آیۃ اللہ العظمی ٰ عبد اللہ مازندرانی(AD 1840–1912) ایک شیعہ مرجع اور قاجار خاندان کے خلاف اٹھنے والے جمہوری انقلاب کے رہنما تھے۔ وہ مرزا رشتی کے شاگرد تھے۔ انھوں نے ایشیا کے پہلے جمہوری انقلاب، ایران کے انقلاب مشروطہ کی حمایت میں آخوند خراسانی اور مرزا حسین خلیلی تہرانی کے ساتھ مل کر کام کیا اور آخوند خراسانی کے تمام اہم بیانات پر تائیدی دستخط کیے تھے۔ [1]

ابتدائی زندگی ترمیم

ان کا پورا نام ملا عبد اللہ لنگرودی ہے۔ ان کے والد شیخ محمد ناصر گیلانی تھے جنھوں نے گیلان سے ایران کے صوبہ مازندران کا سفر کیا۔ عبد اللہ ایران کے شمال میں واقع شہر بارفرس میں پیدا ہوئے، جسے آج آمل کہا جاتا ہے۔ [2] [3] ایران میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے عراق کے مقدس شہروں کا سفر کیا۔ کربلا میں انھوں نے زین العابدین مازندرانی اور شیخ حسن اردقانی کے دروس میں حصہ لیا۔ پھر وہ اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے ایک اور اہم شیعہ شہر نجف چلے گئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ساری زندگی وہیں رہے۔ [2]

اساتذہ ترمیم

انھوں نے اپنی تعلیم کا آغاز بارفرس مدرسہ سے کیا۔ ملا محمد اشرفی کی کلاسوں میں حصہ لیا۔ پھر وہ عراق چلا گئے۔ مازندرانی کے اساتذہ میں شیخ مہدی کاشف الغطا، زین العابدین مازندرانی، شیخ حسن اردکانی، ملا محمد ایرانی اور مرزا حبیب اللہ رشتی شامل ہیں۔

سیاسی زندگی ترمیم

 
آیات ثلاث: (دائیں سے بائیں) آیۃ اللہ العظمی ٰ شیخ عبد اللہ مازندرانی، آیۃ اللہ العظمی ٰ مرزا حسین تہرانی اور آیۃ اللہ العظمی ٰ آخوند خراسانی

وہ آخوند خراسانی اورمرزا حسین خلیلی تہرانی کے ساتھ ان مراجع میں شمار ہوتے تھے جنھوں نے قاجار خاندان کے خلاف مزاحمت کی۔ انھیں "علما ثلاث نجف " کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ [4] عبد اللہ جمہوری انقلاب کی تحریک کے بنیادی رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ انھوں نے تحریک جمہوریت میں اہم کردار ادا کیا، جس میں لوگوں کو روسی حملے اور غیر منصفانہ معاہدوں کے خلاف مزاحمت کرنے کی ترغیب دینا اور مذہب اسلام کی حمایت میں خطوط لکھنا شامل تھا۔ [5] آخوندخراسانی کے ساتھ مازندرانی نے ایران کے اندرونی معاملات میں انگریزی حکومت کی پالیسیوں اور مداخلت کے خلاف احتجاج کیا۔ [6] انھوں نے آئین سازی کے دوران ایرانی عوام کی تحریک کی حمایت کی اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹیلی گرام اور خطوط بھیجے۔ [7] آخوند خراسانی ، مرزا حسین تہرانی اور شیخ عبد اللہ مازندرانی نے امام مہدی کی غیبت میں مذہبی سیکولرازم کا تصور پیش کیا، جو آج بھی نجف اور قم کے شیعہ مراکز میں حاکم ہے۔[8]

23 جون 1908 کو محمد علی شاہ قاجار کی درخواست اور مولوی فضل الله نوری کے فتوے پر پہلی پارلیمنٹ پر روسی بمباری سے لے کر 16 جولائی 1909 کو شاہ کی معزولی تک کے دور کو جدید ایران کی تاریخ میں استبداد صغیر کہا جاتا ہے۔ شاہ نے غیر دینی حلقوں سے لڑنے اور اسلام کا دفاع کرنے کا بہانہ بنا کر انتخابات کو ملتوی کیاتھا۔ محمد علی شاہ نے اپنے اس غیر آئینی اقدام کے حق میں فتویٰ حاصل کرنے کے لیے نجف میں موجود مراجع تقلید کو خطوط لکھے، جن میں بابیوں اور دیگر غیر مسلموں کی سازشوں کا خوف دلا کر حمایت کی درخواست کی گئی تھی۔ تاہم، آخوند خراسانی، مرزا تہرانی اور مرزا عبد اللہ مازندرانی نے جمہوریت کے حق میں فتوے دیے اور شاہ کو معاشرے کے حالات کو بہتر بنانے اور نوآبادیاتی مداخلت کے خلاف ملک کا دفاع کرنے کے لیے آئینی فریم ورک کے اندر کام کرنے کا مشورہ دیا۔ [9]

وفات ترمیم

ان کا انتقال 1912ء میں ہوا [10]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. Farzaneh, Mateo Mohammad (2015). “The Iranian Constitutional Revolution and the Clerical Leadership of Khurasani”. Syracuse, New York: Syracuse University Press. p. 13. ISBN 978-0-8156-5311-0.
  2. ^ ا ب electricpulp.com۔ "ʿABDALLĀH MĀZANDARĀNĪ, SHAIKH – Encyclopaedia Iranica"۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2016 
  3. "Archived copy" (PDF)۔ 17 جون 2012 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 نومبر 2016 
  4. "کتابخانه مدرسه فقاهت - دانشنامه جهان اسلام - موسسه دائرة المعارف الفقه الاسلامي"۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2016 
  5. "کتابخانه مدرسه فقاهت - نشریه حوزه - دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم"۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2016 
  6. Ali Naghih Zabih Zadeh۔ religious authority and political activity of Akhund Khorasani۔ Ma'refat۔ 55۔ Imam khomeini Institution۔ صفحہ: 13 
  7. Sabri Ateş (2013)۔ Ottoman-Iranian Borderlands: Making a Boundary۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 267۔ ISBN 9781107033658 
  8. Ghobadzadeh, Naser (17 October 2013). “Religious secularity: : A vision for revisionist political Islam. Philosophy & Social Criticism. 39 (10): p. 1009. DOI:10.1177/0191453713507014. ISSN 0191-4537.
  9. Bayat, Mangol (1991). Iran's First Revolution: Shi'ism and the Constitutional Revolution of 1905-1909. Studies in Middle Eastern History. Oxford, New York: Oxford University Press. p. 232. ISBN 978-0-19-506822-1.
  10. Farzaneh, Mateo Mohammad (2015). “The Iranian Constitutional Revolution and the Clerical Leadership of Khurasani”. Syracuse, New York: Syracuse University Press. p. 13. ISBN 978-0-8156-5311-0.