علاء بن عبد الرحمن بن یعقوب
علاء بن عبد الرحمن بن یعقوب الحرقی ابو شبل مدنی ، پیروکار اور حدیث نبوی کے راوی۔ ان کے پاس بہت سی احادیث تھیں اور ان کی وفات ابوجعفر المنصور کی پہلی خلافت میں ہوئی۔علاء بن عبد الرحمن بن یعقوب
علاء بن عبد الرحمن بن یعقوب | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
وفات | سنہ 755ء مدینہ منورہ |
رہائش | مدینہ منورہ |
عملی زندگی | |
پیشہ | محدث |
درستی - ترمیم |
سوانح عمری
ترمیمعلاء بن عبد الرحمٰن بن یعقوب، جہینہ سے الحرقہ کے سرپرست۔ اور اس کا ایک دانت تھا، مالک بن انس نے کہا: [1]
” | كانت عند العلاء بن عبد الرحمن بن يعقوب صحيفة يحدّث بما فيها، فكان إذا أتاه الرجل يكتب بعضًا ويدع بعضًا. فيقول العلاء: إما أن تأخذوها جميعًا وإما أن تَدَعُوهَا جميعًا. | “ |
مدینہ منورہ کا العلا اخبار مشہور ہے۔ یہ ابوجعفر المنصور کی پہلی خلافت تک قائم رہا [1] سنہ 138 ہجری میں۔ ابن حبان نے کہا : سنہ 132 ہجری میں۔
اس کا حدیث نبوی کا نسخہ
ترمیم- انھوں نے روایت کی : اسحاق مولا زیدہ، انس بن مالک ، زید بن درات، عثمان کے آقا، سالم بن عبداللہ بن عمر بن الخطاب ، عباس بن سہل بن سعد السعدی، عبداللہ بن عمر بن العاص۔ -خطاب ، عبد الرحمٰن بن کعب بن مالک اور ان کے والد عبد الرحمٰن ابن یعقوب، عکرمہ، ابن عباس کے متولی ، علی ابن ماجدہ، معبد ابن کعب بن مالک ، نعیم ابن عبد اللہ المجمر ، ابی السائب، ہشام ابن زہرہ کے متولی ، ابی سعید، عبداللہ ابن عامر ابن کریز کے متولی اور ابی کثیر، محمد ابن جحش کے متولی۔
- ان سے روایت ہے : اسماعیل بن جعفر بن ابی کثیر، اسماعیل بن زکریا، الحسن بن الحر، حفص بن میسرہ الصانانی، خارجہ بن مصعب الخراسانی، روح بن القاسم، زہیر بن محمد ال تمیمی، زید بن ابی سعید بن سعید بن ابی الانصار اور سعد ہلال، سفیان الثوری ، سفیان بن عیینہ ، سلیمان بن بلال ، شبل بن عباد المکی، ان کے بیٹے شبل بن علاء بن عبد اللہ الرحمٰن، شعبا بن الحجاج ، طارق بن عبد الرحمٰن بن القاسم، عباد بن کثیر الثقفی، عبد اللہ بن جعفر، عوفر المدنی عبد اللہ بن عبد اللہ المدنی، عبد الحامد بن جعفر الانصاری، عبد الرحمٰن بن ابراہیم القاس المدنی، کرمان کے مہمان، عبد الرحمٰن بن اسحاق المدنی، عبد الرحمٰن بن ثابت بن ثوبان الدمشقی، العزیز ابن الدمشقی۔ عزیز، حفسن اور عبد السلام محمد الدراوردی ، ابن جریج اور عبید اللہ ابن عمر العمری۔
- الجرح اور تعدیل : احمد بن حنبل کہتے ہیں: "وہ ثقہ ہے، میں نے کسی کو اس کا برا ذکر کرتے ہوئے نہیں سنا۔" نسائی نے کہا: "اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔" ابو حاتم الرازی نے کہا۔ ’’میں اس کی کسی حدیث کا انکار نہیں کرتا۔‘‘ یحییٰ بن معین نے کہا: ’’اس کی حدیث کوئی بہانہ نہیں ہے۔‘‘ ابن عدی نے کہا: ’’میں اس کی حدیث میں کوئی حرج نہیں دیکھتا۔‘‘ الذہبی نے کہا: اس کی حدیث حسن کے درجے سے کم نہیں ہے لیکن جو چیز ان پر اعتراض ہے اس سے بچنا چاہیے۔ [2]
- ابن حبان نے کتاب ثقہ میں اس کا تذکرہ کیا ہے اور محمد بن سعد البغدادی نے کہا: "وہ ثقہ تھے، بہت سی احادیث رکھتے تھے اور ثابت تھے۔" ثقہ ہیں اور میں اس میں کوئی حرج نہیں دیکھتا۔ اسے محمد بن اسماعیل البخاری نے کتاب "امام کے پیچھے پڑھنا" اور کتاب "نماز میں ہاتھ اٹھانا" اور باقی کتابوں میں نقل کیا ہے۔
جائزہ
ترمیم- ^ ا ب "ص420 - كتاب الطبقات الكبرى ط العلمية - العلاء بن عبد الرحمن - المكتبة الشاملة"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-09-13
- ↑ سير أعلام النبلاء، لشمس الدين الذهبي، الطبقة الرابعة، العلاء، جـ 6، صـ 186، 187، طبعة الرسالة، 2001م آرکائیو شدہ 2018-03-02 بذریعہ وے بیک مشین