عبد اللہ حسنی

بھارت کے عالم دین و داعی اسلام

عبد اللہ حسنی ندوی (29 جنوری، 1957ء - 30 جنوری، 2013ء) بھارت کے ایک ممتاز عالم دین، ڈاکٹر عبد العلی حسنی ناظم ندوۃ العلماء کے پوتے، تحریک پیام انسانیت کے سابق ناظم اور غیر مسلموں میں دعوت اسلام کے کام کے لیے انتہائی معروف تھے۔ ان کے والد سید محمد الحسنی عالم اسلام کے معروف اسلامی مفکر اور ماہنامہ البعث الاسلامی کے بانی تھے۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء سے 1975ء میں عالمیت اور 1977ء میں ندوے ہی سے علوم حدیث میں فضیلت کرنے کے ساتھ مدرسہ عالیہ فرقانیہ لکھنؤ سے علم تجوید و قرات کی تکمیل کی۔ 1978ء سے دار العلوم ندوۃ العلماء میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے اور عربی مجلہ الرائد میں بھی پابندی سے لکھتے رہے۔

عبد اللہ حسنی ندوی
معلومات شخصیت
پیدائش 1957ء
تکیہ کلاں، رائے بریلی ضلع، اترپردیش، بھارت
وفات 30 جنوری 2013ء
لکھنؤ
شہریت بھارتی
نسل حسنی سادات
مذہب اسلام
مکتب فکر حنفی
عملی زندگی
مادر علمی دار العلوم ندوۃ العلماء
پیشہ ماہر اسلامیات ،  مصنف ،  عالم ،  داعی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متاثر محمد اکرم ندوی، بلال عبد الحی حسنی، محمد الیاس بھٹکلی، محمد عمر گوتم، محمود حسن حسنی

والد کی وفات کے وقت عبد اللہ حسنی ندوی کی عمر صرف 22 سال تھی، اس لیے اپنے چھوٹے دادا ابو الحسن علی حسنی ندوی اور چچا محمد رابع حسنی ندوی کی سرپرستی میں آ گئے۔ آگے چل کر ندوے میں حدیث کی اعلی کتابوں کی تدریس بھی انجام دیتے رہے اور علی میاں کے خلیفۂ مجاز کی حیثیت سے اصلاح و تربیت کا کام بھی بڑے پیمانے پر جاری رکھا۔ زندگی کے تقریباً آخری پندرہ برسوں میں غیر مسلموں میں اسلام کی دعوت کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور اس میدان میں خالص قرآن و سنت کی بنیادوں پر بغیر کسی اشتہار اور پروپیگنڈے کے بڑا کام انجام دیا۔ 3 مارچ، سنہ 2012ء کو جنوبی ہند کے ایک طویل دعوتی سفر پر نکلے، جس میں تقریباً دو درجن اجتماعات میں شرکت کی۔ دوران سفر مرض وفات کا آغاز ہوا اور 30 جنوری 2013ء کو لکھنؤ میں وفات پائی اور آبائی وطن تکیہ کلاں، رائے بریلی (اترپردیش) میں تدفین ہوئی۔

ابتدائی تعارف

ترمیم

سید عبد اللہ حسنی ندوی 29 جنوری، 1957ء کو اپنے آبائی وطن تکیہ کلاں، رائے بریلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد عربی کے معروف صحافی اور نثر نگار محمد الحسنی تھے۔ والدہ کا نام سیدہ ذکیہ حسنی تھا[1] اپنے دادا حکیم سید عبدالعلی حسنی کے اکلوتے پوتے ہونے کی وجہ سے اُن سے بہت قریب رہے[2] 1961ء میں ابتدائی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا اور 1966ءمیں معھد دار العلوم ندوۃ العلماء میں داخل کیے گئے۔ 1975ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء سے عالمیت کی سند حاصل کی اور 1977ء میں علوم حدیث میں اختصاص کی تکمیل کی۔ ساتھ ساتھ تجوید و قرات کے قدیم ادارے مدرسہ عالیہ فرقانیہ لکھنؤ سے تجوید و قرات کی بھی تکمیل کرلی اور اپنے خاندان کے پہلے سند یافتہ قاری بن گئے[3] عالم اسلام کے عظیم محدث عبد الفتاح ابو غدہ نے بھی ندوہ تشریف آوری کے موقعے پر اجازت حدیث سے نوازا۔[3]

1979ء میں ان کے والد سید محمد الحسنی کے اچانک حادثہء وفات کے وقت اُن کی عمر بائیس سال تھی، اس لیے اب عبد اللہ حسنی پوری طرح اپنے چھوٹے دادا ابوالحسن علی حسنی ندوی کی تربیت میں آ گئے۔[4]

میدان عمل میں

ترمیم

جنوری 1978ء میں عبد اللہ حسنی دار العلوم ندوۃ العلماء میں عربی ادب کے استاد مقرر ہوئے[5] ندوۃ العلماء سے نکلنے والے پندرہ روزہ جریدے الرائد سے بھی وابستہ ہو گئے[5] 1997ء میں ندوۃ العلماء میں ہونے والی عالمی کانفرنس کے نگرانِ دفتر رہے۔[6] عربی ادب کے ساتھ فقہ، اصول فقہ، تفسیر قرآن، مشکوٰۃ المصابیح، جامع ترمذی اور صحیح بخاری کا درس دیتے رہے۔[7] آخری دو برسوں میں امام ولی اللہ محدث دہلوی کی مشہور زمانہ کتاب حجۃ اللہ البالغۃ کا بھی درس دیا۔[8]

دار العلوم ندوۃ العلماء کی تدریس کے ساتھ عبد اللہ حسنی نے مواعظ و خطبات، عوامی اصلاحی حلقوں اور دروس کا بھی سلسلہ جاری رکھا۔ الرائد کے زوردار اداریوں کے ذریعے عربوں اور علما کی تربیت کرتے رہے اور مواعظ و ارشادات کے ذریعے عوامی اصلاح کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ سید ابو الحسن علی حسنی ندوی نے وفات سے کچھ عرصے قبل عبد اللہ حسنی کو چار سلاسل تصوف میں اجازتِ بیعت بھی دے دی تھی[9] چنانچہ انھوں نے اس راہ سے بھی اصلاح و تربیت کا کام کیا۔

غیر مسلموں میں دعوت

ترمیم

عبد اللہ حسنی ندوی کو اپنے دادا ڈاکٹر عبد العلی حسنی سے غیر مسلموں میں دعوت کا خصوصی ذوق ملا تھا۔ یہ ذوق آگے جاکر پنپا اور کھل کر سامنے آیا۔ سید ابو الحسن علی حسنی ندوی کی وفات سے چند برس پہلے عبد اللہ حسنی نے ذاتی ملاقاتوں کے ذریعے غیر مسلموں میں دعوت کا کام شروع کیا۔ زندگی کے آخری چند برسوں میں یہی کام اُن کا اوڑھنا بچھونا بن گیا تھا۔ اس کے لیے انھوں نے مختلف زبانوں میں دعوتی لٹریچر شائع کرایا، داعیوں کی تربیت کا اعلی نظم کیا، کئی اہم موضوعات پر تحقیقات کرائیں، دعوتی کیمپ منعقد کرائے، تحریک پیام انسانیت کے ذریعے غیر مسلموں تک پہنچے اور انھیں انسانیت کا درس دیا، مفت طبی کیمپوں کے ذریعے غریب غیر مسلم عوام کے دلوں میں جگہ بنائی اور وہ سب کچھ کیا جو ایک ذمے دار داعی کو کرنا چاہیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بے شمار لوگ ان کے پاس آکر اسلام کی دعوت قبول کرنے لگے۔ غیر مسلموں میں ان کی دعوت کا سب سے امتیازی پہلو یہ تھا کہ وہ عالم دین تھے، 35 سال تک قرآن، حدیث اور اسرار شریعت کا درس دے چکے تھے، صحافت سے وابستہ تھے اور دنیا دیکھے ہوئے تھے، لہذا اُن کے اصول دعوت خالص قرآن و سنت کی روشنی میں ترتیب دیے گئے تھے، جس میں بے راہ روی، ریا کاری اور انحراف کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ کمال یہ تھا کہ دعوت کا بین الاقوامی نیٹ ورک بغیر کسی نام اور پروپیگنڈے کے چل رہا تھا[10]

وفات

ترمیم

عبد اللہ حسنی ندوی نے 2012ء میں اپنی اہلیہ اور دوسرے اعزہ کے ساتھ حج کیا۔[11] وہاں سے واپسی کے بعد 3 مارچ، 2012ءسے جنوبی ہند کے ایک طویل دعوتی سفر پر نکلے۔ اس دورے میں انھوں نے تقریباً دو درجن اجتماعات میں شرکت کی۔ سفر کے دوران بیماری کا سلسلہ شروع ہو گیا[12] اسی درمیان رمضان آ گیا تو انھوں نے اپنی آبائی مسجد میں 35 سال سے جاری درس حدیث کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور بیماری کو سب پر ظاہر نہ کیا[13] اس کے بعد تکلیف بھی بڑھتی گئی اور علاج بھی چلتا رہا۔ رمضان کے بعد بیماری اتنی بڑھ گئی کہ انھیں ندوے کی تدریس سے چھٹی لینی پڑی۔[14] اس کے بعد عید الاضحٰی بھی سخت بیماری کے عالم میں اپنے گھر پر گزاری۔[15] طبیعت گرتی چلی گئی اور 30 جنوری،2013ء کو چاشت کے وقت عبد اللہ حسنی قرآن کریم کی تلاوت سنتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملے[16]

نماز جنازہ و تدفین

ترمیم

پہلی نماز جنازہ ندوۃ العلماء میں ندوے کے مہتمم سعید الرحمٰن اعظمی ندوی نے پڑھائی[17] اور دوسری نماز جنازہ تکیہ کلاں، رائے بریلی میں ان کے چچا، خسر اور مربی سید محمد رابع حسنی ندوی نے پڑھائی۔[18] شاہ علم اللہ حسنی کی مسجد کے جوار میں شمال کی جانب سپرد خاک کیے گئے[18] پس ماندگان میں اہلیہ محترمہ کے علاوہ ایک نو عمر بیٹا سید محمد حسنی ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. داعی اسلام - شخصیت اور پیغام، مصنف: شاہ اجمل فاروق ندوی ص:33
  2. داعی اسلام - شخصیت اور پیغام، ص:35،36
  3. ^ ا ب داعی اسلام - شخصیت اور پیغام، ص:39
  4. داعی اسلام - شخصیت اور پیغام، ص:42
  5. ^ ا ب داعی اسلام - شخصیت اور پیغام، ص:56
  6. داعی اسلام - شخصیت اور پیغام، ص:60
  7. داعی اسلام - شخصیت اور پیغام، ص:65-67
  8. داعی اسلام - شخصیت اور پیغام، ص:68
  9. داعی اسلام - شخصیت اور پیغام، ص:74
  10. داعی اسلام - شخصیت اور پیغام، ص:100-114
  11. داعی اسلام - شخصیت اور پیغام، ص:117
  12. داعی اسلام - شخصیت اور پیغام، ص:118،119
  13. داعی اسلام - شخصیت اور پیغام، ص:119
  14. داعی اسلام - شخصیت اور پیغام، ص:120
  15. داعی اسلام - شخصیت اور پیغام، ص:121
  16. داعی اسلام - شخصیت اور پیغام، ص:125،126
  17. داعی اسلام - شخصیت اور پیغام، ص:128
  18. ^ ا ب داعی اسلام - شخصیت اور پیغام، ص:129

مزید پڑھیے

ترمیم
  • داعی اسلام - شخصیت اور پیغام، از: شاہ اجمل فاروق ندوی، مطبوعہ: مکتبہ الفاروق، نئی دہلی 2013ء
  • سیرت داعی اسلام مولانا عبد اللہ حسنی ندوی، از: محمود حسن حسنی ندوی، مطبوعہ: سید احمد شہید اکیڈمی، رائے بریلی، 2014ء
  • ماہ نامہ پیام عرفات، رائے بریلی، مولانا عبد اللہ حسنی ندوی نمبر، 2012ء
  • ماہ نامہ المؤمنات، لکھنؤ، مولانا عبد اللہ حسنی ندوی نمبر، 2012ء
  • کاروان انسانیت، از: سعود الحسن ندوی غازی پوری، مطبوعہ: سید احمد شہید اکیڈمی، رائے بریلی، 2015

بیرونی روابط

ترمیم