عاجز جمالی (انگريزی: Ajiz Jamali) سندھ پاکستان میں پیدا ہونے والے  سندھی زبان اور اردو کے  شاعر،  کالم نگار اور معروف صحافی ہیں۔ ان کی کتابیں بھی شایع ہوئی ہیں۔ [1]

حالات زندگی

ترمیم

عاجز جمالی کا اصل نام محمد ڇھٹل ہے جو اس کے دادا کا نام تھا۔ عاجز یکم فروری 1967ء کو نواب شاہ ضلع موجودہ ضلع شہید بینظیر آباد کے  شہر باندھی میں ڀخشل خان جمالي کے گھر میں پیدا ہوئے۔ [2]

تعليم اور خدمتیں

ترمیم

عاجز جمالی کو ھائی اسکول کے زمانے سے ہی شاعری کا شوق تھا۔  اس نے   پہلے ایم سی (محمد چھٹل) عاجز کے نام سے لکھنا شروع کیا۔  بعد میں شاعری میں باقاعدہ  عاجز جمالی کا تخلص اختيار کیا جو اب اس کے نام کی پہچان بن گیا ہے۔ یہ اپنے خاندان کے پہلے فرد تھے جو اسڪول میں داخل ہوئے۔  چار جماعت میں تھا تو اس کا خاندان نقل مکانی کر کے اپنے اباڻی گائوں ٹنڈو رحیم خان ضلع دادو تحصیل جوہی میں آباد ہوا تو اس کے والد سعودی عرب چلے گئے۔ 1976ء میں عاجز نے ٹنڈو رحیم خان کے پرائمری اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ 1978ء میں  اس کا خاندان دوبارہ باندھی شہر مکین ہوا اور اس نے گورنمینٹ ھائی اسکول باندھی میں ریگیولر طالب العلم کے طور پر تعلیم حاصل کی۔  اسکول میں اس کا زہین طلبہ میں شمار ہوتا تھا۔ بعد میں خاندانی اور قبائلی ترداد کی وجہ  سے پھر اس کا خاندان نقل مکانی کر کے خضدار بلوچستان چلا گیا۔  1984ء میں  اس کا خاندان  وہاں سے نقل مقانی  کر کے جوہی شہر میں آباد ہوا جہاں سے مئٹرک کا امتحان پاس کیا۔ پھر عاجز جمالی نے جوہی میں پیٹرول کی دکان ۽ بوٹوں کی دکان پر مزدوری کی۔  جوہی شہر میں اس کی  عزیز کنگرانی، منظور تھہیم اور احمد خان مدہوش سے ملاقات ہوئی اور پھر پختہ شاعری کرنے لگا۔ بعد میں سندھی ادبی سنگت جوہی شاخ اور جوہی نوجوان تنظیم میں شامل ہوئے اور سماجی،  ادبي خدمتیں سر انجام دیں۔ سندھی ادبی سنگت جوہی شاخ کے جوائنٹ سیکریٹری اور سيکريٹری بھی رہے۔ بعد میں سیاسی  طور پر ڊيموکریٹک اسٹوڈینٹ فیڈریشن میں سرگرم رہے۔ دوستوں کی مدد سے دادو ڈگری کالج سے انٹر کا امتحان پاس کیا۔ یہ ڊی ایس ایف ضلع دادو کا جنرل سیکریٹری، سندھ ہاری کامیٹی کا مرکزی پریس سیکریٹری اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی صوبائی کامیٹی کا سرگرم میمبر بھی رہا۔ 1986ء میں جوہی میں ایم آرڈی تحریک کے دوران گرفتار ہوئے اور سینٹرل جیل حیدرآباد میں قید رہے۔ آزاد ہو کر آيا تو 1988ء میں سندھ قومی اتحاد دادو کا ضلعئی کنوینر بنا۔ جوہی اور دادو سے اخباروں میں رپورٹنگ سے صحافت کا آغاز  کیا۔ 1991ء میں جوہی کو خیر آباد کر کے کراچی چلا گیا جہاں اس نے باقاعدہ صحافت کی شروعات کی۔ دو سال تک مختلف سندھی اخباروں میں ڈیسک ایڊیٹوریل صفحات پر کام کیا۔ عوامی آواز اخبار  میں کام کرتے ہوئے بچوں کا صفحہ جوت نکالا۔ 1993ء سے رپورٹنگ شروع کی۔روزانہ کاوش، روزانہ جنگ کے علاوہ دوسری اہم اخباروں کا رپورٹر بنا۔ عاجز ہفتہ وار آرسی مئگزین کا ایڊیٹر بھی رہا۔ 2004ء سے ٹی وی چئنلوں کا رخ کیا اور رپورٹنگ کی۔ انڈس نیوز۔ اے آر وائی نیوز اور رنگ ٹی وی چئنلز پر 15 سال تک رپورٹنگ پروگرام کرتا رہا۔ کراچی میں سرگرم صحافی کے طور صحافتی تنظیموں میں بھی سرگرم رہا۔ اس نے اردو ۽ سندھی زبان میں بہت کالم  لکھے ہیں۔[3][4][5] عاجز نے ریڈیو پروگرام بھی کیے ہیں۔ ٹی وی اینکر اور ڈائریکٹر نیوز بھی رہے ہیں۔ سیکڑوں ٹی وی پروگراموں کے ذائریکٹر رہے ہیں۔ عاجز جمالی کی  سندھ کی جدید تاریخ پر  کتاب ادھ صدی جی آتم کہانی  شایع ہوئی ہے۔[6]

حوالہ جات

ترمیم
  1. https://nation.com.pk/19-Sep-2018/-journalists-problems-to-be-fixed-on-priority
  2. https://azizkingrani.wordpress.com/2014/12/18/poets-and-writers/
  3. "آرکائیو کاپی"۔ 13 نومبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 نومبر 2021 
  4. https://dailyoutcome.pk/mumtaz-bhutto-feudalism-and-pakistani-politics/
  5. "آرکائیو کاپی"۔ 13 نومبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 نومبر 2021 
  6. http://sindhsama4.blogspot.com/2014/12/blog-post_48.html?m=1