طالب کشمیری — پنڈت نند لال کَول (پیدائش: 25 دسمبر 1899ء – وفات: 13 ستمبر 1971ء) اردو زبان کے نامور شاعر ، محقق، نثر نگارتھے۔طالب بیسویں صدی میں کشمیری اُردو شعرا میں امتیازی مقام رکھتے ہیں۔

طالب کشمیری
معلومات شخصیت
پیدائش 25 دسمبر 1899ء (125 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سری نگر   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقام وفات سری نگر   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (25 دسمبر 1899–15 اگست 1947)
بھارت (15 اگست 1947–13 ستمبر 1971)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

پیدائش و خاندان

ترمیم

طالب کا پیدائشی نام نند لال کَول تھا۔طالب کی پیدائش 25 دسمبر 1899ء کو سرینگر میں ہوئی[1]۔ خاندان کشمیری پنڈتوں کا تھاجو کشمیر کا خاصا صاحبِ وجاہت خاندان کہلاتا تھا۔ والد کا نام پنڈت ٹھاکر پرشاد کَول تھا جو ریاست جموں کشمیر کے بڑے زمینداروں میں شمار ہوتے تھے۔ طالب کے دادا پنڈت دیوہ کَول حکومت کشمیر میں دفتر دِیوانی کے افسر اعلیٰ تھے۔دادا پنڈت دیوہ کَول فارسی زبان کے منتہی اور شاعر تھے جن کا تخلص دیوہؔ تھا۔[2]

تعلیم

ترمیم

طالب کا خاندان علمی لحاظ سے اعلیٰ خاندانوں میں گِنا جاتا تھا۔ اِس لیے طالب کی تعلیم پر بھرپور توجہ دِی گئی۔ چنانچہ 1922ء میں بی اے، 1924ء میں ایم اے (فارسی) اور پھر 1925ء میں منشی فاضل (فارسی) کے امتحانات پاس کیے۔ بعد ازاں ایم او، ایل اور ادیب فاضل (اردو) کے امتحان جامعہ پنجاب (لاہور) سے امتیازی نمبروں سے پاس کیے۔تکمیل تعلیم کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازمت اِختیار کرلی اور سری پرتاپ کالج میں اردو اور فارسی کے پروفیسر مقرر ہو گئے۔ یہ سلسلۂ ملازمت 1942ء تک جاری رہا۔ 1942ء میں ملازمت سے سبکدوشی کے بعد امرسنگھ کالج میں پروفیسر اور صدر شعبۂ فارسی و اُردو ہوکر چلے گئے جہاں 1954ء تک رہے۔ 1954ء سے 1957ء تک یعنی تین سال تک جموں و کشمیر یونیورسٹی میں علومِ شرقیہ کے صدر کے عہدہ پر فائز رہے۔ اِسی زمانے میں جموں و کشمیر کلچرل اکیڈمی سے بھی وابستہ ہوئے۔[3]

وفات

ترمیم

طالب نے بعارضۂ قلب مختصر علالت کے بعد اچانک 13 ستمبر 1971ءکو وفات پائی۔

شاعری

ترمیم

جس ماحول میں طالبؔ کی تعلیم و تربیت ہوئی تھی، اُس میں شعرگوئی کا شوق فطری تھا۔ لہٰذا طالبؔ بھی کم عمری میں ہی شعر کہنے لگے تھے۔ پہلے کچھ دِن دلبرؔ تخلص کرتے رہے، پھر اِسے بدل کر طالبؔ کر لیا۔ شروع میں مشورۂ سخن کے لیے منشی رام سہائے تمناؔ لکھنؤی (متوفی 1934ء) سے اصلاح لیتے ہے جو منشی دوارکا پرشاد افقؔ (متوفی 1913ء) کے بھائی اور منشی بشیشور پرشاد منور لکھنؤی (متوفی 1970ء) کے حقیقی چچا تھے۔ تمناؔ لکھنؤی سے اصلاح کا یہ سلسلہ 1915ء تک برابر قائم رہا۔ اِسی سال طالب نے پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفیؔ (متوفی 1955ء سے تلمذ اِختیار کیا۔ کیفیؔ مرحوم نے اپنی وفات سے مدتوں قبل طالب کو فارغ اصلاح قرار دے دیا تھا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ طالب کو سیماب اکبر آبادی (متوفی 1951ء) سے بھی شاگردی کا تعلق رہا۔[4]

کتابیات

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. تذکرۂ  ماہ و سال،  صفحہ 250۔
  2. تذکرۂ معاصرین، جلد 1، صفحہ 357۔
  3. تذکرۂ معاصرین، جلد 1، صفحہ 357-358۔
  4. تذکرۂ معاصرین، جلد 1، صفحہ 358۔