عبد الحئی عارفی (1898–27 مارچ 1986ء) ایک پاکستانی مسلمان اسکالر اور سلسلہ چشتیہ کے صوفی سرپرست تھے۔ وہ اشرف علی تھانوی کے خلیفہ تھے۔ انھوں نے اسوہ رسول اکرم، موت اور وراثت سمیت مختلف کتابیں لکھیں۔ انھوں نے دس سال دارالعلوم کراچی کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

عبد الحئی عارفی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1898ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اتر پردیش   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 27 مارچ 1986ء (87–88 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی محمدن اینگلو اورینٹل کالج
لکھنؤ یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ اشرف علی تھانوی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص محمد تقی عثمانی ،  محمد رفیع عثمانی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان ہندی ،  انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

1898 میں پیدا ہوئے، عارفی نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج اور لکھنؤ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے 1926 سے 1935ء کے درمیان وکالت کا پیشہ اختیار کیا اور 1936ء سے تا وفات ہومیوپیتھی ڈاکٹری کو ذریعۂ معاش بنایا۔ 27 مارچ 1986 کو ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے خلفا میں محمد تقی عثمانی اور محمد رفیع عثمانی شامل ہیں۔

سوانح

ترمیم

عبد الحی عارفی جون 1898ء کو کدورہ، ریاست باونی، بندیل کھنڈ، [1] برطانوی ہند میں پیدا ہوئے تھے۔[2] انھوں نے 1923ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج سے گریجویشن کی اور لکھنؤ یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی ۔ انھوں نے 1926 اور 1935 کے درمیان وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ عارفی نے وکالت کا پیشہ چھوڑ کر 1936ء میں ہومیوپیتھی ڈاکٹری کا پیشہ اختیار کیا اور تا حیات اسی کو ذریعۂ معاش بنائے رکھا۔ [3]

عارفی 1923ء سے اشرف علی تھانوی سے وابستہ تھے اور 1927ء میں ان کے " مرید " ہو گئے۔ تھانوی نے انھیں 1935ء میں سلسلہ چشتیہ میں اجازت دی[3] عارفی دارالعلوم کراچی کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن تھے۔ انھوں نے دارالعلوم کراچی کے صدر کی حیثیت سے محمد شفیع دیوبندی کی جگہ لی اور ان کی وفات تک تقریبا دس سال تک اس مدرسہ کی خدمت انجام دی۔ [4]

عارفی کا انتقال 27 مارچ 1986 کو ہوا۔ [5] ان کی نماز جنازہ کی امامت محمد تقی عثمانی نے کی۔ محمد ضیاء الحق اور جہاں داد خان نے بھی جنازے میں شرکت کی۔ [6] انھیں دارالعلوم کراچی کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ [7]

عارفی کے خلفا میں محمد تقی عثمانی [8] اور محمد رفیع عثمانی شامل ہیں۔ [9]

قلمی خدمات

ترمیم

عارفی کے تصانیف میں درج ذیل کتابیں شامل ہیں: [10]

  • اسوہ رسول اکرم
  • موت اور وراثت
  • اشرف علی تھانوی، زندگی اور کام
  • موت اور وراثت (اسلامی طریقہ)
  • معاصر حکیم الامت:الارشادات و افادات
  • خواتین کے شرعی احکام
  • فرہست تالیفات حکیم الامّت
  • بہادر یار جنگ
  • احکامِ میت
  • بصائر حکیم الامت
  • معارفِ حکیم الامت
  • اصلاح المسلمین[11]

سوانح حیات

ترمیم

میرے مرشد

حوالہ جات

ترمیم
  1. سید ریاض الدین (2001)۔ سوانح و تعلیمات حضرت عارفی۔ کراچی: ادارۃ المعارف۔ صفحہ: 86 
  2. Mohammed Parvez۔ A Study of the Socio-Religious Reforms of Maulana Ashraf Ali Thanvi۔ صفحہ: 161 
  3. ^ ا ب Mohammed Parvez۔ A Study of the Socio-Religious Reforms of Maulana Ashraf Ali Thanvi۔ صفحہ: 162 
  4. Muhammad Rafi Usmani۔ Mere Murshid Hazrat Arifi۔ کراچی: Idaratul Ma'arif۔ صفحہ: 71 
  5. Sana'ullah Saad Shuja'abadi Abu Muhammad۔ Ulama-e-Deoband Ke Aakhri Lamhaat (بزبان Urdu) (2015 ایڈیشن)۔ صفحہ: 221 
  6. Sana'ullah Saad Shuja'abadi Abu Muhammad۔ Ulama-e-Deoband Ke Aakhri Lamhaat (بزبان Urdu) (2015 ایڈیشن)۔ صفحہ: 228 
  7. Mohammed Parvez۔ A Study of the Socio-Religious Reforms of Maulana Ashraf Ali Thanvi۔ صفحہ: 163 
  8. "Profile of Muhammad Taqi Usmani on Muslim500"۔ muslim500.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 دسمبر 2020 
  9. Muhammad Rafi Usmani۔ "Mere Murshid Hazrat-e-Aarifi"۔ worldcat.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 دسمبر 2020 
  10. "Abdul Hai Arifi on WorldCat"۔ worldcat.org۔ WorldCat۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 دسمبر 2020 
  11. "حضرت ڈاکٹر محمد عبد الحئی عارفی – سوانح حیات و تعلیمات – مؤلفہ سید ریاض الدین"