عابدہ پروین
عابدہ پروین (ولادت: 20 فروری 1954ء)[2] پاکستانی صوفی مسلم گلوکارہ، کمپوزر اور موسیقار ہیں۔ عابدہ ایک نقاش اور کاروباری بھی ہیں۔ پروین پاکستان میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی گلوکاروں میں سے ایک ہیں۔[3] عابدہ پروین کی گائیکی اور موسیقی کی وجہ سے ان کو 'صوفی موسیقی کی ملکہ' بھی کہا جاتا ہے۔ 2012 کو ان کو پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا سویلین اعزاز نشان امتیاز سے نوازا گیا۔ [4] اور 23 مارچ 2021 کو انھیں صدر پاکستان کی طرف سے پاکستان کا سب سے بڑا سویلین اعزاز ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔[5]
عابدہ پروین | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 20 فروری 1954ء (70 سال)[1] لاڑکانہ |
شہریت | پاکستان |
عملی زندگی | |
پیشہ | ریکارڈنگ آرٹسٹ |
پیشہ ورانہ زبان | پنجابی ، اردو |
اعزازات | |
IMDB پر صفحہ | |
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی
ترمیمعابدہ پروین کی پیدائش پاکستان کے سندھ کے علاقے لاڑکانہ کے محلہ علی گوہرآباد میں ہوئی تھی۔ انھوں نے موسیقی کی تربیت ابتدا میں اپنے والد استاد غلام حیدر سے حاصل کی، جنہیں عابدہ بابا سائیں اور گاوایا کے نام سے پکارتی ہیں۔
پیشہ وارانہ زندگی
ترمیمپروین نے 1970ء کی دہائی کے اوائل میں درگاہوں اور عرس میں نغمے پیش کرنا شروع کیا تھا۔ 1971ء میں، جب نصیر ترابی نے مشرقی پاکستان کے خاتمے پر گہرے دکھ کا اظہار کرنے کے لیے وہ ہم سفر تھا لکھا تو پروین نے اس غزل کو خوبصورت انداز میں پیش کیا۔[6]
اقوال
ترمیم- میری ثقافت - ہماری ثقافت - روحانیت اور محبت سے مالا مال ہے۔[7]
ذاتی زندگی
ترمیمتعلیم
ترمیمعابدہ نے اپنی ماسٹر ڈگری سندھ سے حاصل کی اور خاص طور پر اردو، سندھی اور فارسی بھی سیکھی۔
شادی اور خاندان
ترمیم1975ء میں، عابدہ نے ریڈیو پاکستان کے سینئر پروڈیوسر غلام حسین شیخ سے شادی کی، جو 1980ء کی دہائی میں ملازمت سے اس لیے سبکدوش ہوئے کیوں کہ ان کو پروین کے کیریئر کو بنانا تھا۔
عابدہ پروین گیلری
ترمیمعابدہ پروین کو آرٹس میں بھی دلچسپی ہے۔
لباس اسٹائل
ترمیمپروین کا لباس کا ایک مخصوص اسٹائل ہے جو انھوں نے خود کو آسانی اور راحت کے لیے تیار کیا۔
دیگر
ترمیمعابدہ پروین اپنے روحانی آقا نجیب سلطان کی بیعت لے چکی ہے اور ان کی شاگرد ہیں۔ پروین کو 28 نومبر 2010 ءکو لاہور میں ایک پرفارمنس کے دوران دل کا دورہ پڑا تھا۔[8] ان پر انجیوگرافی اور انجیو پلاسٹی کی گئی تھی۔ اس کے فورا بعد ہی ان کی صحت بحال ہو گئی۔
ایوارڈز اور پہچان
ترمیم- تمغائے حسن کارکردگی، 1984 ء[9]
- ستارۂ امتیاز،2005ء[10]
- ہلال امتیاز،2012ء[4]
فلمی گرافی
ترمیماگرچہ عابدہ پروین ایک انتہائی ساکھ والی گلوکارہ ہیں، لیکن انھوں نے کبھی بھی فلموں میں اپنی آواز نہیں دی۔ عابدہ پروین کے شائقین اور فاروق مینگل کے اصرار پر ان کے پہلے سے ریکارڈ شدہ گانوں کو فلموں میں استعمال کیا گیا ہے۔ پروین اپنی شرمیلی شخصیت کی وجہ سے انٹرویوز اور ٹیلی ویژن مارننگ شوز میں کم سے کم دکھائی دیتی ہیں۔ پروین نے اعتراف کیا کہ انھیں بالی ووڈ کے فلم سازوں یعنی سبھاش گھئی اور یش چوپڑا کی طرف سے پیش کش ملتی رہتی ہیں لیکن وہ ان سے انکار کردیتی ہیں کیونکہ انھوں نے خود کو تصوف میں ڈھا لیا ہے ہے۔[11] یہاں تک کہ انھیں را.ون کے لیے شاہ رخ خان کی طرف سے پیش کش بھی آئیں اور میوزک ڈائریکٹر اے آر رحمان نے بھی انھیں کچھ گانوں کی پیش کش کی ہے۔[12]
ٹیلی ویژن
ترمیمسال | شو | کردار | نوٹ |
---|---|---|---|
1980ء | آواز آنداز | پیش کردہ | |
2009ء | نارا مستانا | پیش کردہ | |
2010ء | چھوٹے استاد | غلام علی کے ساتھ مہمان جج | |
2012ء | سر چھترا | جج | |
2012ء | شہرِ زَات | نغمہ یار کو ہم سے گایا | |
2012ء | جھلک دکھلا جا | رونا لیلیٰ کے ساتھ خصوصی نظر آئیں | |
2012ء | پہلا ہم ایوارڈ | پیش کردہ | |
2014ء | پاکستان آئیڈل ٹی وی شو | مہمان جج | |
2014ء | زی چینل | ٹی وی گلوکارہ | |
2014ء | سماع عشق | پیش کردہ |
فلمیں
ترمیمسال | فلم | گانا | نوٹ |
---|---|---|---|
2005ء | وردھہ | من لاگو یار
بھلا ہوا میری صاحب میرا ایک |
|
2008ء | ذی الشاہ | ساجن دے ہاتھ | |
2013ء | عشق خدا | عشق خدا | فاتح: پہلا لکس اسٹائل ایوارڈ بارئے بہترین پس پردہ گلوکارہ |
2015ء | جانثار | صوفیے با صفا منعم (خواتین) | |
2015ء | بن روئے | مولا مولا | فاتح: پندرہویں لکس اسٹائل ایوارڈ بارئے بہترین پس پردہ گلوکارہ |
2017ء | رنگریزا | پھول کھل جائیں |
گائیکی کے ذریعے صوفیانہ کلام کوپھیلانے کی بات کی جائے تو شاید اس وقت پورے برصغیر میں عابدہ پروین سے بڑا کوئی نام نہیں۔ انھوں نے صرف پاکستان اور بھارت میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں صوفی شعراکے پیغام کو پھیلایا۔ عابدہ پروین کاایک موسیقار گھرانے سے ہے۔ انھوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد استاد غلام حیدر سے حاصل کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا۔2012ء میں عابدہ پروین کی فنکارانہ خدمات کے اعتراف میں انھیں ہلالِ امتیازسے نوازا گیا،اسی برس انھیں بھارت کی بیگم اختر اکیڈمی آف غزل کی طرف سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈبھی دیا گیا۔ عابدہ پروین کو اس سے پہلے حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس بھی مل چکا ہے۔2015ءمیں بھی پاکستان اور بیرونِ ممالک میں عابدہ پروین نے کئی شوز کیے اور موسیقی کی دنیا میں منفرد شناخت کی حامل رہیں۔عابدہ پروین کو پاکستان اور بھارت کے مقابلہ موسیقی پروگرامسر چھترا میں بطور جج بھی رکھا گیا تھا۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ https://pantheon.world/profile/person/Abida_Parveen
- ↑ Nosheen Iqbal (8 July 2013)۔ "Abida Parveen: 'I'm not a man or a woman, I'm a vehicle for passion'"۔ دی گارڈین (newspaper)۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 نومبر 2018
- ↑ "You can't listen to them if you can't afford them…"۔ The ایکپریس ٹریبیون۔ 14 جولائی 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 ستمبر 2019
- ^ ا ب "Abida Parveen's Hilal-i-Imtiaz Award (2012)"۔ The Express Tribune (newspaper)۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 نومبر 2018
- ↑ "عابدہ پروین، فیصل ایدھی اور دیگر 88 شخصیات کو صدر پاکستان عارف علون نے اعزازات سے نوازا۔"۔ ڈان (بزبان انگریزی)۔ 23 مارچ 2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 مارچ 2021
- ↑ "Woh Hamsafar Tha"۔ YouTube
- ↑ Nosheen Iqbal (8 July 2013)۔ "Abida Parveen: 'I'm not a man or a woman, I'm a vehicle for passion'"۔ The Guardian۔ ISSN 0261-3077۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اگست 2016
- ↑ "Abida Parveen suffers heart attack during performance"۔ The Express Tribune (newspaper)۔ 28 November 2010۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 نومبر 2018
- ↑ "Abida Parveen profile"۔ 01 جنوری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جولائی 2019
- ↑ "India honours Abida Parveen with lifetime achievement award"۔ Dawn۔ Pakistan۔ 9 October 2012۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جولائی 2019
- ↑ > "Bollywood can wait: Abida Parveen (Interview)"۔ Thaindian News۔ 8 November 2010۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 نومبر 2018[مردہ ربط]
- ↑ Bharti Dubey (31 August 2012)۔ "Abida Parveen and Runa Laila to spread love in India"۔ The Times of India۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 نومبر 2018