صفوان بن امیہ
صفوان بن امیہ یہ امیہ بن خلف مشہور دشمن اسلام کے بیٹے تھے۔
صفوان بن امیہ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | مکہ |
وفات | سنہ 661ء مکہ |
زوجہ | ناجیہ بنت ولید بن مغیرہ |
والد | امیہ بن خلف |
بہن/بھائی | ربیعہ بن امیہ |
عملی زندگی | |
پیشہ | محدث |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمصفوان نام، ابو وہب کنیت، نسب نامہ یہ ہے، صفوان بن امیہ بن خلف بن وہب ابن حمج قرشی،زمانہ جاہلیت میں صفوان کا خاندان نہایت معزز اورمفتخر تھا، ایسار یعنی تیروں سے پانسا ڈالنے کا عہدہ ان ہی کے گھر میں تھا، کوئی پبلک کام اس وقت تک نہ ہو سکتا تھا، جب تک پانسا سے اس کا فیصلہ نہ ہو جائے۔
اسلام سے دشمنی
ترمیمقریش کے دوسرے معززین کی طرح صفوان کا باپ امیہ بھی اسلام کا سخت مخالف تھا، بلال حبشی اسی کی غلام تھے، بدر میں مشرکین کی شکست اور باپ کے قتل نے صفوان کو بہت زیادہ مشتعل کر دیا، ایک دن یہ اور عمیر بن وہب بیٹھے ہوئے بدر کے واقعات کا تذکرہ کر رہے تھے، صفوان نے کہا مقتولین بدر کے بعد زندگی کا مزہ جاتا رہا، عمیر نے جواب دیا سچ کہتے ہو، کیا کہیں اگر قرض کا بار نہ ہوتا اور بال بچوں کے مستقبل کی فکر نہ ہوتی تو محمدﷺ کو قتل کرکے یہ قصہ ہی ختم کر دیتا، صفوان باپ کے خون کے انتقام کے لیے بیتاب تھے، بولے یہ کون سی بڑی بات ہے، میں ابھی تمھارا قرض چکائے دیتا ہوں، رہا اہل و عیال کا معاملہ تو ان کے متعلق بھی یقین دلاتا ہوں کہ تمھارے بعد اپنے بال بچوں کی طرح ان کی کفالت اور خبر گیری کروں گا؛ چنانچہ عمیر کو آمادہ کر کے انھیں ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار دیکر آنحضرتﷺ کا قصہ چکانے کے لیے مدینہ بھیجا، مگر مدینہ پہنچنے کے بعد جب وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے تو راز فاش ہو گیا اور عمیر مسلمان ہو گئے۔[1] 3ھ میں بعض نو مسلم قبائل کی درخواست پر آنحضرت ﷺ نے ان کی تعلیم کے لیے قاری صحابہ کی ایک جماعت بھیجی تھی، راستہ میں بنی لحیان نے ان پر حملہ کر دیا، اس حملہ میں چند صحابہ شہید ہوئے اور چند زندہ گرفتار کیے گئے، گرفتار ہونے والوں میں ایک صحابی زید بن دثنہ تھے، ان کو بیچنے کے لیے مکہ لایا گیا، صفوان نے خرید کر اپنے باپ کے بدلہ میں قتل کیا۔[2]
اس کے بعد صفوان کو اسلام سے پہلے سی پرخاش باقی نہ رہی ؛بلکہ اندرونی طور پر وہ متاثر ہونے لگے؛ چنانچہ 7ھ میں جب غزوہ خیبر پیش آیا تو دوسرے آلاتِ حرب تو مسلمانوں کو مہیا ہو گئے ،لیکن زرہیں نہ تھیں، آنحضرتﷺ نے صفوان سے مانگ بھیجیں، انھوں نے کہا عاریۃ یا غصباً، فرمایا عاریۃً؛چنانچہ صفوان نے چند زر ہیں، عاریۃً دیں یہ پہلا موقع تھا کہ ان کے جیسے دشمن اسلام کی جانب سے اس کی امداد کا کوئی کام ہوا، ان زر ہوں میں سے غزوہ خیبر میں چند ضائع ہوگئیں،آنحضرتﷺ نے تاوان دینا چاہا، لیکن صفوان نے قبول نہ کیا اور کہا یا رسول اللہ آج اسلام کی جانب میرا میلان ہو رہا ہے [3] لیکن قومی عصبیت نے اس میلان کو دبا دیا اور فتح مکہ میں مسلمانوں سے مزاحم ہوئے۔ [4]
قبول اسلام
ترمیمفتح مکہ کے بعدصفوان نے جدہ کا راستہ لیا، ان کے عزیز اورقدیم رفیق عمیر بن وہب نے جو بدر کے بعد ہی مشرف باسلام ہو گئے تھے،آنحضرتﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ سردارِ قوم صفوان بن امیہ آپ کے خوف سے بھاگ گئے ہیں، آپ نے فرمایا وہ مامون ہیں، عمیر نے کہا یا رسول اللہ جان بخشی کی کوئی نشانی مرحمت ہو،آپ نے ردائے مبارک دی کہ وہ اسے دکھا کر صفوان کو اسلام کی دعوت دیں اورانہیں آنحضرتﷺ کے پاس بلا لائیں، اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو فبہا ورنہ انھیں غور کرنے کے لیے دو مہینہ کی مہلت دیجائے، عمیر ردائے مبارک لے کر صفوان کی تلاش میں نکلے اورانہیں رداءدکھا کر مدینہ واپس لے آئے اوروہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مجمع عام میں بلند آواز سے آپ سے پوچھا محمد عمیر بن وہب نے مجھ سے تمھاری چادر دکھا کر کہا ہے کہ تم نے مجھ کو بلایا ہے اورمجھے اختیار دیا ہے کہ اگر میں پسند کروں تو اسلام قبول کرلوں، ورنہ دو مہینہ کی مہلت ہے،آنحضرتﷺ نے فرمایا ابو وہب سواری سے اترو، انھوں نے کہا جب تک صاف نہ بتاؤ گے نہ اتروں گا،آنحضرتﷺ نے فرمایا دو کی بجائے تم کو چار مہینہ کی مہلت ہے۔ جنگ حنین اورطائف ہوئی،اس میں بھی انھوں نے اسلحہ سے مسلمانوں کی مدد کی اورخود بھی دونوں لڑائیوں میں شریک ہوئے [5] آنحضرتﷺ نے حنین کے مالِ غنیمت میں سے سو اونٹ انھیں دیے یہ لطف و عنائت دیکھ کر صفوان نے کہا ایسی فیاضی نبی ہی کر سکتا ہے ان کی بیوی ان سے پہلے مشرف باسلام ہو چکی تھی،لیکن آنحضرتﷺ نے دونوں میں تفریق نہیں کی۔ آنحضرتﷺ کے اس طرز عمل سے متاثر ہوکر غزوۂ طائف کے چند دنوں بعد مشرف اسلام ہو گئے،اس وقت آنحضرتﷺ نے نکاح کی تجدید نہیں فرمائی۔
مدینہ کا سفر
ترمیمصفوان تاخیر اسلام کی وجہ سے ہجرت کا شرف حاصل نہ کرسکے تھے، کسی نے ان سے کہا جو ہجرت کے شرف سے محروم رہا وہ ہلاک ہو گیا، صفوان یہ سن کر ہجرت کرکے مدینہ چلے آئے۔ عباس کے یہاں اُترے،آنحضرتﷺ کو ان کی ہجرت کی خبر ہوئی، تو فرمایا،فتح کے بعد ہجرت نہیں ہے انھیں مکہ واپس جانے کا حکم دیا، اس حکم پر صفوان مکہ واپس گئے،اوربقیہ زندگی مکہ ہی میں بسر کی۔
جنگ یرموک
ترمیمعمرفاروق کے زمانہ میں شام کی فوج کشی میں مجاہدانہ شریک ہوئے اور اس سلسلہ کی مشہور جنگ یرموک میں ایک دستہ کے افسر تھے۔[6]
وفات
ترمیمامیر معاویہ کے عہدِ خلافت میں وفات پائی وفات کے بعد دو لڑکے امیہ اور عبد اللہ یاد گار چھوڑے[7]
فضل وکمال
ترمیمفضل وکمال کے لحاظ سے کوئی خاص مرتبہ نہ تھا، تاہم احادیث سے انکا دامنِ علم خالی نہیں ہے، امیہ ،عبد اللہ ،صفوان بن عبد اللہ، حمید بن حجیر، سعید بن مسیب،عطاء، طاؤس ،عکرمہ اورطارق بن مرقع وغیرہ نے ان سے روایتیں کی ہیں [8] البتہ اس عہد کے دوسرے ممتاز علوم میں کمال رکھتے تھے؛چنانچہ خطابت،فصاحت وبلاغت میں جو اس عہد کے کمالات تھے،صفوان کا شمار بلغائے عرب میں تھا۔ [9]
عام حالات
ترمیمفیاضی اورسیر چشمی ان کی فطرت میں تھی،زمانہ جاہلیت ہی سے وہ قریش کے فیاض اورعالی حوصلہ لوگوں میں تھے اوران کا دسترخوان لوگوں کے لیے صلائے عام تھا۔ [10]