محمد علی مونگیری

ایک بھارتی جلیل القدر عالم دین

محمد علی مونگیری (28 جولائی 1846 – 13 ستمبر 1927) ایک بھارتی عالم دین تھے، جو ندوۃ العلماء کے پہلے ناظم اور دار العلوم ندوۃ العلماء کے بانی اور پہلے چانسلر تھے۔ عیسائیت اور قادیانیت کے خلاف بڑے پیمانے پر ان کی تحریری خدمات ہیں۔ ان تحریرات میں آئینۂ اسلام، ساطع البرہان، براہین قاطعہ[ب]، فیصلۂ آسمانی اور شہادت آسمانی بھی شامل ہیں۔ وہ احمد علی سہارنپوری کے تلمیذ رشید اور فضل الرحمن گنج مراد آبادی کے مجاز بیعت تھے۔ 1903 میں انھوں نے ندوۃ العلماء سے استعفٰی دے دیا اور مونگیر منتقل ہو گئے، جہاں انھوں نے خانقاہ رحمانی قائم کیا۔


محمد علی مونگیری
ندوۃ العلماء کے پہلے ناظم
برسر منصب
1894ء سے 19 جولائی 1903ء تک
پیشرو"وہی پہلے ناظم تھے"
جانشینمسیح الزماں خان[1]
ذاتی
پیدائش28 جولائی 1846(1846-07-28)
وفات13 ستمبر 1927(1927-90-13) (عمر  81 سال)
مذہباسلام
اولادمنت اللہ رحمانی (بیٹے)
فقہی مسلکحنفی
تحریکتحفظ ختم نبوت
قابل ذکر کامآئینۂ اسلام، ساطع البرہان، براہین قاطعہ[ا]، فیصلۂ آسمانی، شہادت آسمانی
بانئدارالعلوم ندوۃ العلماء
مرتبہ
استاذلطف اللہ علی گڑھی، احمد علی سہارنپوری

ابتدائی زندگی

ترمیم

ولادت و نسب

ترمیم

محمد علی مونگیری 28 جولائی 1846 کو کانپور میں پیدا ہوئے۔[2] ان کانسب یہ ہے: محمد علی بن عبد العلی بن غوث علی بن راحت علی بن احمد علی بن نور محمد بن محمد عمر بن عاشق محمد بن محمد شاہ بن عتیق اللّٰہ بن قطب الدین بن مخدوم ابو بکر چرم پوش بن بہاء الحق حبیب اللّٰہ ملتانی بن حسن بن یوسف بن جمال الحق بن ابراہیم بن راجی حامد بن موسٰی احمد شبلی بن علی بن محمد بن حسن بن ابو صالح بن عبد الرزاق بن عبد القادر جیلانی.[2]

تعلیم

ترمیم

محمد علی نے اپنے چچا ظہور علی سے قرآن اور عبد الواحد بلگرامی سے فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔[3] وہ کانپور کے مدرسہ فیض عام کے ابتدائی طلبہ میں شامل تھے۔ انھوں نے وہاں عنایت عماد کاکوری، سید حسین شاہ اور لطف اللہ علی گڑھی سے تعلیم حاصل کی۔ تاہم اپنی تعلیم کو ادھورا چھوڑ دیا؛ کیوں کہ ان کی والدہ نے ان سے شادی پر اصرار کیا۔[4] 22 سال کی عمر میں، محمد علی کی شادی محی الدین پور میں ہوئی، جہاں وہ دو سال رہے۔ اسی دوران ان کے استاذ لطف اللہ علی گڑھی؛ علی گڑھ چلے گئے تھے، جہاں انھوں نے مدرسہ جامع مسجد میں تدریسی حلقہ جاری رکھا۔ محمد؛ بھی علی گڑھ منتقل ہو گئے اور لطف اللہ علی گڑھی سے اپنا بقیہ نصاب مکمل کیا۔[4] انھوں نے لطف اللہ سے علوم عقلیہ پڑھا اور پھر انھیں سے "صحاح ستہ" کی کتابیں پڑھیں۔[5] 1293 ہجری میں یہ مظاہر علوم چلے گئے، جہاں نو ماہ تک احمد علی سہارنپوری کی خدمت میں رہ کر ان سے "صحاح ستہ موطا امام محمد اور موطا امام مالک پڑھیں۔[6][7] محمد علی تصوف میں فضل الرحمن گنج مراد آبادی کے مجاز بیعت تھے۔[8]

تدریس و دیگر خدمات

ترمیم

محمد علی نے کانپور کی دلاری مسجد میں پڑھانا شروع کیا۔ ان کے تدریسی طریقہ کار سے متاثر ہوکر انھیں مدرسہ فیض عام کے مہتمم نے وہاں پڑھانے کے لیے بلایا تھا۔ محمد علی نے کچھ مہینوں تک وہاں تدریسی خدمت انجام دی، پھر بیمار ہو گئے اور تدریس موقوف کر دیا۔[9] اس سے قبل انھوں نے سہارنپور (جہاں انھوں نے احمد علی سہارنپوری سے تعلیم حاصل کی تھی) کا سفر کرنے سے پہلے اس مدرسہ میں تقریباً دو سال تک پڑھائی کی تھی۔[9]

1892ء میں مدرسہ فیض عام کانپور کے سالانہ جلسۂ دستار بندی کے دوران؛ علما کی ایک مجلس مشاورت نے متفقہ طور پر یہ طے کیا کہ علما کی ایک مستقل انجمن تشکیل دی جائے اور اس کا پہلا اجلاس عام اگلے سال ہی کیا جائے۔[10] چناں چہ اجلاس ہوا اور اس انجمن کا نام ندوۃ العلماء رکھا گیا اور محمد علی اس کے پہلے ناظم مقرر کیے گئے۔[10] حبیب الرحمن خان شیروانی کے مطابق؛ محمد علی پہلے وہ شخص تھے، جن کے ذہن میں ندوۃ العلماء کے قیام کا خیال پیدا ہوا۔[10] اس طرح انھیں ندوۃ العلماء کے بانی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، جو بھارت کے بڑے اسلامی مدارس میں سے ایک ہے۔[11] محرم 1313ھ میں انھوں نے ندوۃ العلماء کے تحت ایک دار العلوم کا اپنا خاکہ پیش کیا، جو منظور بھی ہوا اور اس کے پانچ ماہ بعد انھوں نے اس کے تعلیمی نصاب کا مسودہ پیش کیا، جس کا نام "مسودۂ دار العلوم" تھا۔[12]

رجب 1313ھ میں انھوں نے استعفی کے لیے درخواست دی؛ تاہم اس کو منظور نہیں کیا گیا اور عبد الحی حسنی کو ان کا مددگار ناظم مقرر کیا گیا۔[13] ان کا دار العلوم کا خاکہ اپریل 1896ء میں بریلی میں ندوۃ العلماء کے اجلاس میں متفقہ طور پر قبول کیا گیا۔[14] ان کا استعفی 19 جولائی 1903ء کو منظور کیا گیا تھا۔[15] اس کے بعد وہ مستقل طور پر مونگیر منتقل ہو گئے۔[16]

1901ء میں محمد علی نے مونگیر میں خانقاہ رحمانیہ قائم کیا۔[11][17] یہ وہاں مذہبی اور روحانی گفتگو کیا کرتے تھے۔ تصوف میں ان کے مریدین کی تعداد چار لاکھ بتائی گئی ہے۔[18] انھوں نے تصوف پر ایک مختصر مضمون تحریر کیا، جس کا عنوان ارشاد رحمانی ہے۔[19]

محمد علی نے ہندوستانی مسلمانوں میں عیسائیت کی عموم و پھیلاؤ کو روکنے کے لیے 1289 ہجری میں ایک اخبار منشورِ محمدی شروع کیا۔ عیسائی مشنریوں منشی صفدر علی اور عماد الدین کی تحریریں اس وقت کافی مقبول و شائع ہو رہی تھیں۔ منشورِ محمدی کے ذریعہ محمد علی نے اسلام کے دفاع میں لکھا اور عیسائی مشنریوں کو مناظرہ کی دعوت دی، جنھوں نے جواب نہیں دیا اور انھوں نے دین اسلام پر قائم رہنے کے لیے عقائد میں کمزور مسلمانوں کی مدد کی اس طرح سے کہ اس اخبار کے ذریعہ مسلمان؛ مشنریوں کے دعووں کی حقیقت سے اچھی طرح واقف ہو گئے۔[20] یہ اخبار پانچ سال بعد رک گیا، جب محمد علی؛ احمد علی سہارنپوری کے پاس علم حدیث کی تکمیل کے لیے گئے تھے۔[20] محمد علی نے غریب مسلمانوں کے بچوں کی مدد کے لیے کانپور میں اسلامی یتیم خانہ کا مرکز بھی قائم کیا؛ تاکہ وہ عیسائیت کا شکار نہ ہوں۔ اس مرکز میں مسلمانوں کے بچوں کو تعلیم کے علاوہ کاریگری کی مہارت بھی سکھائی جاتی تھی۔[21]

وفات اور پسماندگان

ترمیم

مولانا محمد علی مونگیری کی وفات 13 ستمبر 1927 کو ہوئی[11] ان کے بیٹے منت اللہ رحمانی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی بانی شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔[22] ان کے پوتے محمد ولی رحمانی نے رحمانی 30 انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھی۔[23]

قلمی خدمات

ترمیم

رد عیسائیت پر

ترمیم

معظم علی عیسائیت پر تنقید کرتے ہوئے مرآۃ الیقین لکھا ہے۔ اس کتاب میں آپ نے رحمت اللہ کیرانوی کے اعجازِ عیسوی کا دفاع کیا، جس پر پادری عماد الدین نے حدیث المسلمین کے ذریعے تنقید کرنے کی کوشش کی تھی۔ مرآۃ الیقین میں مولانا محمد علی نے ثابت کر دیا کہ عیسائی علما اناجیل کی تحریف کا خود اقرار کرتے ہیں اور مولانا کیرانوی نے جو کچھ بھی لکھا وہ صحیح تھا۔[24]

1297 ہجری میں محمد علی نے منشی صفدر علی کی کتاب نیا زمانہ کے رد عمل کے طور پر آئینۂ اسلام لکھا۔ انھوں نے 1295ھ میں ترانۂ حجازی اور 1302ھ میں دفع التلبیسات لکھی۔ بعد میں انھوں نے ساطع البرہان اور براہین قاطعہ بھی لکھیں۔[25] انھوں نے منشی صفدر علی کی کتاب نیا زمانہ اور ٹھاکر داس کی کتاب عدمِ ضرورتِ قرآن کے جواب میں پیغامِ محمدی بھی تصنیف کی۔ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے اور اسے مولانا محمد علی کی رد عیسائیت پر بڑی خدمت تصور کیا جاتا ہے۔[25]

رد قادیانیت پر

ترمیم

مولانا محمد علی ان ممتاز علمائے دین میں شامل تھے، جنھوں نے عیسائیوں سے مناظرہ کیا۔ انھوں نے ان کے خلاف ایک سو سے زائد کتابیں اور مضامین تصنیف کیں۔[26] انھوں نے تین جلدوں میں فیصلۂ آسمانی نامی کتاب لکھی۔[27] رد قادیانیت پر ان کی دیگر کتابوں میں شہادتِ آسمانی ، چشمۂ حدیث ، معیارِ صداقت ، حقیقت المسیح اور تنزیہ ربانی شامل ہیں۔[28]

حوالہ جات

ترمیم
  1. شمس تبریز خان (2015)۔ تاریخ ندوۃ العلماء۔ 2۔ لکھنؤ: مجلس صحافت و نشریات۔ صفحہ: 31 
  2. ^ ا ب سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری : بانی ندوۃ العلماء۔ صفحہ: 31 
  3. سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری : بانی ندوۃ العلماء۔ صفحہ: 32 
  4. ^ ا ب سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری : بانی ندوۃ العلماء۔ صفحہ: 35–36 
  5. سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری : بانی ندوۃ العلماء۔ صفحہ: 37–38 
  6. شاہد سہارنپوری۔ علمائے مظاہر علوم اور ان کی علمی و تصنیفی خدمات۔ 1 (2005 ایڈیشن)۔ سہارنپور: مکتبہ یادگارِ شیخ۔ صفحہ: 287 
  7. سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری : بانی ندوۃ العلماء۔ صفحہ: 43–44 
  8. عبد الرشید ارشد۔ مدیر: نواز دیوبندی۔ سوانح علمائے دیوبند۔ 2۔ صفحہ: 258 
  9. ^ ا ب سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری: بانی ندوۃ العلماء۔ صفحہ: 45–46 
  10. ^ ا ب پ سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری: بانی ندوۃ العلماء۔ صفحہ: 107–109 
  11. ^ ا ب پ اسیر ادروی (2 اپریل 2016)۔ تاریخ مشاہیر ہند: کاروان رفتہ (بزبان Urdu)۔ دیوبند: دار المؤلفین۔ صفحہ: 235 
  12. سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری: بانی ندوۃ العلماء (چوتھا، مئی 2016 ایڈیشن)۔ صفحہ: 130 
  13. سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری: بانی ندوۃ العلماء۔ صفحہ: 141–142 
  14. سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری: بانی ندوۃ العلماء۔ صفحہ: 145–146 
  15. سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری: بانی ندوۃ العلماء۔ صفحہ: 238 
  16. سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری: بانی ندوۃ العلماء۔ صفحہ: 237 
  17. "Life and work of Maulana Mohammad Wali Rahmani"۔ ملّی گزیٹ۔ 24 دسمبر 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 جولا‎ئی 2021 
  18. سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری : بانی ندوۃ العلماء۔ صفحہ: 296 
  19. سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری : بانی ندوۃ العلماء۔ صفحہ: 318 
  20. ^ ا ب سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری : بانی ندوۃ العلماء۔ صفحہ: 57–60 
  21. سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری : بانی ندوۃ العلماء۔ صفحہ: 61 
  22. نور عالم خلیل امینی۔ "مولانا جلیل القدر عالم -قائد امیرِ شریعت: حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی - چند یادیں"۔ پسِ مَرگِ زندہ (پانچواں، 5 فروری، 2017 ایڈیشن)۔ دیوبند: ادارہ علم و ادب۔ صفحہ: 214–238 
  23. "Imarat Shariah head passes away in Patna"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 4 اپریل 2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 جولا‎ئی 2021 
  24. سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری : بانی ندوۃ العلماء۔ صفحہ: 66 
  25. ^ ا ب سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری : بانی ندوۃ العلماء۔ صفحہ: 67–71 
  26. سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری : بانی ندوۃ العلماء۔ صفحہ: 240 
  27. سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری : بانی ندوۃ العلماء۔ صفحہ: 253 
  28. سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری : بانی ندوۃ العلماء۔ صفحہ: 261 
  1. معلوم ہو کہ اسی نام سے دو اور کتابیں ہیں: ایک خلیل احمد انبہٹوی کی، دوسری حکیم محمد اختر کی ترتیب کردہ ۔
  2. معلوم ہو کہ اسی نام سے دو اور کتابیں ہیں: ایک خلیل احمد انبہٹوی کی، دوسری حکیم محمد اختر کی ترتیب کردہ۔

کتابیات

ترمیم
  • سید محمد الحسنی (مئی 2016)۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری : بانی ندوۃ العلماء (چوتھا ایڈیشن)۔ لکھنؤ: مجلس صحافت و نشریات، ندوۃ العلماء 
  • عبد الرشید ارشد۔ "حضرت مولانا سید محمد علی مونگیری"۔ $1 میں نواز دیوبندی۔ سوانح علمائے دیوبند (بزبان Urdu)۔ 2 (جنوری 2000 ایڈیشن)۔ دیوبند: نواز پبلیکیشنز۔ صفحہ: 254–362 

مزید دیکھیے

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم