صبا متھراوی
رفیع احمد المعروف صبا متھراوی (پیدائش: 30 نومبر 1916ء - 14 اکتوبر 1988ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے ممتاز شاعر اور افسانہ نگار تھے۔ انھیں سیماب اکبرآبادی سے شرفِ تلمیذ حاصل تھا۔ انھوں نے نعت، مناقب، غزل، نغمات، تاریخ گوئی کے علاوہ رزمیہ نظمیں بھی لکھیں، منظوم تراجم بھی کیے اور منظوم خاکے بھی تحریر کیے۔
صبا متھراوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (اردو میں: رفیع احمد) |
پیدائش | 30 نومبر 1916ء متھرا ، اتر پردیش ، برطانوی ہند |
وفات | 14 اکتوبر 1988ء (72 سال) کراچی ، پاکستان |
مدفن | سخی حسن |
شہریت | برطانوی ہند پاکستان |
عملی زندگی | |
استاذ | سیماب اکبرآبادی |
پیشہ | شاعر ، افسانہ نگار |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمصبا متھراوی 30 نومبر 1916ءکو متھرا، اتر پردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام رفیع احمد، صبا تخلص جبکہ صبا متھراوی ان کا قلمی نام تھا۔ متھرا میں ان کا خاندان معزز شمار ہوتا تھا۔ مغلیہ سلطنت کے دور سے قضاۃ اور خطابت کے مناسب ان کے خاندان میں نسل در نسل جاری رہے۔ ان کے والد مولوی رضی الدین شاہی عید گاہ میدان متھرا کے خطیب تھے۔ صبا نے مولوی فاضل، ادیب فاضل، منشی کامل کے بعد ہائی اسکول سے انگریزی کی تعلیم حاصل کی۔ درس و تدریس، شعر و سخن، مقالہ نگاری اور افسانہ نگاری ان کے مشاغل رہے۔ کئی اداروں میں شوقیہ طور پر صحافت بھی کی۔ تقسیم ہند سے قبل سیاست میں بھی حصہ لیا اور مسلم لیگ متھرا کے صدر بھی رہے۔ 1935ء میں علامہ سیماب اکبرآبادی کے شاگرد بنے، 1940ء میں فارغ الاصلاح ہوئے۔تقسیم ہند کے بعدکراچی منتقل ہو گئے تھے۔ ان کی کتابوں میں جذبات (غزلیں، 1956ء)، کیفیات (نظمیں)، مشاہدات (تاریخی و تفریحی مقامات کے منظوم خاکے)، درخشاں (افسانوں کا مجموعہ)، سیماب و اقبال کے اسلامی نظریات، وقت کی رفتار، آئینے (ہندوستان سے ہجرت کے منظوم تاثرات)، محاذِ قلم (رزمیہ نظموں کا مجموعہ)، دس ستارے (عشرہ مبشرہ پر منظوم خراجِ عقیدت)، گل افشاں (نغمات)، خطباتِ غوثِ اعظم، ترویجِ فن و تاریخ (تاریخ گوئی مبسوط مقالہ)، سلامِ شوق (بادۂ مشرق کا منظوم اردو ترجمہ)، دربارِ رسالت میں (نعتیہ مجموعہ، 1972ء) اور مصدرِ الہام (غیر منقوط نعتیہ کلام، 1981ء) شامل ہیں۔[1]
نمونۂ کلام
ترمیمنعت
دربارِ رسالت میں کچھ نذرِ وفا لے چل | اشکوں کی نمی لے چل، داغوں کی ضیا لے چل | |
اِک روحِ لطافت کے دربار میں جانا ہے | پھولوں کی ہنسی لے چل، تاروں کی ضیا لے چل | |
انجامِ جنوں اپنا، جو کچھ ہو دلِ مجنوں | تو پیشِ نبی لے چل، چل بہرِ خدا لے چل | |
پھر گنبدِ خضرا سے، حضرت نے بلایا ہے | اے دل کی تڑپ لے چل، اے سوزِ وفا لے چل | |
خورشیدِ رسالت کے، دربار میں جانا ہے | چمکے جو قیامت تک، وہ داغ، صبا! لے چل[2] |
وفات
ترمیمصبا متھراوی 14 اکتوبر 1988ء کو کراچی، پاکستان میں انتقال کر گئے۔ وہ کراچی میں سخ حسن قبرستان میں مدفون ہیں۔[3]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ منظر عارفی، کراچی کا دبستان نعت، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2016ء، ص 327
- ↑ کراچی کا دبستان نعت، ص 329
- ↑ ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات نعت گویان پاکستان،نعت ریسرچ سینٹرکراچی، 2015ء، ص 66