ابو جعفر المنصور
ابوجعفر المنصور (پیدائش: 714ء — وفات: 6 اکتوبر775ء) خلافت عباسیہ کا دوسرا حکمران خلیفہ تھا۔
ابو جعفر المنصور | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(عربی میں: أبو جعفر عبد الله بن محمد المنصور) | |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | اکتوبر713ء [1] حمیمہ |
||||||
وفات | 7 اکتوبر 775ء (61–62 سال)[2] مکہ [3] |
||||||
مدفن | جنت المعلیٰ | ||||||
زوجہ | فاطمہ بنت محمد التیمی | ||||||
اولاد | محمد المہدی ، جعفر ابن منصور | ||||||
والد | محمد بن علی بن عبد اللہ | ||||||
بہن/بھائی | |||||||
خاندان | بنو عباس | ||||||
مناصب | |||||||
عباسی خلیفہ (2 ) | |||||||
برسر عہدہ 10 جون 754 – 6 اکتوبر 775 |
|||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | سیاست دان ، شاعر ، خلیفہ | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | عربی | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
لڑائیاں اور جنگیں | عباسی انقلاب | ||||||
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمابوجعفر منصور کی ولادت 711ء، 95 ھ میں اپنے دادا علی بن عبد اللہ بن عباس کی موجودگی میں حمیمہ قصبہ میں ہوئی۔ ابوجعفر اس کی کنیت اور منصور لقب تھا۔ اس کی ماں بربری النسل کی ایک لونڈی تھی جس کا نام سلامہ تھا۔ وہ بڑی عابد و زاہد خاتون تھی۔ ابوجعفر کا خاندان بڑا متمول اور علم و فضل میں یکتا تھا۔ لہذا بچپن میں اسے جو شاندار ماحول میسر آیا اس نے اس کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں بڑا حصہ ادا کیا۔ عہد طفولیت ہی سے اسے کھیل کود کی بجائے لکھنے پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔ اس کے والد نے اس کی تعلیم کا خصوصی بندوبست کیا۔ چنانچہ علم الحدیث، علم الانساب اور فقہہ و ادب میں اس نے بڑی مہارت حاصل کی۔ وہ بڑا فصحیح و بلیغ خطیب اور سخن گو تھا۔ حکمت و دانائی اس کی گھٹی میں تھی۔ تحریک عباسی کے عہد شباب میں وہ بڑا سرگرم عمل رہا۔ سفاح کے عہد حکومت میں جزیرہ، آذربائیجان اور آرمینیہ کی حکومت اس کے سپرد تھی۔ وہ اپنے بھائی کے تمام فیصلوں میں شریک رہا۔ بنو عباس کے ابتدائی دور کے خلفشار کو دور کرنے میں اس نے بڑی سوجھ بوجھ سے کام لیا۔
خلافت
ترمیمسفاح نے اپنی زندگی میں ہی ابوجعفر منصور اور اس کے بعد عیسی بن موسی کے حق میں وصیت کر دی تھی۔ سفاح کی وفات کے وقت وہ حج کے لیے مکہ مکرمہ میں تھا۔ بھائی کی موت کی خبر پاکر وہ فوری بغداد پہنچا۔ جامع مسجد کوفہ میں جمعہ کی نماز پڑھائی اور اپنا پہلا خطبہ دیا۔ وہ مسند خلافت پر 754ء کو متمکن ہوا۔ عمر میں اپنے بھائی سفاح سے بڑا تھا۔ منصور خلافت سنبھالنے کے بعد درالحکومت انبار میں جشن خلافت منا کر اپنی حکومت کا افتتاح کیا۔ اس وقت اس کی عمر اکتالیس برس تھی ۔
ابتدائی مشکلات
ترمیماگرچہ خلافت عباسی کی بنیادیں رکھی جا چکی تھیں لیکن سفاح کو چونکہ بہت کم عرصہ حکومت کرنے کا موقع ملا ااس لیے تخت نشین ہونے کے بعد منصور کو مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ خود عباسیہ خاندان میں پھوٹ کے مواقع موجود تھے جو ان کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ تھا۔ اس کے علاوہ ابومسلم خراسانی اور ابوجعفر منصور کے درمیان رنجشیں موجود تھیں۔ منصور ابومسلم کو عباسی خلافت کے خلاف سب سے بڑا خطرہ سمجھتا تھا۔ منصور نے ابومسلم کو قتل کرا دیا جس سے مزید بغاوتوں نے جنم لیا۔ بنو امیہ کے خاندان کے حامی بھی منصور کے لیے خطرہ تھے جنھوں نے جزیرہ میں بغاوت کو ہوا دی۔ [حوالہ درکار] اس کے ساتھ ساتھ بربر اور ترک بغاوتیں، خوارج کی سرگرمیاں۔ عربی قبائلی عصبیتیں، اہل بیت کی تحریک، روم کی طرف سے حملے کا خطرہ اور ملکی خزانے میں مالی بحران کچھ ایسی مشکلات تھیں جس کی وجہ سے منصور کی حکومت کو شدید خطرہ درپیش رہا۔
بغاوتیں اور سدباب
ترمیممنصور نے خلافت کے سب سے بڑے داعی عبداللہ بن علی کی بغاوت کو ابومسلم خراسانی کے ذریعے سے ختم کروا دیا۔ عبد اللہ کو گرفتار کرنے کے بعد اس جس مکان میں رکھا گیا اس کی چھتیں گر گئیں جس سے وہ مارا گیا۔ ابومسلم جو عباسیہ خاندان کا سب سے بڑا وفادار تھا اور جس کی بدولت عباسیہ خاندان کو خلافت نصیب ہوئی منصور کو معلوم تھا کہ یہی وہ شخص ہوگا جو عباسی خاندان کے خاتمے کا سبب بنے گا اس لیے منصور نے ابومسلم کو راستے سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس نے ابومسلم کو دربار میں طلب کیا اور وہاں چھپے ہوئے سپاہیوں نے ابومسلم خراسانی کا سر تن سے جدا کر دیا۔ جب منصور کے بیٹے نے یہ منظر دیکھا تو اس نے اپنے باپ سے سوال کیا کہ خدمت کا یہ صلہ تو منصور نے جواب دیا کہ خدا کی قسم روئے زمین پر اس سے زیادہ کوئی تمھارا دشمن نہ تھا۔
ابو مسلم کی موت کے بعد خراسان میں بغاوتوں نے سر اٹھایا فیروز سندباد نامی ایک شخص نے بغاوت کا اعلان کیا منصور نے جمہور بن مرار عجلی کو ان کے کچلنے کا حکم دیا۔ اس نے اس مجوسی کو شکست دی۔ بعد میں جمہور بن مرار عجلی مال غنیمیت پر قابض ہوا اور بغاوت پر اتر آیا۔ منصور نے اپنے اس سپہ سالار کو بھی شکست دے دی۔ عراق اور خراسان کے توہم پرست لوگوں کا ایک گروہ جو ابومسلم کا پیروکار تھا وہ بغاوت پر آمادہ ہوا اور منصور کے محل پر حملہ آور ہوئے اس بغاوت میں معن بن زائدہ نے منصور کی جان بچائی بعد میں منصور نے اس فرقے کی بغاوت کا قلع قمع کیا۔
افریقہ کی بربر قبائلیوں کی جانب سے بھی بغاوت کا سلسلہ جاری رہا۔ وہاں بھیجے گئے کئی سالاروں کو بربروں نے قتل کر دیا۔ مگر عباسی فوجی کمانڈر یزید بن حاتم نے قیروان پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور اردگرد کے علاقوں میں شورشوں کا خاتمہ کرکے شمالی افریقہ میں عباسی تسلط قائم کیا۔ اسی طرح ایک خارجی حسان بن مجالد ہمدانی نے موصل کے قریب بغاوت کا آغاز کیا موصل اور اردگرد کے علاقوں میں قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم کرکے وہاں کے حاکم کو شکست دی سرکاری فوج کی ناکامیوں سے منصور سخت پریشان ہوا چنانچہ دار الخلافہ سے افواج روانہ کیں بہرحال مزید کسی کشت خون کے بغیر ہی منصور نے دانائی اور حکمت سے کام لے کر اس بغاوت کو دبا دیا ۔
امام نفس الزکیہ کی بغاوت
ترمیمدیکھیے مکمل مضمون امام محمد نفس الزکیہ
منصور کی حکومت کی خلاف سب سے بڑا خروج امام محمد نفس الزکیہ کا تھا۔ امام نفس الزکیہ اپنی پاکبازی اور پرہیز گاری کی بدولت عوام میں بہت مقبول تھے۔ امام جعفر صادق کے مقابلے میں وہ خلافت کے پرجوش داعیوں میں سے تھے۔ [حوالہ درکار] امام حسنؐ کی چوتھی پشت سے تعلق رکھتے تھے۔ دوسری طرف بنو عباس کی طرف سے چونکہ یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ بنو امیہ کے خلاف بغاوت کامیاب ہونے کی صورت میں اہل بیت کو ہی خلافت کے مسند پر بٹھایا جائے گا لیکن عباسی اپنے اس وعدے سے پھر گئے یوں عام عوام میں اور خاص طور پر شیعہ آبادی میں عباسی خاندان کی اس وعدہ خلافی کے خلاف ایک رد عمل موجود تھا۔ [حوالہ درکار] منصور نے امام محمد نفس الزکیہ کو گرفتار کرنے کی کوئی بار کوشش کی مگر انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ یوں کافی عرصہ تک امام صاحب روپوش رہے۔ آخر کار 762ء کو امام نفس الزکیہ مدینہ میں ظاہر ہوئے اور وہاں اپنی خلافت کا اعلان کر دیا۔ بہت جلد حجاز اور یمن کے لوگوں نے ان کو اپنا خلیفہ تسلیم کر لیا۔ یوں خروج کی ابتدا ہوئی۔ امام الزکیہ کی اس تحریک کو اس وقت کے جید ہستیوں کی بھی حمایت حاصل رہی ان میں امام مالک اور امام ابوحنیفہ شامل ہیں۔ [حوالہ درکار] منصور نے مدینہ منورہ ان کی گرفتاری کے لیے افواج روانہ کیں امام صاحب نے عباسی فوج کی آمد کی اطلاع پر ساتھیوں سے مشورہ کیا۔ اور مدینہ شہر میں محصور ہو گئے۔ بعد میں بہت سے لوگوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ یوں جنگ کے دوران امام صاحب کو شہید کر دیا گیا۔ ان کے سر کو عبرت کے لیے مدینے کی گلیوں میں پھرایا گیا۔ اس کے بعد ان کے بھائی امام ابراہیم نفس الرضیہ نے بصرہ میں خروج کا اعلان کیا بعد میں عباسی فوجوں نے ان کو بھی جنگ میں شہید کر دیا۔ یوں منصور اپنے خلاف اس بڑی بغاوت کو ختم کرنے میں کامیاب رہا۔ مگر اس نے ایک ایسے شخص کا خاتمہ کیا جس نے اپنی تحریک کی بنیاد سنت رسول کی بنیاد پر اٹھائی تھی۔ اورامام نفس الزکیہ جیسی پاکیزہ ہستی کی شہادت سے مسلمانوں کو شدید دھچکا لگا۔ [حوالہ درکار]
فتوحات
ترمیمبغاتوں کو ختم کرنے کے بعد منصور نے فتوحات کی طرف توجہ کی سندھ میں کمزور ہوتی حکومت کو پھر سے مضبوط کیا اور اردگرد کے تمام ہندو راجاؤں کو مطیع و فرماں بردار بنایا۔ نظام میں اصلاحات کی بدولت سندھ میں خوش حالی کا دور شروع ہوا۔ طبرستان اور دماوند پر قبضہ کیا اور ترکوں کی سرکوبی کی۔ روم پر لشکر کشی کی اور بہت سے روم کے مفتوحہ علاقے دوبارہ بازیاب کرائے۔ دوسری طرف اندلس میں اموی خلافت کا آغاز ہو چکا تھا۔ عبدالرحمن الدخل نے وہاں ایک مضبوط ریاست قائم کی منصور نے اندلس پر حملہ کرکے اسے اپنی سلطنت میں شامل کرنا چاہا لیکن عبد الرحمن کے ہاتھوں عبرت ناک شکست کھا کر بچے کچھے عباسی سپاہی لوٹ آئے۔ منصور نے عبد الرحمن کی بہادری اور عزم و حوصلہ کو سراہتے ہوئے اسے مسقر قریش یعنی شہباز کا لقب دیا۔ عباسیوں نے اس کے بعد کبھی اندلس کا رخ نہیں کیا۔آفتاب انصاری
کا رہائے نمایاں
ترمیممنصور نے بغاوتوں کو فرو کرکے ایک مضبوط عباسی حکومت کی بنیاد ڈالی اور ملکی نظم و نسق کو بہتر بنانے کی طرف توجہ کی۔ اسی ملکی استحکام کی وجہ سے ان کے جانشینوں نے عظیم الشان کارنامے انجام دیے۔ منصور نے ایک ایسی حکومت اپنے جانشین کے حوالے کی جس کا خزانہ پر، لوگوں کے دل امن سے معمور اور رعایا خوش حال، تجارت روبہ ترقی اور ریاست بے حد مستحکم تھی۔ اس نے فوج کو مستحکم کیا۔ ان کی تنخواہوں کا باقاعدہ انتظام کیا فوجی چوکیاں اور چھاونیاں تعمیر کیں۔ آفتاب انصاری۔محکمہ جاسوسی کو بہتر بنایا۔ اس نے علویوں کی طاقت کا خاتمہ کیا جس سے عباسی خلافت کا وجود یقینی ہو گیا۔ اس نے خلافت کے مذہبی تقدس کو بحال کیا اور یہ نظریہ پیش کیا کہ چونکہ بنوعباس بھی اہل بیت نوبی ہیں لہذا سیاسی قیادت کے علاوہ مذہبی سیادت یعنی امامت بھی انھی کا حق ہے۔ یوں مستقبل میں ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی قوت اور غلبہ کھو جانے کے باوجود صدیوں تک عباسی خلافت کی اسلامی دنیا میں مرکزی اور روحانی حیثیت قائم رہی۔ مالیات کے محکمے کو مستحکم کیا۔ اس کا مشہور قول ہے کہ دولت حکومت کے لیے حصن اور دین و دنیا کے لیے بمنزلہ رکن ہے۔ اپنے اس مقولہ پر عمل پیرا ہو کر اس نے ساری عمر فضول خرچیوں سے اجتناب برتا اور کفایت شعاری کو معمول بنا لیا۔ ان کی وفات کے وقت خزانہ مال و دولت سے پر تھا۔ یوں رعایا کی خوش حالی کا آغاز ہوا۔
منصور خود صاحب علم و فضل تھا لہذا اس کی ذاتی دلچسپی کی بدولت اس عہد میں بڑا عظیم عملی و ادبی کام ہوا۔ اموی دور میں کتاب و سنت کے علوم پر بڑا پائیدار کام ہوا تھا لیکن منصور کے عہد میں دیگر علوم کی بھی آبیاری ہوئی۔ عربی زبان کے علاوہ فارسی زبان میں بڑی بڑی تصانیف منظر عام پر آئئیں ان کے عہد میں امام مالک اور امام ابوحنیفہ جیسی نابغہ روزگار شخصیات پیدا ہوئیں۔ جناب ثفیان ثوری، ابن لیہہ، ابن مبارک، امام ابویوسف، ان جریح، عبد الرحمن بن عمر اوزاعی، حماد بن سلمی اور ابن ابی عمرو نے کتب و حدیث تحریر کیں، جلیل القدر علما و محدثین کا تعلق ان کے دور سے ہے۔ ساتھ ہی علوم نقلیہ کے ساتھ علوم عقلیہ پر بھی بڑی بڑی تخلیقات منظر عام پر آئیں۔ منصور نے فلسفہ کے علوم کو رواج دینے کی طرف توجہ کی۔ اس نے قیصر روم کو لکھ کر اقلیدس اور طبیعیات کی کتب ترجمے کے لیے منگوائیں۔ اس کی سرپرستی کی بنا پر عبد اللہ بن مقنع جیسے ادیب اور فلسفی۔ نوبخت اور ابراہیم جیسے ماہر فلکیات دربار سے وابستہ ہوئے۔ کلیہ و دمنہ اور سدھانت کے تراجم بھی اسی دور میں کیے گئے۔ سریانی، یونانی اور سنسکرت سے مختلف کتابوں کو عربی اور فارسی میں ترجمہ کیا گیا۔
بنی امیہ خالص عربی حکومت تھی عباسی بھی نسل کے لحاظ سے عرب تھے لیکن سیاسی اور انتظامی لحاظ سے حکومت ایرانی تھی۔ فارسی زبان، رسم و رواج آداب اور اطوار اختیار کیے گئے۔ اس نے فوج اور انتظامیہ میں غیر عرب عناصر کو شامل کیا وہ پہلا شخص تھا جس نے موالیوں کو بہت سے کاموں پر مامور کیا۔ اور انھیں عربوں پر ترجیح دی۔ یوں ان کا اعتماد حکومت پر بحال ہوا۔
منصور کے دور میں تعمیرات کے شعبے میں بھی بہت سے کام ہوئے۔ مسجد حرام کی توسیع ہوئی۔ آب پاشی کی طرف توجہ کی گئی اور رفاعہ عامہ کے نقطہ نظر سے بہت سے پل نہریں اور نئی بستیاں آباد کی گئیں۔ اس حوالے سے اس کا سب سے بڑا کارنامہ بغداد کی تعمیر ہے۔ فرقہ راوندیہ کے فساد کے بعد اس نے دار الحکومت کی تبدیلی کا سوچا اور دریائے دجلہ کے کنارے ساسانی درالحکومت مدائن کے قریبی مقام کو اپنے دار الحکومت کے لیے منتخب کیا۔ اور بغداد اس کا نام رکھا۔ اس نے 751ء میں بغداد کی بنیاد رکھی اور خالد برمکی کو اس کی تعمیر کا انچارج مقرر کیا۔ شہر کی تعمیر میں بے حد فیاضی سے کام لیا گی۔ شہر اپنی ساخت کے لحاظ سے گول تھا اس کے اردگرد دوہری فصیل بنائی گئی اس کے چار دروازے تھے۔ ان چار دروازوں میں سے چار سڑکیں نکالی گئیں جو باہم ایک نقطہ پر جا کر مل جاتی۔ اس مقام پر خلیفہ کا محل تھا جس کا نام قصر الخلد تھا۔
یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ عباسیہ خاندان کا اولین بانی ابوالعباس عبد اللہ سفاح تھا۔ مگر اس کا دور جنگ و جدل اور مخالف قوتوں کی شورش کا دور تھا۔ مگر ابوجعفر منصور نے جس طرح بطور جانشین ان سب چیزوں پر قابو پایا اور اس کو استحکام بخشا اسے جائز طور پر بنو عباس کا حقیقی بانی قرار دیا جا سکتا ہے۔
شخصیت و کردار
ترمیممنصور ایک خوبرو، دراز قد، گندم گوں اور دبلے پتلے جسم کا مالک انسان تھا اس کے رخسار پر گوشت کم تھا اور داڑھی گھنی تھی جسے سیاہ رنگ سے خضاب کرتا تھا۔ وہ کم گو اور سنجیدہ مزاج تھا اور اس کے چہرہ پر وقار اور ہیبت چھائی رہتی تھی۔ خلوت میں خوش اخلاق اور خوش مزاج تھا۔ مسعودی کا بیان ہے کہ جب تک وہ لوگوں میں نہ نکلتا اس وقت تک بہترین اخلاق کا انسان ہوتا۔ وہ بچوں کی شرارت کو بہت پسند کرتا تھا۔ جب وہ لباس پہنے باہر نکلتا تو اس کے چہرہ پر سنجیدگی و ہیبت طاری ہو جاتی۔ اپنی بہترین عادات و خصائل کی بنا پر مورخین نے ان کی بڑی تحسین کی ہے۔
ہمت و شجاعت
ترمیمتخت خلافت پر متمکن ہونے کے بعد منصور کو جو مشکلات درپیش رہیں اس نے ان سب کا ہمت مردانہ اور شجاعت سے مقابلہ کیا۔ واسط کے محاصرہ کے دوران اس کے حریف یزید بن ہبیرہ نے اس کی مردانگی و شجاعت کی داد ان الفاظ میں دی۔ {اس نے جب شہر واسط کا محاصرہ کیا تو میرے سر میں ایک بھی سفید بال نہیں تھا اور جب مقابلہ کرنے کے لیے نکلا تو میرے سر میں ایک بھی بال سیاہ نہیں رہا} وہ ہر مشکل کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔
انتظامی صلاحیتیں
ترمیموہ بڑا محنتی اور فرض شناس انسان تھا۔ وہ اپنا اکثر وقت حکومتی کاموں میں صرف کرتا۔ نماز صبح سے فارغ ہوتے ہی دوپہر تک حکومت کے ہر طرح کے معاملات اور مسائل پر غور کرتا اور احکامات صادر کرتا۔ عصر کے بعد گھر والوں کے ساتھ بیٹھتا اور عشاء کے بعد پھر باہر سے آئے ہوئے مراسلات پر غور و خوص کرتا اور ارکان سلطنت سے مشورہ کرتا۔ ایک تہائی رات گئے آرام کرنے کی خاطر بسر کی طرف لوٹتا۔
دور اندیشنی
ترمیممسعودی کا بیان ہے کہ منصور فوجی تدبیر اور حسن سیاست کی معراج کمال تک پہنچا ہوا تھا۔ جس معاملہ میں نفع کی توقع ہوتی اس میں بے دریغ پیسا خرچ کرتا اور جہاں روپیہ ضائع ہونے کا خدشہ ہوتا وہاں معمولی رقم بھی خرچ نہ کرتا۔ وہ رائے اور تدبیر میں دوراندیش اور ایک تجربہ کار حکمران تھا۔
حاضر دماغی
ترمیمابن ہبیرہ کی رائے ہے کہ میں نے جنگ اور امن دونوں حالتوں میں کسی شخص کومنصور سے زیادہ ہوشیار اور چالاک، بیدار اور چوکنا نہیں پایا۔ کھٹن سے کھٹن حالات میں وہ حوصلہ نہیں ہارتا تھا۔ بلکہ سیاسی داؤ گھاٹ، مکر و فریب اور حیلہ سازی سے کام لے کر دشمن پر کامرانی حاصل کر لیتا۔ ابومسلم کے قتل میں اس نے سازش اور فریب سے کام لیا۔ اپنی ذہانت و فطانت اور حیلہ بازی کی بنا پر وہ ہر طرح کے پر خطر حالات میں بھی کامیاب و کامران نکلا
کفایت شعاری
ترمیممنصور روپیہ کے استعمال میں بڑا محتاط واقع
ہوا تھا۔ وہ اپنے کارکنوں سے ایک ایک پائی کا حساب لیتا تھا۔ اس کی کفایت شعاری کے عجیب و غریب قصے مشہور ہوئے۔ طبری نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک دن منصور نے اپنے غلام سے کہا کہ میرے پرانے پھٹے کپڑے اکھٹے کرو۔ اور جب مہدی میرے پاس حاضر ہو وہ سب کپڑے میرے پاس لے آنا۔ اتنے میں مہدی آ گیا تو منصور ان پیوندوں کا اندازہ لگانے لگا کہ کہاں ٹھیک لگ سکیں گے۔ یہ عالم دیکھ کر اس کا جانشین مہدی مسکرایا اور کہا اے امیر المومنین اسی وجہ سے لوگوں میں چرچا ہے کہ دینار و درہم اور اس سے کم مالیت کے سکہ پر امیر المومنین کی نظر رہتی ہے منصور نے برجستہ جواب دیا کہ جو شخص اپنے پھٹے کپڑے کی اصلاح نہیں کرتا وہ نئے کپڑے کا مستحق نہیں۔ اس کی اسی عمل کی وجہ سے جب اس کی وفات ہوئی تو خزانہ دولت سے بھرا ہوا تھا۔
سادگی و پاکیزگی
ترمیماس کی نجی اور ذاتی زندگی سادگی کا نمونہ تھی۔ ابن خلدون نے اس کی سادگی پر اسے خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ وہ پابند و صوم صلوۃ تھا۔ اکثر پیوند لگے کپڑے پہنتا۔ اس کے کمرہ کے اندر ایک ٹاٹ پچھا ہوتا جہاں منصور کے بستر، لحاف اور توشک کے کچھ اور موجود نہیں ہوتا۔ موسیقی سے اسے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ عیش و عشرت سے اسے نفرت تھی۔
سخت گیری
ترمیممنصور نے بغاوتوں کے استیصال اور ملکی امن و امان کے قیام میں لوگوں پر بڑی بڑی سختیاں کیں۔ امام مالک کو کوڑے تک لگوائے اور امام ابوحنیفہ کو قید میں ڈال دیا گیا۔ علویوں کے ساتھ بڑا سخت رویہ رکھا۔ ایک دفعہ کسی نے ان سے کہا کہ آپ سزا دینے میں کمر بستہ ہیں درگزر سے بھی کام لیا کریں تو منصور نے جواب دیا کہ آل مروان کا خون خشک نہیں ہوا اور آل ابی طالب کی تلواریں ابھی برہنہ ہیں یہ زمانہ ایسا ہے کہ ابھی تک خلفاء کا رعب ان کے دلوں میں قائم نہیں ہوا اور یہ سب اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک لوگ عفو کے معنی ہی نہ بھول جائیں
عدل و انصاف
ترمیممنصور عام رعایا اور امن پسند شہریوں کے لیے ہر لحاظ سے نرم اور عادل تھا اس کا قول تھا کہ خلیفہ کو صرف تقوی درست رکھ سکتا ہے، اس نے رعایا کو کھلی آزادی عطا کی اور جب کبھی کوئی اسے اپنی تکلیف بیان کرتا تووہ اس کا مداوا کرتا۔ اس کے نزدیک سلطنت کے چار ضروری ارکان ہے ایک قاضی جو عدل قائم رکھے دوسرے پولیس جو زبردستوں کو ظالموں سے محفوظ رکھے اور کمزوروں کو انصاف دے۔ تیسرے محصل جو پورا خراج کرے اور چوتھے پرچہ نگار جو لوگوں کے بارے میں صحیح اطلاعات دے۔
علمی فضیلت
ترمیموہ نہ صرف مربی علم و ادب بلکہ خود بڑا عالم اور اعلیٰ درجہ کا خطیب تھا۔ روانی گفتار اور قوت استدلال سے وہ عام و خاص کو اپنی گرفت میں لے لیتا۔ وہ ارباب علم و فن کا بڑا قدر دان تھا۔ اس کے دور میں علمی و ادبی حوالے سے بہت زیادہ کام ہوا۔
وفات
ترمیمعبد اللہ سفاح نے منصور کے بعد اپنے بھتیجے عیسی بن موسی کو اپنا ولی عہد مقرر کرنا چاہتا تھا۔ مگر منصور اپنے بیٹے مہدی کو اپنا ولی عہد مقرر کرنے کی ٹھان لی۔ اس کے لیے اس نے ایک چال چلی اور اپنے چچا عبد اللہ بن علی کو گرفتار کرکے عیسی کے حوالہ کیا اور حکم دیا کہ اسے قتل کر دے تاکہ قتل کے جرم کی پاداش میں اسے قتل کیا جاسکے۔ لیکن عیسی نے اسے قید میں رکھا اور قتل نہیں کیا۔ کچھ عرصہ بعد عیسی نے عبد اللہ بن علی کو منصور کے سامنے پیش کرکے اپنی جاں بخشی کروالی لیکن منصور نے عیسی کو ولی عہدی سے ہٹا کر اپنے بیٹے کو جانشین بنا دیا عیسی نے اس فیصلہ پر پس و پیش کیا تو منصور نے اس کی تذلیل کی اور دھمکیاں دیں تنگ آکر عیسی نے دست برداری قبول کر لی اور اس کے بعد منصور نے اپنے بیٹے کو ولی عہد مقرر کیا۔ اپنے جانشین مہدی کے نام وصیت کرنے کے بعد وہ 775ء 148ھ کو حج کے لیے روانہ ہوا۔ دوران سفر بیمار ہو گیا اور چھ ذی الحج کو بیرمیمون کے مقام پر تریسٹھ سال اور کچھ ماہ کی عمر میں وفات پائی۔ وفات کے وقت سوائے اس کے خاص خادموں اور وزیر ربیع کے اور کوئی موجود نہ تھا۔ اس کا عہد حکومت تقریبا بائیس سال رہا۔
اولاد
ترمیمآپ کے آٹھ بیٹے تھے۔[4]
- محمد المہدی
- جعفر الکبر، سلیمان ،عیسٰی، یعقوب، جعفر الاصغر، قاسم اور صالح المسکین
آپ کی اولاد میں سے محمد المہدی اور جعفر الکبر کی ماں ارویٰ بن منصور تھی جو یزید بن منصور کی بہن تھی،
فاطمہ بنت محمد جو طلحہ بن عبید اللہ کی اولاد سے تھی ان سے سلیمان، یعقوب اور عیسیٰ تھے،
جعفر الاصغر کی ماں کردی ام ولد تھی،
قاسم کی ماں ام ولد تھی،
صالح المسکین کی ماں رومی ام ولد تھی اور ایک بیٹی عالیہ تھی جس کی ماں بنی امیہ میں سے تھی۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ مصنف: عزالدین ابن الاثیر الجزری — عنوان : الكامل في التاريخ — صفحہ: 663 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://archive.org/details/waq105929
- ↑ https://www.britannica.com/biography/al-Mansur-Abbasid-caliph
- ↑ مصنف: ابن جریر طبری — عنوان : تاريخ الأمم والملوك، تاريخ الطبري — صفحہ: 1588 — ISBN 978-9957-21-152-3 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://archive.org/details/waq105927
- ↑ تاریخ الکامل5
ابو جعفر المنصور پیدائش: 714ء وفات: 6 اکتوبر 775ء
| ||
مناصب سنت | ||
---|---|---|
ماقبل | خلیفۃ الاسلام 10 جون 754ءء – 6 اکتوبر 775ءء |
مابعد |