علی ابن زینب
آپ کا اسم گرامی علی اور لقب سبط الرسول تھا۔ آپ ابو العاص بن ربیع اور زینب بنت محمد رسول اللہ کے صاحبزادے اور امامہ بنت ابی العاص کے بھائی تھے۔ [1]
علی ابن زینب | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | مکہ |
تاریخ وفات | 630ء کی دہائی |
والد | ابوالعاص |
والدہ | زینب بنت محمد |
بہن/بھائی | |
درستی - ترمیم |
سلسلہ نسب
ترمیموالد ماجد کی جانب سے سلسلہ نسب یہ ہے
- ابو العاص (لقیط) بن ربیع بن عبد العزی بن عبد شمس بن عبد مناف
والدہ ماجدہ کی جانب سے سلسلہ نسب یہ ہے
- زینب بن محمد رسول اللہ بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف [2]
پیدائش
ترمیمآپ ہجرت مدینہ سے قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے تھے۔ [3]
رضاعت
ترمیمبنی غاضرہ کے قبیلے میں آپ نے دودھ پیا تھا۔ [4][5]
رسول اللہ کے زیر کفالت
ترمیمرضاعت کی مدت پوری ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نواسے کو اپنے زیر کفالت لے لیا تھا کیونکہ ان کے باپ ابو العاص بن ربیع اس وقت مکہ میں مقیم تھے اور اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ [6] رسول اللہ نے فرمایا جو شریک ہو میری اولاد میں تو مجھ کو اس پر اس سے زیادہ حق ہے (یعنی میری دختری اولاد پر ان کے والد سے زیادہ مجھ کو اختیار ہے) اور جو کافر کسی مسلمان کا کسی چیز میں شریک ہو تو مسلمان اس سے زیادہ کا حقدار ہے۔ [7] ابو العاص بن ربیع جب غزوہ بدر میں گرفتار ہوئے تو اس شرط پر رہا ہوئے کہ وہ اپنی بیوی کو مدینہ بھیج دیے گا چنانچہ اس نے رہائی کے بعد زینب بنت رسول اللہ اور اس کے دونوں بچوں (علی بن ابو العاص اور امامہ بنت ابو العاص) کو بھی ساتھ بھیج دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نواسے کی تربیت اور پرورش خود فرمائی۔ [8]
ہم رکاب رسول
ترمیمالاستیعاب فی معرفة الاصحاب میں ہے
وفات
ترمیمعلی بن ابو العاص نے رسول اللہ کی زندگی ہی میں بلوغت کے قریب پہنچ کر وفات پائی۔ البتہ ابن عساکر نے بعض اہل علم کا قول نقل کیا ہے کہ جنگ یرموک کے موقع پر شہید ہوئے۔ علامہ اقبال نے اپنی نظم 'جنگ یرموک' میں جس نوجوان کو خراج تحسین پیش کی ہے وہ علی زینبی رض ہی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے وقت کعبہ کے بڑے بتوں کو توڑنے کے لیے علی زینبی رض کو اپنے کندھے پہ بٹھایا تھا اور انھوں نے کلہاڑی کی مدد سے ان بتوں پہ ضرب لگائی تھی۔[10] صحیح بخاری کی حدیث عن اسامہ بن زید میں ہے:
- ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں تھے کہ حضور کی ایک لڑکی کا خادم آیا کہ وہ حضور کو بلا رہی ہیں اور ان کا فرزند بستر موت پر ہے۔ فرمایا جاؤ لڑکی سے کہہ دو اللہ ہی کا ہے جو کچھ وہ واپس لیتا ہے یا عطا کرتا ہے اور اس کے ہاں ہر چیز کا وقت مقرر ہے۔ لڑکی سے یہ بھی کہہ دینا کہ صبر و شکیب قائم رکھے۔ خادم پھر واپس آیا، کہا وہ حضور کو قسم دیتی ہیں کہ حضور ضرور تشریف لائیں۔ نبی کریم چل پڑے۔ حضور کے ساتھ سعد بن عبادہ اور معاذ بن جبل بھی تھے۔ حضور کو بچہ دکھایا گیا وہ اس وقت سانس توڑ رہا تھا اور سسکیاں بھر رہا تھا۔
غالباً یہ حدیث علی بن ابو العاص سبط الرسول ہی کی وفات کے متعلق ہے۔[11]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ وماارسلنک الا رحمتہ للعلمین مصنف قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری صفحہ 368
- ↑ ہم رکاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مولف حافظ محمد ابراہیم فیضی صفحہ 56
- ↑ خاندان مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مولف سید محمد سعید الحسن شاہ صفحہ 549
- ↑ اسد الغابة فی معرفة الصحابة مصنف عزالدین بن الاثیر ابی الحسن علی بن محمد الجزری اردو متراجم مولانا محمد الشکور فاروقی لکھنوی جلد دوم حصہ ہفتم صفحہ 626
- ↑ الصابة فی تمیز الصحابة مصنف علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی اردو متراجم مولانا محمد شہزاد علوی جلد چہارم صفحہ 139
- ↑ تذکرہ اہل بیت اطہار مولف مولانا عبد المعبود صفحہ 291
- ↑ اسد الغابة فی معرفة الصحابة مصنف عزالدین بن الاثیر ابی الحسن علی بن محمد الجزری اردو متراجم مولانا محمد الشکور فاروقی لکھنوی جلد دوم حصہ ہفتم صفحہ 626
- ↑ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عزیز و اقارب مصنفین محمد اشرف شریف اور ڈاکٹر اشتیاق احمد صفحہ 336
- ↑ ہم رکاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مولف حافظ محمد ابراہیم فیضی صفحہ 56 اور 57
- ↑ تذکرہ اہل بیت اطہار مولف مولانا عبد المعبود، ص 292
- ↑ وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین، مصنف، قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری، ص 368