عمار اقبال

پاکستانی شاعر

عمار اقبال [1] اردو زبان کے ایک پاکستانی شاعر ہیں[2]، ان کے شاعری کے تین مجموعے ”پرندگی، [3]“ پرونیٹ(نثری سانیٹ) اور ”منجھ روپ[2]“ شائع ہو چکے ہیں۔

عمار اقبال

معلومات شخصیت
پیدائش 25 فروری 1986ء (38 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
عملی زندگی
پیشہ مترجم ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

خاندان

ترمیم

آپ کا شجرہ نسب حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ سے جا ملتا ہے، اس لیے ”ادھمی“ کہلاتے ہیں۔[4]آپ کے والدین 1970ء کے بعد بھارت سے پاکستان منتقل ہوئے اور یہیں کراچی میں عمار پیدا ہوئے[4]عمار کے والد اقبال مسعود ادھمی ایک انجینئر تھے اور پاکستان سٹیل ملز میں کام کرتے تھے۔[4]اور آپ کی والدہ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ تھیں۔[4]

شاعری

ترمیم

بقول غنی غیور، ”عمار اقبال خواص کے شاعر ہونے کے ساتھ عوام الناس کے شاعربھی ہیں۔“[5]آپ نے نعیم گیلانی سے شاعری میں اصلاح لی۔[4]عمار اقبال کی شاعری مختلف النوع ہے، وہ اپنے درونِ خانہ میں جھانک کر اپنی ہستی کے متعلق اپنا تصور سپردِ قرطاس کردیتے ہیں۔ انھیں اپنے اندر کی اُداسی، حساسیت اور اپنی کم مائیگی کا ادراک بیان کرنے میں کوئی عار نہیں ہے۔ درج ذیل اشعار اس کی ایک مثال ہیں۔

؎عکس کتنے اتر گئے مجھ میںپھر نہ جانے کدھر گئے مجھ میں
میں نے چاہا تھا زخم بھر جائیںزخم ہی زخم بھر گئے مجھ میں
میں وہ پل تھا جو کھا گیا صدیاںسب زمانے گزر گئے مجھ میں
یہ جو میں ہوں ذرا سا باقی ہوںوہ جو تم تھے وہ مر گئے مجھ میں
میرے اندر تھی ایسی تاریکیآ کے آسیب ڈر گئے مجھ میں

پہچان

ترمیم

عنبرین حسیب عنبرؔ، اندازِ بیان اور۔دبئی 2019ء مشاعرے کی نظامت کرتے ہوئے عمار اقبال کی ادبی حلقوں میں پہچان کے حوالے سے ( یو ٹیوب ویڈیو[4] میں آغاز سے 1:25 منٹ تک) یوں فرماتی ہیں، ”جو نہایت فعال اور با صلاحیت شاعر ہے، ایک ایسا شاعر جس کے اندر بے پناہ انفرادیت ہے اور اپنی اس انفرادیت کی وجہ سے وہ اوروں سے کہیں آگے نکلتا نظر آتا ہے، اس کی شاعری میں رنگ بھی ہے اور رس بھی، اس کی شاعری میں آپ کو زندگی اور زندگی سے وابستہ اشیاء کے متعلق بڑی خوبصورت شاعری ملے گی، قولِ محال کی قوت بخش موجودگی بھی ملے گی اور ساتھ ہی ساتھ اپنی ذات کا اقرار بھی ملے گا، اس شاعر نے زندگی کی نفسیات سے ایک بڑی وسیع لغت ترتیب دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اُردو ادب کے سنجیدہ حلقوں میں اپنی پہچان اور اپنا ایک اعتبار بنا لیا ہے۔ ان کے ہاں انسانی زندگی اور زندگی کا جو ادراک ملتا ہے وہ ان کے دیگر ہم عصر شعرا میں ہمیں کم کم دکھائی دیتا ہے۔ “ یہ ویڈیو[4] جون 2021ء تک 23 لاکھ سے زائد زائرین نے دیکھی ہے، جو عمار کی عوامی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اسلوب

ترمیم

ڈاکٹر ستیہ پال آنند، عمار اقبال کے شعری اسلوب کے بارے میں کہتے ہیں، ”شاعر (عمار) نے سادہ، روز مرہ طرزِ کلام اپنایا ہے اور اُس کے اشعار شیشے کی کرچیوں طرح تیز دھار ہیں، اس کی نظموں میں خودترسی ناقابلِ ذکر ہے اور اُس کی غزلوں میں اچھی بات یہ ہے کہ اُس نے اپنی محبوبہ کے لیے تانیث کا صیغہ استعمال کیا ہے جو اُردو شاعری میں عام طور پر نہیں ہوتا “۔[3]

نظریات بر نوع پرستی

ترمیم

عمار اقبال انسانی مساوات کے ساتھ ساتھ دیگر مخلوقات کے حقوق کے لیے بھی آواز بلند کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم انسان خود کو اشرف المخلوقات کن بنیادوں پر مانتے ہیں اور دوسری مخلوقات کو کمتر کیوں سمجھتے ہیں، چنانچہ وہ ایک ویڈیو پیغام[6] میں(یوٹیوب ویڈیو میں 10:30 منٹ سے لے کر 10:58 تک)یوں گویا ہیں، ”ہمارے پاس نوعِ انسانی کو فوقیت دینے کا جو جواز ہے، اس کا ہمیں دوبارہ تجزیہ کرنا پڑے گا کہ اس فوقیت کا جواز عقل و شعور تو نہیں بن سکتا، ایک نوزائیدہ (انسانی) بچے اور ایک بالغ کتے میں سے کون زیادہ عقل و شعور رکھتا ہے؟ تو کیا اس بنیاد پر وہ (انسانی) بچہ کسی میڈیکل لیب میں تجربے کی بھینٹ چڑھایا جا سکتا ہے؟“ اسی ویڈیو[6]میں (15:51 منٹ سے 16:06 منٹ تک میں) کہتے ہیں، ”جانور کی برابر ویلیو (قدر) سمجھنے کی بنیاد پر ہی آپ اشرف ہیں، یہ سمجھ جس میں ہے وہ اشرف ہے، شریف ہے، جس کو شرف حاصل ہے۔ “ عمار اقبال دراصل جانوروں (یا جانداروں) کے ساتھ میڈیکل لیب میں ہونے والے غیر ضروری تجربات، جن کا حصول محض انسانی تفریح ہے، کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے درج ذیل الفاظ میں اپنا مدعا پیش کرتے ہیں۔ ”نوح جب کشتی بنا رہے ہیں تو اس میں وہ صرف ناشکروں کو چھوڑ رہے ہیں، باقی تمام مخلوق کو وہ کشتی میں لا رہے ہیں، ۔۔۔ انسان دو ہی طرح کے ہیں یا تو وہ ہیں جو شکر کرنا جانتے ہیں یا وہ ہیں جو شکایت کرنا جانتے ہیں، جو شکایت کرتے ہیں ان کے ہاں سیلاب آتا ہے، جو شکر کرتے ہیں وہ بچ جاتے، جانور تو ہیں ہی شکر گزار، وہ تو اپنے ماحول کا مستقل شکریہ ادا کر رہے ہیں، ناشکرے تو ہم (انسان) ہیں۔ ہمیں تو ہرگز یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ہم کسی بھی طرح صرف اس بنیاد پہ کہ کوئی ہمیں کم عقل لگ رہا ہے، تو اُس کا استحصال کریں، انسانوں کو دیکھ لیں نا کہ اگر کوئی ہمیں بے وقوف لگ رہا ہے، تو کیا اُس کو بے وقوف بنانا کوئی اچھی بات ہے؟ تو اسی طرح جانور کو صرف اسی طرح استعمال کر لینا (لیب میں اُلٹے سیدھے تجربات کے لیے) کہ وہ بے وقوف ہے، تو یہ اچھی بات تو نہیں ہے۔“(17:06 منٹ سے 18:02 منٹ تک)ویڈیو[6]

ہم جنس پرستی پر تاثرات

ترمیم

”ادب کاریاں“ چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ہم جنس پرستی کو غلط کہتے ہیں اور (یو ٹیوب ویڈیو میں[7]32:27 منٹ سے 32:41 تک) ایک بیہودہ ترین حرکت کہتے ہیں، جو لوگ اس کے حق میں دلائل دیتے ہیں اُن کو احمق ترین اور غلیظ ترین سمجھتے ہیں، اس کو ایک غیر فطری طریقہ قرار دیتے ہیں۔

تصانیف

ترمیم

عمار کی تصانیف درج ذیل ہیں۔

  1. پرندگی(غزلیں، نظمیں )
  2. منجھ روپ(نظمیں )
  3. پرونیٹ(نثری سانیٹ)
  4. منجھ روپیت(ترجمہ: کافکا)
  5. اجنبی(ترجمہ: کامیو)
  6. بیضوی عورت (ترجمہ: لیونورا کیرنگٹن)
  7. دیوانوں کی ڈائیریاں(تراجم: موپساں، گوگول، لیو شان)
  8. مرگستان (ترجمہ: البرٹ کامیو)
  9. گڈ مارننگ

حوالہ جات

ترمیم
  1. http://bio-bibliography.com/authors/view/13461
  2. ^ ا ب "عمار اقبال کی Profile | ریختہ"۔ Rekhta 
  3. ^ ا ب Peerzada Salman (4 فروری، 2015)۔ "'I'm not in favour of traditional ghazal'"۔ DAWN.COM 
  4. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج عبدالرزاق قادری (7 جولائی، 2021)۔ "عمارؔ اقبال۔۔۔ ایک تعارف۔۔۔ پہلا حصہ"۔ AfkareMuslim 
  5. "آرکائیو کاپی"۔ 25 جون 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2021 
  6. ^ ا ب پ "Ammar Iqbal On Nau-Parasti" – www.youtube.com سے