محمد منیر احمد سلیچ
ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ (پیدائش:3 جنوری، 1968ء) اردو اور پنجابی زبان کے نامور محقق، فیض شناس، تدوین کار، وفیات نگار اور مترجم ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے سائیکائٹرسٹ ہیں لیکن اردو ادب میں وفیات نگاری کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔[1] وفیات ناموران پاکستان، گجرات پیڈیا، خفتگان خاک گجرات، وفیات نعت گویان پاکستان، اقبال اور گجرات، تنہائیاں بولتی ہیں ،وفیات مشاہیر لاہور، وفیات مشاہیر کراچی، وفیات مشاہیر خیبر پختونخوا اور فیض پر شائع ہونے والی تحقیقی کتاب نوادراتِ فیض ان کے قلمی شاہکار ہیں۔ وہ اب تک بیس ہزار نامور پاکستانیوں کی وفیات لکھنے کا منفرد اعزاز رکھتے ہیں۔ وہ راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی میں سائیکائٹری کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور انسٹی ٹیوٹ آف سائیکائٹری راولپنڈی کے سربراہ تعینات رہ چکے ہیں۔ آج کل کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور کے شعبہ سائیکائٹری میں بطور پروفیسر اور چیئرمین خدمات انجام دے رہے ہیں۔
محمد منیر احمد سلیچ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 3 جنوری 1968ء (56 سال) گجرات ، پاکستان |
شہریت | پاکستان |
عملی زندگی | |
مادر علمی | گورنمنٹ زمیندار کالج، گجرات کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان |
تعلیمی اسناد | ایم بی بی ایس ، فیلو آف کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان ، ایم اے |
پیشہ | نفسیاتی معالج ، محقق ، پروفیسر |
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، پنجابی |
ملازمت | محکمہ صحت پنجاب ، بینظیر بھٹو ہسپتال ، راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی ، کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی |
کارہائے نمایاں | خفتگان خاک گجرات ، وفیات ناموران پاکستان ، وفیات اہل قلم ، تنہائیاں بولتی ہیں ، گجرات پیڈیا ، وفیات نعت گویان پاکستان ، وفیات مشاہیر کراچی ، بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ ، وفیات مشاہیر لاہور ، وفیات مشاہیر خیبر پختونخوا ، نوادرات فیض |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
پیدائش
ترمیمڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ 3 جنوری 1968ء کو ضلع گجرات کے نواحی گاؤں لوراں میں پیدا ہوئے۔ سرکاری کاغذات میں ان کی تاریخ پیدائش 6 جنوری 1968ء درج ہے۔ والدین نے ان کا نام محمد منیر رکھا۔ وہ اپنے والدین کی آخری اولاد تھے۔ ان کے والد کا نام حاجی اللہ دتاسلیچ ہے جو 27 مئی 1998ء کو وفات پا گئے۔[2][3][4]
تعلیم
ترمیممحمد منیر نے 1978میں گاؤں کے پرائمری اسکول سے پرائمری جماعتیں پاس کیں اور پانچوں جماعتوں میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اپریل 1978ء میں انھوں نے قریبی قصبے مدینہ سیداں گجرات کے گورنمنٹ ریاض الدین احمد (آر اے) ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ انھوں نے مڈل کے بورڈ کے امتحان میں اسکول میں پہلی پوزیشن اور ذہانت کا وظیفہ حاصل کیا ۔[2] 24 جون 1983ء کو میٹرک کا نتیجہ نکلا۔ منیر احمد نے 850 میں سے 686 نمبر حاصل کیے، اسکول میں ا ول رہے اور وظیفہ ذہانت حاصل کیا۔[5]
منیر احمد نے 20 اگست 1983ء کو گجرات کے سب سے نمایاں اور تاریخی کالج زمیندار کالج میں ایف ایس سی پری میڈیکل میں داخلہ لیا۔ یہاں انھیں اچھے اساتذہ ملے اور وہ جلد ہی اپنے جماعت اور پھر پورے کالج کے نمایاں طالب علم بن گئے۔ یہاں بھی انھوں نے ہم نصابی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا اور کئی انعامات جیتے۔ 22 مارچ 1984ء کو اقبال اور قرارداد پاکستان کے موضوع پر مضمون نویسی کے مقابلے میں پورے کالج میں اول آئے، جس کی بنا پر انھیں مظفر محمود قریشی ایوارڈ ملا۔ اسی طرح 7 نومبر 1984ء کو اقبال اور تحریک پاکستان کے موضوع پر گوجرانوالہ ڈویژن کے تمام بوائز و گرلز کالجز کے درمیان ہونے والے مضمون نویسی کے مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ اگلے روز 75 فیصد ووٹوں کے ساتھ کالج کی اسٹوڈنٹس بیالوجیکل سوسائٹی کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ 29 نومبر 1984ء کو کالج کے یوم سیرت النبی پر ہونے والے تقریری مقابلے میں پہلا انعام جیتا۔ یہیں 30 نومبر 1984ء کو انھوں نے اپنی زندگی کی اولین غزل لکھی اور اپنے استاد پروفیسر سیف الرحمٰن سیفی سے اس پر اصلاح لی۔ اپریل 1985ء میں ایف ایس سی کے امتحانات ہوئے اور 26 اگست کو نتیجہ برآمد ہوا۔ منیر احمد نے 781 نمبروں کے ساتھ جماعت میں پہلی، کالج میں دوسری اور گوجرانوالہ بورڈ میں چوتھی پوزیشن حاصل کی، انھیں وظیفہ ذہانت کا حقدار ٹھہرایا گیا جو انھیں اگلے پانچ سال تک میڈیکل کالج میں ملتا رہا۔ اسی زمیندار کالج کے مجلہ شاہین میں ان کا مضمون اور اردو غزل شائع ہوئیں۔ کالج کے کانووکیشن کے موقع پر اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ چودھری شجاعت حسین کے ہاتھوں انھیں سرٹیفکیٹ آف میرٹ ملا۔[5]
منیراحمد نے دسمبر 1985ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ اکتوبر 1986 میں سال اول کا امتحان پاس کر کے دوسرے سال میں پروموٹ ہوئے۔ 1987ء میں نجی حیثیت میں بی اے کی سند حاصل کی جس میں ان کے اختیاری مضامین اسلامیات، پنجابی اور فارسی تھے۔ پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے 1990ء میں ایم اے (پنجابی) اور 1992ء میں ایم اے (اردو) کی اسناد حاصل کیں۔[6] 10 جون 1992ء کو میڈیکل کالج کی تعلیم کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ 1 جولائی 1992ء تا 30 جون 1993ء انھوں نے میو ہسپتال لاہور کے شعبہ نفسیات (سائیکاٹری) میں پورے ایک سال کا ہاؤس جاب مکمل کیا۔[7]
ملازمت
ترمیمڈاکٹر منیر احمد سلیچ ایم بی بی ایس کی سند حاصل کرنے اور ہاؤس جاب مکمل کرنے کے بعد اپنے شہر گجرات واپس آئے اور 20 اگست 1993ء کو اپنے گاؤں لوراں میں کلینک کھولا۔ اکتوبر 1995ء میں پنجاب پبلک سروس کمیشن میں بطور میڈیکل آفیسر تقرری کے لیے انٹرویو دیا اور 13 اپریل 1996ء سے پنجاب کے محکمہ صحت میں باقاعدہ ملازمت کی شروعات کی۔ ان کی تقرری ضلع گجرات کے قصبے عالم گڑھ میں ہوئی۔ یہاں انھوں نے جولائی 1998ء تک کام کیا۔ اس زمانے میں کسی بھی ڈاکٹر کے لیے اسپیشلائزیشن کرنے سے پہلے رورل ایریامیں دو سال سروس لازمی تھی[7]، رورل ایریامیں دو سال کی لازمی سروس کی شرط پوری ہونے پر وہ سائیکائٹری میں اسپیشلائز کرنے کے لیے راولپنڈی منتقل ہو گئے اور یکم اگست 1998 کو راولپنڈی جنرل ہسپتال (جو اب بنظیر بھٹو ہسپتال کہلاتا ہے)کے ذہنی امراض کے شعبے میں پروفیسر ڈاکٹر مبشر ایچ ملک کی نگرانی میں بطور میڈیکل آفیسر خدمات انجام دینے لگے۔ ڈاکٹر منیر احمد کی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر مبشر ملک نے انھیں 1999ء اور 2000ء میں Community Mental Health Bulletin کا ایڈیٹر بھی بنا دیا۔ 8 مئی 2002ء یں ڈاکٹر منیر نے سائیکاٹری میں اسپیشلائز کیا اور ایم سی پی ایس (ممبر آف کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز) کا امتحان پاس کیا۔ اسی برس 6 ستمبر کو انھیں سائیکاٹری ڈیپارٹمنٹ کا رجسٹرار بنا دیا گیا۔ اسی شعبے میں کام کرتے ہوئے انھوں نے 11 اپریل 2006ء کو سائیکاٹری کے شعبے میں ایف سی پی ایس (فیلو آف کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز) کی ڈگری بھی حاصل کر لی۔ یکم اگست 2006ء کو بطور سایئکاٹرسٹ پریکٹس کا آغاز کیا۔ 20 مئی 2007ء کو انھیں برٹش کونسل کے ایک اسکالر شپ پروگرام پر ریسرچ ٹریننگ کے لیے برطانیہ کے شہر لیڈز بھیجا گیا۔ 3 ستمبر 2007ء سے راولپنڈی جنرل ہسپتال کے شعبہ سائیکاٹری میں بطور سینئر رجسٹرار (گریڈ اٹھارہ) میں خدمات انجام دینے لگے۔28 جنوری 2009ء کو کنٹریکٹ پر انھیں اسسٹنٹ پروفیسر کی اسامی دی گئی۔ اسی سال وہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، لاہور کے ایم بی بی ایس کے ممتحن بنائے گئے۔ 27 ستمبر 2011ء کو انھیں مستقل اسسٹنٹ پروفیسر بنا دیا گیا، جون 2012ء میں انھیں کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کا ایف پی سی ایس کے لیے سپروائزر / ٹرینر بنا دیا گیا۔ 2013ء میں کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کا ممتحن (Paper Asseser) بھی بنا دیا گیا۔ 2016ء میں انھیں ایم سی پی ایس اور 2018ء میں ایف سی پی ایس کا ممتحن بنا دیا گیا۔ 23 اپریل کو انھیں شعبہ سائیکاٹری میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ 16 جون 2022ء کو انھیں انسٹی ٹیوٹ آف سائیکائٹری راولپنڈی کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ 22 مارچ 2023ء کو انھیں پروفیسر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور کے شعبہ سائیکائٹری میں بطور پروفیسر اور چیئرمین خدمات انجام دے رہے ہیں۔[8]
تصانیف و تالیفات
ترمیمڈاکٹر منیر احمد سلیچ کی اولین تحقیقی کاوش اگرچہ اقبال اور گجرات تھی لیکن پہلی مطبوعہ کتاب خفتگانِ خاکِ گجرات ہے جو اکتوبر 1996ء میں سلیچ پبلی کیشنز گجرات نے شائع کی۔ یہ کتاب 320 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں انھوں نے ضلع گجرات کے طول و عرض میں مدفون مشاہیر کے مختصر حالاتِ زندگی درج کیے ہیں، ساتھ ساتھ ان کے مدافن کی نشان دہی کی اور ان کے الواحِ قبور پر کندہ عبارتیں بھی درج کیں۔ اس کتاب کے پہلے باب (روح کارواں) میں 145 شخصیات کے حالات اور قبروں کے کتبے دیے گئے ہیں۔ دوسرے باب (پس کارواں) میں 96 شخصیات کا مختصر تعارف، مدافن کی نشان دہی اور تاریخِ وفات دی گئی ہیں۔ آخری باب (جو کارواں سے بچھڑ گئے) میں ایسے 43 مشاہیر کا مختصر تعارف، جائے تدفین اور تاریخ ہائے وفات دی گئی ہیں جو گجرات سے باہرمدفون ہیں۔[9]
احوال و کلام مولوی نور الدین انور
ترمیمیہ ڈاکٹر منیر احمد کی دوسری مطبوعہ کتاب ہے، جسے سلیچ پبلی کیشنز گجرات نے جولائی 1997ء میں شائع کیا۔ اس کی ضخامت 192 صفحات ہے۔ یہ کتاب میں خوشی محمد ناظر کے استاد، معروف شاعر اور ماہر تعلیم مولوی نور الدین انور کا اردو، فارسی و پنجابی کلام اور مختصر سوانح حیات مرتب کی گئی ہے۔ اس کتاب کے تین حصے ہیں ۔ حصہ اول: احوالِ انوار پر مشتمل ہے جس میں ان کے خاندان کی تفصیل، شجرہ نسب اور اہم شاگردوں کے حالات بھی دیے گئے ہیں۔ حصہ دوم: کلامِ انور پر مبنی ہے جس میں ان کا اردو، پنجابی اور فارسی کلام دیا گیا جس میں غزلیات، نظمیں، طنز و مزاح اور قطعاتِ تاریخیہ شامل ہیں۔ حصہ سوم: فراقِ شوق مولوی نور الدین کے جواں مرگ صاحبزادے محمد ابراہیم شوق کی وفات پر مولوی نور الدین اور ان کے احباب کے کہے ہوئے مراثی پر مبنی ہے۔ کتاب کے آخر میں مولوی نور الدین انور کا منظوم شجرہ نسب بھی دیا گیا ہے جو شیخ محمد عظیم کی کاوش ہے۔[10]
ضلع گجرات کے پنجابی نعت گو شعرا
ترمیمیہ کتاب ضلع گجرات کے پنجابی نعت گو شعرا کا تذکرہ ہے جو ماہنامہ نعت لاہور کے ستمبر 1997ء کے خاص شمارے کی شکل میں راجا رشید محمود کی زیرِ ادارت شائع ہوا۔ ضخامت 96 صفحات ہے۔ اس میں 77 شعرا کے مختصر حالات اور نمونے کی ایک ایک نعت شامل ہے۔[11]
ضلع گجرات کے اردو نعت گو شعرا
ترمیمماہنامہ نعت لاہور کا فروری 1998ء کا شمارہ اس مقابلے پر مبنی ہے جو ڈاکٹر منیر احمد نے ضلع گجرات کے اردو نعت گو شعرا کے مختصر حالات مع نمونہ کلام پر لکھا تھا۔اس میں 82 شعرا کرام کا تذکرہ ہے، جو 92 صفحات پر مشتمل ہے۔[11]
اقبال اور گجرات
ترمیمیہ ڈاکٹر منیر احمد کی اولین تحقیقی کاوش تھی جس پر انھوں نے برسوں محنت کی۔ اسے اہم کتاب کو سلیچ پبلی کیشنز گجرات نے اگست 1998ء میں شائع کیا۔ یہ 416 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا پیش لفظ نامور ماہرِ اقبالیات اور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے تحریر کیا ہے۔ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں علامہ اقبال کے بزرگوں کے گجرات سے تعلق، دوسرے باب میں اقبال کی قاضی سلطان محمود کے ہاتھ بیعت کی تفصیلات، تیرے باب میں علامہ اقبال کی گجرات میں ہونے والی پہلی شادی کی تمام تفصیلات اور سسرالی خاندان کا تذکرہ، چوتھے باب میں اقبال کے ا ہلِ گجرات سے تعلقات کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ پانچواں باب اقبال شناسی میں اہلِ گجرات کے کردار پر مشتمل ہے، جبکہ آخری باب میں شعرائے گجرات کے اقبال کے حضور خراج عقیدت پر مبنی ہے۔ کتاب کے آخر میں دستاویزات اور خطوط کے عکس بھی دیے گئے ہیں۔[11]
وفیاتِ نامورانِ پاکستان
ترمیمڈاکٹر منیر احمد نے اس کتاب میں 14 اگست 1947ء سے 31 دسمبر 2004ء تک وفات پانے والی تقریباً دس ہزار اہم پاکستانی شخصیات کا مختصر تعارف اور مستند تاریخ ہائے وفات درج کی ہیں۔ اسے اردو سائنس بورڈ لاہور نے اپریل 2006ء میں شائع کیا تھا۔ یہ کتاب بڑے سائز کے 955 صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کے شروع میں آتشِ رفتہ کا سراغ کے عنوان سے مؤلف کا لکھ ہوا 12 صفحات پر مبنی دیباچہ اور 10 صفحات پر مشتمل اسلامی ادب میں وفات نویسی کی روایت کے عنوان سے ڈاکٹر عارف نوشاہی کا لکھا ہوا مقدمہ ہے جس میں انھوں نے عربی، فارسی اور اردو میں وفیات نگاری کی روایت کا جائزہ لیا ہے۔ اس کے بعد مؤلف کا تحریر کردہ اردو میں وفیات نگاری: 1947ء سے 2004ء تک شائع ہونے والی کتب کا مختصر تحقیقی و تنقیدی جائزہ کے نام سے 56 صفحات پر پھیلا ہو مقالہ ہے جس میں پاکستان اور بھارت میں اردو زبان میں شائع ہونے والی 14 میں سے 12 کتابوں کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب کی ہر انٹری میں شخصیت کا تعارف، کارنامے، اعزازات، کتب، ولدیت، تاریخِ ولادت، تاریخِ وفات، جائے تدفین اور ان معلومات کا ماخذ دیا گیا ہے۔[12]
ڈاکٹر منیر احمد سلیچ کی وفیات کے موضوع پر یہ تیسری کتاب ہے اور اسے اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد نے 2008ء میں شائع کیا تھا۔ 573 صفحات کی اس کتاب میں 15 اگست 1947ء سے 14 اگست 2007ء تک وفات پانے والے 4,200 پاکستانی اہلِ قلم کے مختصر حالات، اہم کتب اور مستند تاریخِ وفات شامل ہیں، ساتھ ہی ساتھ ان کے مدافن کی نشان دہی بھی اس کتاب میں کی گئی ہے۔[13]
وفیات کے موضوع پر ڈاکٹر منیر احمد سلیچ کی یہ چوتھی کتاب ہے جسے نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد نے مئی 2012 میں شائع کیا۔ اس کی ضخامت 710 صفحات ہے۔ اس کتاب میں اسلام آباد کے قبرستانوں میں مدفون تقریباً 500 شخصیات کے حالات اور الواحِ قبور کی عبارات دی گئی ہیں۔ ان شخصیات کا تعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی سے ہے۔ 367 شخصیات کے احوال، تصاویر، الواحِ قبور کی عبارات اور ان کا عکس، جبکہ مزید 133 شخصیات کے مختصر حالاتِ زندگی اور مدافن کی نشان دہی بھی اس کتاب میں کی گئی ہے۔ کتاب میں درج ان شخصیات کی اکثریت ایچ ایٹ اور ایچ الیون سیکٹر کے قبرستانوں میں مدفون ہے۔ اس کے علاوہ گولڑہ شریف، بری امام اور دیگر قبرستوں میں آسودہ خاک اہم شخصیات پر بھی تحقیق کی گئی ہے۔ اس کتاب کو 2012ء میں پاکستان میں چھپنے والی نان فکشن کتابوں میں بہترین قرار دے کر یو بی ایل جنگ لٹریری ایلسی لینس ایوارڈ - 2013ء کا حقدار ٹھہرایا گیا۔[14]
پیر فضل گجراتی: حیاتی تے باقی کلام
ترمیمیہ کتاب پنجابی زبان کے مشہور شاعر پیر فضل حسین گجراتی کی اولین تفصیلی سوانح اور ان کے غیر مطبوعہ و غیر مدون کلام پر مبنی ہے۔ یہ ڈاکٹر منیر احمد سلیچ کی پنجابی زبان میں پہلی تصنیف ہے۔ اسے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگویج، آرٹس اینڈ کلچر لاہونے مئی 2012ء میں شائع کیا۔ اس کتاب کی ضخامت 330 صفحات ہے۔[15]
یہ تالیف ضلع گجرات کا جغرافیائی، سیاسی، تہذیبی، معاشرتی اور ادبی جائزے پر مبنی ہے۔ اس کے مدیران احمد سلیم اور ڈاکٹر امجد علی بھٹی ہیں جبکہ نظرثانی، تصحیح و اضافہ ڈاکٹر منیر احمد سلیچ نے کیا ہے۔ اس کی ضخامت 897 صفحات ہے اور اسے یونیورسٹی آف گجرات نے نومبر 2012ء میں شائع کیا ہے۔ اس میں ڈاکٹر منیر سلیچ کی متعدد تحریریں شامل ہیں۔ وفیاتِ مشاہیرِ گجرات کے عنوان سے ایک مکمل باب ڈاکٹر منیر سلیچ کا لکھا ہوا ہے جو 90 صفحات پر محیط ہے، اس میں تقریباً 500 شخصیات کی وفیات درج ہیں۔[16]
ترا ذکر کس نے چھیڑا
ترمیمیہ کتاب گجرات کے معروف شاعر لال محمد عاصی رضوی کے منتخب اردو کلام پر مشتمل ہے۔ یہ مختصر کتاب 80 صفحات پر محیط ہے۔ ڈاکٹر منیر سلیچ نے یہ کلام کئی برسوں کی محنت سے جمع کیا اور ترتیب دیا ہے۔ یہ کتاب جنوری 2014ء میں شائع ہوئی۔ [17]
سجرے پھٹ
ترمیمیہ کتاب گجرات کے شاعر لال محمد عاصی رضوی کے منتخب مطبوعہ و غیر مطبوعہ پنجابی کلام پر مشتمل ہے۔ 160 صفحات پر مشتمل یہ کتاب پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگویج، آرٹس اینڈ کلچر لاہور نے جون 2014ء میں شائع کی۔[18]
گجرات کا علمی سرمایہ
ترمیمیہ تالیف ڈاکٹر منیر سلیچ کی تیس برس کی محنت کا نتیجہ ہے۔ اس کی ضخامت 352 صفحات ہے اور اسے یونیورسٹی آف گجرات نے جولائی 2015ء میں شائع کیا۔ اس کتاب میں ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے 765 مصنفین کی 173 برسوں میں چھپنے والی 3,200 علمی و ادبی کتب کے 3,900 ایڈیشنوں کی کتابیاتی فہرست مہیا کی گئی ہے۔[18]
یہ کتاب 27 رمضان المبارک 1366ھ (15 اگست 1947ء) سے 26 رمضان المبارک 1436ھ (14 جولائی 2015ء) تک وفات پانے پاکستان کے 480 نعت گو شعرا کے مختصر تذکرے پر مبنی ہے۔ یہ کتاب مولف نے ممتاز نعت گو شاعر و نعت خواں صبیح الدین رحمانی کی فرمائش پر مرتب کی جسے نعت ریسرچ سینٹر کراچی نے اگست 2015ء میں شائع کیا ہے۔ اس کتاب کے کی ضخامت 140 صفحات ہیں۔[19]
وفیاتِ مشاہیر کراچی
ترمیماس کتاب میں 14 اگست 1947ء سے 31 دسمبر 2015ء کے درمیانی مدت میں وفات پانے والے کراچی سے تعلق رکھنے والے مشاہیر کی وفیات درج ہیں۔ اس کتاب کی ضخامت 325 صفحات ہے اور اسے قرطاس پبلی کیشنز کراچی نے اپریل 2016ء میں شائع کیا ہے۔[20]
بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ
ترمیماس کتاب میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایسے ممتاز اردو اہلِ قلم کا تعارف، کتابیات اور مشمولہ شخصیات کی تاریخِ وفات درج ہیں جو 14 اگست 1947ء سے 14 اگست 2017ء کے درمیانی عرصے میں انتقال کر گئے تھے۔ اس کتاب کی ضخامت 472 صفحات ہے اور اسے قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل لاہور نے 2018ء میں شائع کیا ہے۔[20]
وفیاتِ مشاہیرِ لاہور
ترمیمیہ کتاب 14 اگست 1947ء سے 31 اگست 2018ء کے درمیانی عرصے میں وفات پانے والی لاہور سے تعلق رکھنے والی مشہور شخصیات کے مختصر کوائف، کتابیات اور تاریخِ وفات پر مبنی ہیں۔ اس کتاب کی ضخامت 430 صفحات ہے اور اسے قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل لاہور نے 2018ء میں شائع کیا ہے۔
وفیاتِ مشاہیرِ خیبر پختون خوا
ترمیمیہ کتاب 14 اگست 1947ء سے 14 فروری 2019ء کے درمیانی مدت میں وفات پانے والی صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی مشہور شخصیات کے مختصر کوائف، کتابیات اور تاریخِ وفات پر مبنی ہے۔اے فور سائز کے 300 صفحات کی یہ کتاب قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل لاہور نے 2019ء میں شائع کی ہے۔
ادبی مشاہیر کے خطوط
ترمیمزیر نظر کتاب ایسے 171 خطوط پر مشتمل ہے جو 58 شعرا و ادبا نے ڈاکٹر منیر احمد سلیچ کو وقتاً فوقتاً لکھے تھے۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ ہر مکتوب نگار کا مختصر تعارف دینے کے ساتھ ساتھ خطوط میں موجود وضاحت طلب امور کو حواشی میں بیان کیا گیا ہے۔یہ کتاب 320 صفحات پر مشتمل ہے اور اسے قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل لاہور نے 2019ء میں شائع کیا ہے۔
نوادراتِ فیض
ترمیماس کتاب میں فیض احمد فیض کے غیر مطبوعہ و غیر مدون خطوط، شعری باقیات، دیباچے اور فلیپ، کم یاب نگارشات اور تصاویر شامل ہیں۔ نامور شاعر افتخار عارف کے مطابق یہ کتاب ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی عشروں پر محیط علمی تجسس اور جستجو کا ثمرہ ہے۔[21] 488 صفحات پر مشتمل یہ کتاب قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل لاہور نے نومبر 2019ء میں شائع کی ہے۔
اعزازات
ترمیم- بہترین مضمون نگار زمیندار کالج گجرات (85-1984ء)
- مدیر حصہ اردو مجلہ کیمکول (Kemcol) کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور (1990ء)
- بہترین انفرادی اسکورر، کوئز ٹیم ریڈیو پروگرامز، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور (1991ء)
- نشانِ گجرات (خفتگانِ خاکِ گجرات پر 1996ء کی بہترین نثری تصنیف)
- طلائی تمغا امام الدین میموریل سوسائٹی جلالپور جٹاں (1997ء)
- بانی جنرل سیکریٹری پیر فضل ادبی مجلس گجرات (1997ء)
- یو بی ایل جنگ لٹریری ایکسی لینس ایوارڈ (2013ء)
ڈاکٹر منیر احمد سلیچ کے فن پر جامعات میں تحقیق
ترمیم- رخسانہ انور، ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی وفیات نگاری (مقالہ برائے ایم فل)، نگران مقالہ: ڈاکٹر زینت افشاں، شعبہ اردو رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد کیمپس، اپریل 2017ء
- نازیہ چوہدری، “اقبال اور گجرات “کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ (مقالہ برائے ایم فل)، نگران مقالہ: ڈاکٹر خالد اقبال یاسر، شعبہ اقبالیات علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد، 2018ء
- خرم شہزاد خرم، ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی تصنیف “وفیاتِ اہل قلم” کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ (مقالہ برائے ایم اے)، نگران مقالہ: ڈاکٹر زینت افشاں، شعبہ اردو ادبیات یونیورسٹی آف ایجوکیشن، فیصل آباد کیمپس، تعلیمی سال 2014-2016ء
ناقدین و محققن کے تاثرات
ترمیم” | وفیات کے باب میں ڈاکٹر سلیچ نے تو ایک ایسی مثال قائم کر دی ہے جس کی نظیر تا حال کہیں اور نظر نہیں۔ رجال و وفیات پر ان کی تالیفات کا سلسلہ خفتگانِ خاکِ گجرات سے شروع ہوا جس کے بعد ان کی تالیفات وفیاتِ نامورانِ پاکستان، وفیاتِ اہلِ قلم پاکستان اور تنہائیاں بولتی ہیں نے اس روایت کو ایک نہایت وقیع مثال کی صورت میں پیش کیا ہے، جس کی افادیت ہر اہلِ علم و دانش اور مصنفین و محققین خوب جانتے ہیں اور ڈاکٹر سلیچ کے حد درجہ معترف و ممنون بھی ہیں۔ اس روایت میں ان ڈاکٹر سلیچ نے ایک اور اضافہ کیا ہے جو اپنی نوعیت کی منفرد مثال ہے کہ وفیات کو موضوعاتی اعتبار سے وفیاتِ نعت گویانِ پاکستان کے طور پر پیش کیا جائے کہ خاص اس موضوع سے دل چسپی رکھنے یا مطالعہ و تحقیق کرنے والے حضرات اس خاطر خواہ استفادہ کر سکیں۔[22] (نامور محقق ڈاکٹر معین الدین عقیل) | “ |
” | ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کا نام وفیات نگاری کے حوالے سے استناد کا درجہ اختیار کر چکا ہے اور اب تک وفیات و کتبات نگاری پر ان کی متعدد علمی و تحقیقی کاوشیں اہلِ علم سے پسندیدگی کی سند حاصل کر چکی ہیں۔ وفیاتِ نامورانِ پاکستان اور وفیاتِ اہلِ قلم کی شکل میں ان کی ضخیم کتب ہر محقق کی ضرورت بن چکی ہیں اور متعدد محققین ان کتابوں سے اپنی دلچسپی کے موضوعات اور شخصیات کو الگ الگ کر کے نئی کتابیں ترتیب دے رہے ہیں۔[23] (معروف نعت گو شاعر و نعت خواں صبیح الدین رحمانی) | “ |
” | آپ ماشاء اللہ سائنس دان اور میڈیکل ڈاکٹر ہیں، اس پر مستزاد یہ ہے کہ ماہر (نفسیاتی) امراض ہونے کے ساتھ ساتھ بیک وقت اردو اور پنجابی کے ماسٹر ہیں۔ یہ غیر معمولی علمی و تعلیمی اعزازات اللہ کی دین ہیں جو کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ بے شک آپ کی ذاتِ گرامی قوم و ملک کے لیے سرمایہ گراں مایہ ہے۔ اس سعادت کے لیے آپ لائقِ تحسین و آفرین ہیں۔ یہ سب کچھ علم و ادب سے آپ کے انتہائی شغف اور ذوق و شوق کی بدولت ہے۔ آپ کا یہ جذبہ بے کراں دیکھ کر دورِ اسلاف کے علوم و فنون کی روایتی تہذیب یاد آتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو خدمتِ علم و ملت کے لیے ہمیشہ شاداں، تندرست اور سلامت، با کرامت رکھے۔ آمین۔[24] (ڈاکٹر وفا راشدی) | “ |
حوالہ جات
ترمیم- ↑ علی یاسر، اہل قلم ڈائریکٹری،اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد، 2010ء ، ص 276
- ^ ا ب رخسانہ انور، ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی وفیات نگاری (ایم فل مقالہ)، شعبہ اردو رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد کیمپس، 2017ء، ص 3
- ↑ یاسر جواد، انسائیکلوپیڈیا ادبیات عالم، اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد، 2013ء، ص 893
- ↑ اردو جامع انسائیکلوپیڈیا (جلد سوم)، مدیر اعلیٰ: حامد علی خاں، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، 1988ء، ص 218
- ^ ا ب ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی وفیات نگاری، ص 4-5
- ↑ ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم، چند ہم عصر اقبال شناس، بک کارنر جہلم، 2018ء ، ص 714
- ^ ا ب ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی وفیات نگاری، ص 5
- ↑ ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی وفیات نگاری، ص 6
- ↑ ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی وفیات نگاری، ص 12
- ↑ ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی وفیات نگاری، ص 15
- ^ ا ب پ ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی وفیات نگاری، ص 16
- ↑ ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی وفیات نگاری، ص 19
- ↑ ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی وفیات نگاری، ص 22
- ↑ ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی وفیات نگاری، ص 23
- ↑ ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی وفیات نگاری، ص 25
- ↑ ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی وفیات نگاری، ص 26-27
- ↑ ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی وفیات نگاری، ص 27
- ^ ا ب ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی وفیات نگاری، ص 28
- ↑ ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی وفیات نگاری، ص 30
- ^ ا ب ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی وفیات نگاری، ص 31
- ↑ ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، نوادراتِ فیض، قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل لاہور، نومبر 2019ء، پس ورق
- ↑ ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیاتِ نعت گویانِ پاکستان، نعت ریسرچ سینٹر، کراچی، اگست 2015ء، پس ورق
- ↑ وفیاتِ نعت گویانِ پاکستان، ص 7
- ↑ مکتوب ڈاکٹر وفا راشدی بنام ڈاکٹر منیر احمد سلیچ، محررہ 23 فروری 2000ء