندوستانی فلمیں اور اردو،
  • فاطمی کمیٹی رپورٹ نامہ،
  • مناظر عاشق ہرگانوی کا لٹریری زون،
  • اردو شاعری میں ہندوستانی تہذیب،
  • نیلم کی آواز اکیسویں صدی میں اردو صحافت، *مظہر امام شخصیت اور فن،
  • گیسوئے اسلوب،
  • نقوش علی نگر،
  • سہرے کی ادبی معنویت
  • گیسوئے افکار،
  • ہندوستانی ادب کے معمار: منظر امام
  • چٹھی آئی ہے ( خطوط کا مجموعہ)

کولکاتا کی سرزمین پر ترمیم

دربھنگہ کے بعد 2012ء کولکاتا ان کا میدان عمل رہا، جہاں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے ریجنل ڈائرکٹر كولكاتا کی اہم ذمہ داری نبھاتے ہوئے انہوں نے اہم ادبی تاریخی ناقابل فراموش کارنامے انجام دیے، کولکاتا قیام کے دوران انہوں نے اٹھارہ کتابیں تصنیف و ترتیب دیں۔ کولکاتا کے ہی مرکز میں رہ کر انہوں نے دو کتابیں شائقین ادب کو دیں۔ 2022ء میں ادبی مضامین کا مجموعہ نگار خانہ کولكاتا شائع ہوا تھا، جس کے محتویات میں کولکاتا کے ادبا کی خدمات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ حال ہی میں ان کی تصنیف یہی کولکاتا ہے! بھی منظر عام پر آئی تھی۔

تمثیل نو ترمیم

ادبی صحافت ان کی رگ و پے میں سرایت کرچکی تھی، چنانچہ رسالہ تمثیل نو ان کے ادبی نقوش کا شاہد ہے، اس کے کئی خاص شماروں اور گوشوں نے نئے ادبی مباحث کو بھی جنم دیا۔ سنجیدہ ادبی حلقے میں ان کی اس ادبی کارگزاری کو بنظر تحسین دیکھا گیا۔

وفات ترمیم

حوالہ جات ترمیم

انیتا اندر سنگھ کا مسودہ ترمیم

پروفیسر انیتا اندر سنگھ بین الاقوامی امور کی ایک تجزیہ کار ہیں، جنہوں نے یورپ اور جنوبی ایشیا میں جمہوریت، انسانی حقوق، تنوع اور یگانگت، ایشیا کی بڑی طاقتوں، گورننس، بین الاقوامی تنظیموں، اور ترقی و سلامتی پر لکھ کر وسیع پیمانے پر شائع کیا ہے۔

عملی زندگی ترمیم

انیتا اندر سنگھ نے دہلی یونیورسٹی سے ایم اے، نے این یو سے ایم فل اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔ انہوں نے دہلی اور آکسفورڈ میں تاریخ اور بین الاقوامی ریلیشنز پڑھایا، وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے نیلسن منڈیلا سینٹر فار پیس اینڈ کنفلکٹ کے شعبے میں وزیٹنگ پروفیسر رہیں۔ اس سے پہلے وہ لندن اسکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبہ میں فیلو تھیں اور ولف سن کالج آکسفورڈ یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات اور سٹاک ہوم میں سویڈش انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی امور میں فیلو بھی رہ چکی ہیں، [4] اور جے این یو کے لا اینڈ گورننس شعبے میں بین الاقوامی انسانی مسائل پر آزاد کمیشن کے لیے کام کرتی رہی ہیں، یورپ میں تنظیم برائے سلامتی اور تعاون اور ODHIR [1]




دفتر برائے جمہوری ادارے و انسانی حقوق (ODIHR) اقوام متحدہ کا شعبہ اقتصادی اور سماجی امور (UN/DESA) جیسے بین الاقوامی اداروں کے لئے لکھ چکی ہیں۔

خدمات ترمیم

ان کی کتابیں سابقہ سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں وسیع سفر پر مبنی کمیونسٹ یورپ میں جمہوریت، نسلی تنوع اور سلامتی سے بحث کرتی ہیں [2] [3] ان کتابوں کا لب لباب یہ ہے کہ قوم پرستی صرف جنگ کی طرف لے جاتی ہے اگر طاقت کے ذریعے ریاستی سرحدوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے اور یہ کہ جمہوریتیں آمرانہ ریاستوں کے مقابلے نسلی تنوع کو سنبھالنے میں بہتر ہیں۔ برطانوی اثر و رسوخ کی حدود: جنوبی ایشیا اور اینگلو امریکن تعلقات 1947-56 ۔ [4] واشنگٹن ڈی سی میں سرکاری امریکی آرکائیوز، ایبیلین، کنساس میں صدر ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور کے کاغذات ، آزادی، میسوری میں صدر ہیری ایس ٹرومین ، اور لندن میں سرکاری برطانوی آرکائیوز کی بنیاد پر، یہ کتاب یہ بتاتی ہے کہ امریکہ کیسے اور کیوں برطانیہ نے سرد جنگ کے دوران جنوبی ایشیا میں غالب بیرونی طاقت کے طور پر تبدیل کر دیا تھا ۔

اس کا آکسفورڈ ڈی فل تھیسس، دی اوریجن آف دی پارٹیشن آف انڈیا، 1936-1947 ، پہلی بار آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے 1987 میں شائع کیا تھا ۔

2003 میں دی اٹلانٹک کے ایک مضمون میں ، کرسٹوفر ہچنس نے تقسیم کی ناگزیریت پر انیتا اندر سنگھ کی کتاب اور پال اسکاٹ کی راج کوارٹیٹ کے درمیان قیاس کیا تھا ۔ [6]

ان کی کتاب کا 25,000 الفاظ کا مختصر ورژن، دی پارٹیشن آف انڈیا ، 2006 میں نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیا کے ذریعہ انگریزی میں شائع ہوا تھا [7] اور اس کا نو ہندوستانی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے، جن میں کنڑ، اردو، اڑیہ، آسامی، گجراتی، تیلگو، مراٹھی، پنجابی اور ہندی۔

انیتا اندر سنگھ نے ریاستہائے متحدہ، جنوبی ایشیا اور عالمی انسداد دہشت گردی اتحاد بھی شائع کیا ہے ۔ [8] یہ کتاب دہشت گردی کے خلاف امریکی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد میں افغانستان، پاکستان اور ہندوستان کی اہمیت کو دریافت کرکے نئی زمین کو توڑتی ہے۔ کیا امریکہ کی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی یہ ثابت کرے گی کہ وہ دنیا کا اصل بگاڑنے والا یا ایک سپر پاور ہے جو بین الاقوامی اصولوں کو برقرار رکھتا ہے اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی معاشرے کی صلاحیت کو مضبوط کرتا ہے؟

انیتا اندر سنگھ کے مضامین دی ورلڈ ٹوڈے اور انٹرنیشنل افیئرز (دونوں چتھم ہاؤس ، لندن سے منسلک ہیں )، دی گارڈین ، دی ٹائمز لٹریری سپلیمنٹ ، فار ایسٹرن اکنامک ریویو اور وال سٹریٹ جرنل ایشیا میں شائع ہو چکے ہیں

وہ سویڈن، ہندوستان، سوئٹزرلینڈ، برطانیہ، امریکہ اور روس میں رہ چکی ہیں۔

ولادت ترمیم

ان کی ولادت بازید پور قصبہ باڑھ ضلع پٹنہ میں ایک معزز گھرانے میں 1890ء عیسوی مطابق 1308 ہجری میں ہوئی۔ [5] [5]


ان کی عمر پانچ سال کی ہوئی، تو ان کے والد محترم شیخ سخاوت حسین کا سایہء عاطفت سر سے اٹھ گیا، ان کی والدہ محترمہ بی بی صغریٰ نے پرورش و پرداخت کی، ان کی تعلیم کا عمدہ انتظام کیا۔ [6] [6]

ابتدائی تعلیم ترمیم

ان کی تعلیم کا آغاز گھر پر ہوا، نورانی قاعدہ اور ناظرہ قرآن گھر پر ہی پڑھا، تھوڑے بڑے ہوئے، تو یہ روز اپنے گھر بازید پور سے قصبہ باڑھ تک پڑھنے کے لئے مولانا حکیم محمد صدیق کے پاس جاتے، عربی کی ابتدائی کتابیں ہدایہ النحو تک حکیم محمد صدیق صاحب سے ہی پڑھی، حکیم صاحب قصبہ باڑھ میں مطب چلاتے تھے۔ [6]

کانپور کا سفر ترمیم

ہدایۃ النحو کا سال 1909ء مطابق 1327 ھ تھا، اسی سال درمیان میں تنہا گھر سے نکلے، کانپور کا ٹکٹ لے کر جامع العلوم کانپور پہنچ گئے، اور یہیں تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔[6]

الہ آباد کا سفر ترمیم

کانپور سے مدرسہ سبحانیہ الہ آباد میں وسط سال میں پہنچ گئے، جہاں اس وقت ابو المحاسن محمد سجاد کی تدریس کے سلسلے میں بڑی شہرت تھی، ابو المحاسن نے امتحان لے کر مدرسہ سے باہر ان کی تعلیم کا نظم فرمادیا، کافیہ تک پڑھنے کے بعد شرح جامی سے مولانا کے حلقہ درس میں شامل ہوگئے،[6] بہرحال 1911ء میں مولانا ابو المحاسن محمد سجاد کے ساتھ مولانا رحمانی گیا تشریف لائے، 1915ء میں دورۂ حدیث شریف سے فارغ ہوئے۔

محمد علی مونگیری سے بیعت و خلافت ترمیم

مروجہ نصاب کی تکمیل کے بعد اصلاح قلب کی خاطر مولانا نے خود کو محمد علی مونگیری سے وابستہ کرلیا، اور انہیں کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیا، اور روحانی فیض حاصل کی۔ [7] [7]

خانقاہ رحمانی ترمیم

1916ء میں اپنے پیر و مرشد محمد علی مونگیری کی خواہش پر معقولات کی تعلیم چھوڑ کر اپنے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ابتداء میں ان کو کتب خانے کی ذمہ داری ملی، پھر افتاء کا اہم شعبہ انہوں نے سنبھالا، اور فقہ و فتاویٰ کا کام احسن طریقے پر انجام دیا، جامعہ رحمانی قائم ہوا تو اس میں تدریسی فرائض بھی انجام دئے۔[8]

امارت شرعیہ میں آمد ترمیم

محمد علی مونگیری کے انتقال کے بعد 1927ء میں اپنے استاد ابو المحاسن سید محمد سجاد کی ایماء پر خانقاہ رحمانی سے پٹنہ امارت شرعیہ منتقل ہوگئے، یہ امارت شرعیہ کے ناظم بنائے گئے، بعد میں افتاء کے فرائض انجام دئے، تحقیق و تصنیف کے میدان میں کام کیا، ابو المحاسن محمد سجاد کے انتقال کے بعد امارت شرعیہ کے نائب امیر منتخب ہوئے۔[8]

جمعیۃ علمائے ہند کے نائب ناظم ترمیم

جب جمیعۃ علماء ہند نے سول نافرمانی( حرب سلمی) کی تجویز پاس کی، اور اکابر علماء کی گرفتاری شروع ہوئی تب یہ 14 اکتوبر 1930 ء میں جمیعۃ علماء ہند کے نائب ناظم اور مرکزی دفتر کے ذمہ دار اعلیٰ مقرر ہوئے۔ [8]

مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کے ناظم ترمیم

1935 ء کے ایکٹ کے تحت جب1937ء میں الیکشن ہوا، تو ابو المحاسن محمد سجاد نے مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کے نام سے ایک جماعت بنائی، اور ساڑھے تین ماہ کے وزارت بھی بنائی، اس پورے زمانے میں مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کے دفتری امور کی ذمہ داری عبد الصمد رحمانی کے سپرد رہی۔[8]

نائب امیر شریعت ثانی ترمیم

ابو المحاسن محمد سجاد کے تقریباً چار سال بعد 8 ربیع الثانی 1364 ھ مطابق مارچ 1945ء کو یہ نائب امیر شریعت ثانی مقرر کئے گئے۔ [9]

دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ ترمیم

1954 ء میں یہ دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ منتخب ہوئے، اور تا حیات اس منصب پر فائز رہے۔ [10]

تصنیفی خدمات ترمیم

مولانا کا اصل ذوق تصنیف و تالیف کا تھا، ان کی تمام تصانیف علمی جواہر پاروں، اور تحقیقی شگوفوں سے پر ہیں، یہ فقہ اسلامی پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے، یہ تقریباً 56 کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان میں چند قابل ذکر درج ذیل ہیں

  • کتاب الفسخ و التفریق
  • کتاب العشر و الزکوۃ
  • ازالہ شبہات از مسئلہ عشر و زکوٰۃ
  • اسلامی حقوق اور مسلم لیگ
  • ہندوستان اور مسئلہ امارت
  • اسلام میں عورت کا مقام
  • قرآن محکم
  • تیسیر القرآن
  • پیغمبر عالم صلی اللہ علیہ وسلم
  • صحابہ کی انقلابی جماعت
  • حیات سجاد
  • تاریخ امارت[8]

وفات ترمیم

10 ربیع الثانی 1393ھ مطابق 14مئی 1973ء روز پیر ساڑھے گیارہ بجے دن خانقاہ رحمانی میں ان کا وصال ہوا، 15 مئی 1973 ء میں ساڑھے نو بجے دن میں نماز جنازہ منت اللہ رحمانی نے پڑھائی، اور خانقاہ رحمانی کی قبرستان میں ان کو سپرد خاک کیا گیا۔ [11]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب ڈاکٹر امام اعظم۔ گیسوئے افکار (2019ء ایڈیشن)۔ نئی دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس۔ صفحہ: 91 
  2. عبد المنان طرزی۔ دیدہ وران بہار (2020 ایڈیشن)۔ نئی دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس۔ صفحہ: 85 
  3. ڈاکٹر ایم صلاح الدین۔ ڈاکٹر امام اعظم: اجمالی جائزہ (2012 ایڈیشن)۔ دربھنگہ: تمثیل نو پبلیکیشن۔ صفحہ: 9 
  4. Anita Inder Singh (2001)۔ Democracy, Ethnic Diversity, and Security in Post-communist Europe۔ ISBN 9780275972585 
  5. ^ ا ب غالب شمس قاسمی (0 دسمبر 2023ء)۔ qindeel https://abulmahasin.com/مولانا-عبد-الصمد-رحمانی-کی-حیات-کا-نقش-2/۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 دسمبر 2023  مفقود أو فارغ |title= (معاونت)
  6. ^ ا ب پ ت ٹ انیس الرحمن قاسمی۔ حیات سجاد (1998 ایڈیشن)۔ پٹنہ: شعبۂ نشر و اشاعت امارت شرعیہ بہار و اڈیشہ و جھارکھنڈ۔ صفحہ: 27 
  7. ^ ا ب مفتی ثناء الہدی قاسمی (30 ستمبر 2022ء)۔ "مولانا عبد الصمد رحمانی"۔ qindeel۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 دسمبر 2023 
  8. ^ ا ب پ ت ٹ عبد الصمد رحمانی۔ ہندوستان اور مسئلہ امارت (2015 ایڈیشن)۔ پٹنہ: شعبہ نشر و اشاعت امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ۔۔ صفحہ: 8 
  9. ظفیر الدین مفتاحی۔ امارت شرعیہ دینی جد و جہد کا روشن باب (1974 ایڈیشن)۔ پٹنہ: شعبہ نشر و اشاعت امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ۔۔ صفحہ: 115 
  10. محمد اللّٰہ قاسمی۔ دارالعلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ (2020 ایڈیشن)۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند۔۔ صفحہ: 756 
  11. شاہد رام نگری، مدیر (21 مئی 1973)۔ "یادگار سلف نائب امیر شریعت حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی کا وصال"۔ نقیب۔ پٹنہ: امارت شرعیہ۔ 15 (14): 1، 8، 10