اصیرم رضی اللہ تعالیٰ عنہ(وفات: ) کا نام عمرو بن ثابت بن وقش تھا جو اصیرم کے لقب سے مشہور تھے۔ حضرت عمرو بن ثابت جو اصیرم کے لقب سے مشہور تھے۔ ہمیشہ اسلام سے منحرف رہے۔ جب غزوہ احد کا دن ہوا تو اسلام دل میں اتر آیا اور تلوار لے کر میدان میں پہنچے اور کافروں سے خوب قتال کیا۔ یہاں تک کہ زخمی ہو کر گر پڑے ۔ لوگوں نے جب دیکھا کہ اصیرم ہیں تو بہت تعجب ہوا اور پوچھا: اے عمرو تیرے لیے اس لڑائی کا کیا داعیہ ہوا۔ اسلام کی رغبت یا قومی غیرت و حمیت؟۔ اصیرم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا۔ بلکہ اسلام کی رغبت داعی ہوئی میں ایمان لایا اللہ اور اس کے رسول پر اور مسلمان ہوا اور تلوار لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے دشمنوں سے قتال کیا یہاں تک مجھ کو یہ زخم پہنچے ۔ یہ کلام ختم کیا اور خود بھی ختم ہو گئے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ البتہ تحقیق وہ اہل جنت سے ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے بتلاؤ وہ کون شخص ہے کہ جو جنت میں پہنچ گیا اور ایک نماز بھی نہیں پڑھی۔ وہ یہی صحابی ہیں۔

عمرو بن ثابت

معلومات شخصیت
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوہ احد   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام و نسب

ترمیم

عمرو نام، اُصیرم لقب ،قبیلۂ اوس سے ہیں سلسلہ نسب یہ ہے ،عمرو بن ثابت بن وقش بن زغبہ بن زعوراء بن عبدالاشہل ،والدہ کا نام لیلی بنت یمان تھا اور حضرت حذیفہؓ بن یمان مشہور صحابی کی ہمشیر ہ تھیں۔

اسلام

ترمیم

ابتداً اسلام سے برگشتہ تھے ان کے قبیلے کے تمام زن و مرد حضرت سعدؓ بن معاذ کے اشارہ سے مسلمان ہو گئے تھے لیکن یہ اپنے اسی قدیم مذہب پر قائم تھے۔ لیکن غزوہ احد میں جب آنحضرت نے میدان کی تیاریاں کیں تو ان کے دل میں یکا یک حق و صداقت کا جوش پیدا ہوا، سنن ابوداؤد میں ہے کہ ایام جاہلیت میں ان کا سودی لین دین تھا اور قرضداروں کے ذمہ قرض بہت باقی تھا، یہ اپنا روپیہ وصول کرکے مسلمان ہونا چاہتے تھے ؛ کیونکہ اسلام میں سود کی ممانعت تھی، احد کے موقع پر غالباً روپیہ وصول ہو چکا تھا، اس لیے مسلمان ہونے کا عزم بالجزم کر لیا۔

غزوہ احد کی روانگی کے وقت تمام صحابہؓ کرام آنحضرت کے ساتھ تھے جن میں اُصیرم کے خاندان عبدالاشہل کے لوگ بھی تھے، اصیرم اپنے محلہ میں ہر طرف سناٹا دیکھ کر گھر آئے پوچھا میرے خاندان کے لوگ کہاں گئے؟ جواب ملا،احد۔ گو اس وقت تک انھوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، تاہم زرہ اور خود پہنی اور گھوڑے پر سوار ہو کر احد کی طرف روانہ ہو گئے۔ آنحضرت کے پاس پہنچ کر پوچھا،لڑوں یا مسلمان ہوں؟ ارشاد ہوا دونوں کام کرو پہلے مسلمان ہو، پھر لڑائی میں شرکت کرو، عرض کیا یا رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے ایک رکعت نماز بھی نہیں پڑھی، ایسی صورت میں اگر مارا گیا تو کیا میرے لیے بہتر ہوگا، فرمایا ہاں ! چنانچہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔ [1]

احد کی شرکت اور شہادت

ترمیم

اور اصیرم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلوار لے کر میدان کی طرف روانہ ہوئے مسلمانوں کو اس کا بالکل علم نہ تھا، ان کو دیکھ کر کہا تم یہاں سے واپس جاؤ جواب دیا کہ میں بھی مسلمان ہوں۔ لڑائی شروع ہوئی تو نہایت بہادری سے مقابلہ کیا اور کفار کی صف میں کھڑے بہت سے زخم کھائے ،زخم اتنے کاری تھی کہ اٹھنے کی بھی تاب نہ تھی، قبیلہ عبدلاشہل کے لوگ شہداء کی تلاش میں نکلے تو دیکھا کہ اُصیرمؓ بھی مردوں میں پڑے ہیں،ابھی تک کچھ کچھ سانس آرہی تھی،پوچھا تم کہاں؟ شاید قومی حمیت یہاں کھینچ لائی،بولے نہیں میں مسلمان ہوکر خدا اور رسول کی طرف سے شریک ہوا۔ میدان سے اٹھا کر گھر لائے گئے، تمام خاندان میں یہ خبر مشہور ہو گئی، قبیلہ اشہل کے سردار حضرت سعد بن معاذؓ نے سنا توان کے گھر تشریف لائے اوران کی بہن سے واقعہ دریافت کیا،ابھی یہ مجمع منتشر نہ تھا کہ روح مطہر جسم سے پرواز کر گئی۔

آنحضرت کو خبر ہوئی تو فرمایا: عملا قلیلا واجرا کثیرا اس نے عمل تھوڑا کیا لیکن اجر بہت پایا بعض روایتوں میں ہے کہ انہ لمن اھل الجنۃ وہ یقینا جنتی ہیں۔ چونکہ واقعہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے عجیب تھا، اس لیے لوگوں نے اس کے یاد رکھنے میں خاص اہتمام کیا، حضرت ابو ہریرہؓ اپنے شاگردوں سے دریافت فرماتے کہ کوئی ایسا شخص بتاؤ جس نے ایک وقت میں بھی نماز نہ پڑھی ہواور سیدھا جنت میں داخل ہو گیا ہو جب لوگ جواب نہ دیتے تو فرماتے " اُصیرم عبدالاشہل"[2][3] [4] [5]

بغیر نماز جنت

ترمیم

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ لوگوں سے پوچھا کہ ایک ایسے آدمی کے متعلق بتاؤ جو جنت میں داخل ہوگا حالانکہ اس نے نماز بھی نہیں پڑھی لوگ جب اسے شناخت نہ کر سکے تو انھوں نے ابوہریرہ سے پوچھا کہ وہ کون ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ اصیرم جس کا تعلق بنو عبد الاشہل سے تھا اور اس کا نام عمرو بن ثابت بن وقش تھا۔

اصیرم کا واقعہ

ترمیم

حصین کہتے ہیں کہ میں نے محمود بن لبید سے پوچھا کہ اصیرم کا کیا واقعہ ہوا تھا؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ اپنی قوم کے سامنے اسلام لانے سے انکار کرتا تھا غزوہ احد کے موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) جب جبل احد کی طرف ہوئے تو اسے اسلام کی طرف رغبت ہوئی اور اس نے اسلام قبول کر لیا پھر تلوار پکڑی اور روانہ ہو گیا۔ وہ لوگوں کے پاس پہنچا اور لوگوں کی صفوں میں گھس گیا اور اس بے جگری سے لڑا کہ بالآخر زخمی ہو کر گر پڑا بنو عبد الاشہل کے لوگ جب اپنے مقتولوں کو تلاش کر رہے تھے تو انھیں میدان جنگ میں وہ بھی پڑا نظر آیا وہ کہنے لگے کہ واللہ یہ تو اصیرم ہے لیکن یہ یہاں کیسے آ گیا؟ جب ہم اسے چھوڑ کر آئے تھے تو اس وقت تک یہ اس دین کا منکر تھا پھر انھوں نے اس سے پوچھا کہ عمرو! تم یہاں کیسے آ گئے؟ اپنی قوم کا دفاع کرنے کے لیے یا اسلام کی کشش کی وجہ سے؟ اس نے کہا کہ اسلام کی کشش کی وجہ سے میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آیا اور میں مسلمان ہو گیا پھر اپنی تلوار پکڑی اور روانہ ہو گیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہمراہ جہاد میں شرکت کی اب جو مجھے زخم لگنے تھے وہ لگ گئے تھوڑی دیر میں وہ ان کے ہاتھوں میں دم توڑ گیا لوگوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے اس کا تذکرہ کیا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ اہل جنت میں سے ہے۔[6] [7][8][9]

حوالہ جات

ترمیم
  1. أسد الغابة في معرفة الصحابة - عمرو بن ثابت الأوسي آرکائیو شدہ 2020-05-11 بذریعہ وے بیک مشین
  2. (سیر الصحابہ تذکرہ احیرم،اصیرم)
  3. (اصابہ تذکرہ اصیرم)
  4. (اسدالغابہ تذکرہ اصیرم ،عمرو بن ثابت)
  5. الإصابة في تمييز الصحابة - عمرو بن ثابت آرکائیو شدہ 2017-04-20 بذریعہ وے بیک مشین
  6. الاصابہ في تمييز الصحابہ مؤلف : احمد بن علی بن حجر العسقلانی ،ناشر : دار الجيل - بيروت
  7. http://shamela.ws/browse.php/book-9767/page-2243 آرکائیو شدہ 2017-04-20 بذریعہ وے بیک مشین, عمرو بن ثابت, الإصابة في تمييز الصحابة, diakses 11 Maret 2019
  8. http://shamela.ws/browse.php/book-1110/page-4053 آرکائیو شدہ 2020-05-11 بذریعہ وے بیک مشین, عمرو بن ثابت الأوسي, أسد الغابة ط العلمية, diakses 11 Maret 2019
  9. Haditsnya disahihkan oleh Ibnu Hajar dalam Fathul Bary, (6/25), https://www.alukah.net/sharia/0/96331/ diakses 11 Maret 2019